Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, January 14, 2020

کیا بھارت کو ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کی کوشش ناکام ہو رہی ہے۔۔۔۔۔ایک تجزیہ۔

بھارت میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے متعدد ارکان پالیمان اور رہنماؤں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اگرچہ انہیں نئے متعارف کرائے گئے شہریت کے قانون اور قومی سطح پر شہریت کی رجسٹریشن کے اقدام کے خلاف مسلمان برادری سے کسی قدر غم و غصے کا اظہار کیے جانے کی توقع تھی، تاہم انہیں اس بات کی قطعاً توقع نہیں تھی کہ ان کے نتیجے میں ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑیں گے
نٸی دہلی /صداٸے وقت /نماٸندہ۔
=============================
بھارت میں ان نئے اقدامات کو مسلم مخالف قرار دیا جا رہا ہے اور بہت سے بھارتی اسے ملک کی سیکولر شناخت کے منافی قرار دے رہے ہیں۔ بھارتی حکومت کے ان اقدامات کے سلسلے میں ملک بھر میں دو ہفتے سے شدید مظاہرے جاری ہیں جن میں ہلاکتوں کی تعداد 21 تک پہنچ گئی ہے۔
بھارتی اور غیر ملکی تجزیہ کار اس صورت حال کو نریندر مودی کیلئے 2014 میں برسر اقتدار آنے کے بعد سب سے بڑا چیلنج قرار دے رہے ہیں۔
حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے متعدد اراکین پارلیمان نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی رائٹرز کو بتایا ہے کہ وہ اتنے بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہروں سے حیرت زدہ رہ گئے ہیں اور اب وہ اپنے ارکان کو ہدایت دے رہے ہیں کہ وہ اپنے اتحادیوں اور مخالفوں کے ساتھ رابطے کر کے ان مظاہروں کی شدت کم کرنے کی کوشش کریں۔
حکمران جماعت کے رکن پارلیمان اور جونیئر مرکزی وزیر سنجیو بالیان نے رائٹرز کو بتایا کہ مجھے بالکل توقع نہیں تھی کہ مظاہرے ہوں گے۔ بی جے پی کے دیگر رہنما بھی ایسے مظاہروں کی پیش بندی کرنے میں ناکام رہے۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ان احتجاجی مظاہروں سے وزیر اعظم مودی کو بڑا دھچکا پہنچا ہے، ان سے پارلیمان میں ان کی بھرپور اکثریت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے۔ انہوں نے عوامی سطح پر ایسی حکمت عملی اختیار کرنے کا وعدہ کیا ہے جس سے بھارت کو 2025 تک پانچ کھرب ڈالر کی معیشت میں تبدیل کیا جا سکے۔
تاہم، تجزیہ کار کہتے ہیں کہ معاشی ایجنڈے پر توجہ دینے کے بجائے شہریت کے متنازعہ قانون نافذ کرنے کے باعث ملک میں غم و غصے کی شدید لہر پیدا ہوئی ہے۔
ارون دتی رائے، بھارتی مصنفہ اور حقوق انسانی کی علمبردار

دوسری طرف بھارت کے متعدد مصنف اور فنکار بھی شہریت کے نئے قوانین کے خلاف احتجاج میں شامل ہو گئے ہیں۔ معروف مصنفہ اور سماجی کارکن ارون دتی رائے نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ،"ہمیں ایک دوسرے کی حفاظت کرنا ہوگی۔ اور اب جبکہ سرکاری سیکیورٹی اہلکار گھروں میں داخل ہونے لگے ہیں خاص طور پر مسلمان علاقوں میں، ہمیں ہر صورت ایسے علاقوں میں گشت کرنا ہوگا اور اس کیلئے خود اپنے تحفظ کو خطرے ڈالنا ہوگا، جب ہم ایک دوسرے کی حفاظت کریں گے تو ہی عظیم بنیں گے۔‘‘
دوسری طرف بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں شہریت کے اندراج کا نفاذ کر دیا گیا ہے جس کے باعث لگ بھگ 20 لاکھ افراد بھارتی شہریت سے محروم ہو گئے ہیں۔ ان میں سے نصف ہندو اور نصف مسلمان ہیں۔
ایک سینئر کانگریس رہنما پرتھوی راج چون نے نیوز ایجنسی رائٹرز کو بتایا ہے کہ بھارت کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ مذہب کی بنیاد پر قانون بنائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ حکمران جماعت بی جے پی کی بھارت کو ایک ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کی حکمت عملی ناکام ہو رہی ہے