Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, January 2, 2020

مظفرنگرپولیس نے انسانیت کوکیاشرمسار: مدرسے کے استاد کے ساتھ کی بدسلوکی، اتارے کپڑے۔

پولیس نے مولانا کے اہل خانہ کو فون کرکے کہاکہ انہیں جلدہی رہا کردیاجائیگا اوروہ سیول لائنس بیراکس آتے وقت مولانا کے کپڑے ساتھ لائیں اورمولانا کواپنے ساتھ لیے جائیں

لکھنٶ۔اتر پردیش/صداٸے وقت /ذراٸع۔/مورخہ ٢جنوری ٢٠٢٠۔
==============================
اترپردیش میں مظفرنگرپولیس پرایک یتیم خانے اورمدرسے استاد اورانکے ساتھ 100 سے زائد طلبا کے ساتھ بدسلوکی کرنے کا الزام لگایاجارہاہے۔مقامی لوگوں کا کہناہے کہ 20 دسمبر کو سعادت مدرسہ ویتیم خانے کے قریب شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرنے پرپولیس نے سعادت مدرسہ ویتیم خانے کے استاد 66 سالہ مولانا اسدرضاحسینی سمیت اسی مدرسے کے 100 سے زائد طلبا کوحراست میں لیے لیاتھا۔ان طلبا میں کئی طلبا نابالغ بھی تھے۔ مولانا اسد رضا حسینی نے پولیس پرالزام لگاتے ہوئے کہا کہ پولیس حراست کے دوران انہیں رات میں ننگا کرکے ذہینی اذیتیں دی گئی ہے.
پولیس حراست سے رہا ہونے کے بعد مولانا اسدرضاحسینی اورمتاثرہ طلبا نے پولیس بریریت کی جوداستان سنائی ہے وہ نہ اترپردیش پولیس فرقہ پرستی کواجاگر کررہی ہے۔ ٹیلی گراف اخبارمیں 29 دسمبرکوشائع رپورٹ کے مطابق 66 سالہ مولانا اسد رضا حسینی کے پیروں میں اتنے زخم ہیں کہ وہ چلنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ مولانا اسد رضا حسینی اب اپنے رشتہ داروں کواپنا دیدار کرانے سے بھی گریز کررہے ہیں کیونکہ پولیس کے ظلم وستم سے وہ صدمہ میں ہیں۔
سعادت مدرسہ ویتیم خانے کے قریب رہنے والے مقامی کانگریس لیڈرو سابق رکن پارلیمنٹ سعیدالزماں کے فرزند سلمان سعید کا کہناہے کہ پولیس نے مدرسے کے معصوم طلبا کے ساتھ غیرانسانی سلوک کرتے ہوئے انہیں طہارت خانے کے استعمال کی اجازت نہیں دی ہے جس کی وجہہ سے کئی طلبا کے جسم سے خون بہہ رہاتھا۔

مولانا اسد رضا حسینی، سعادت مدرسے ویتیم خانے کے نگراں کارہیں۔اسی مدرسے کے قریب20دسمبرکوشہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے کے بعد پولیس نے مولانا اسد رضا حسینی کی لاٹھیوں سے پٹائی کرتے ہوئے گھسیٹ کرہاسٹل سے باہر نکالا۔پولیس حراست سے رہائی کے بعد مولانا اسد رضا حسینی نے اپنے اہل خانہ کو بتایا کہ انہیں 24 گھنٹوں تک سیول لائنس بیراکس، میں رکھا گیا۔ جہاں انہیں ننگا کرکے پوری رات پیٹائی کی گئی۔وہیں مدرسے کے طلبا پڑوسیوں نے ٹیلی گراف اخبارکو بتایا کہ قریبی روم میں 14 سے 21 سال کے مدرسہ طلبا کو رکھاگیاتھا۔انہیں بھی لاٹھیوں سے پیٹا گیا اور انہیں رات بھرگھٹنے پرٹہرایاگیا۔وہیں سلمان سعید کا کہناہے کہ بعض طلبا نے پولیس پر الزام لگایا ہے کہ ان  سے زبردستی جے شری رام  کا نعرہ لگایاگیا۔
مولانا اسد رضا حسینی، کے ایک رشتہ دار نے شناخت ظاہرنہ کرنے کی شرط پربتایاکہ پولیس نے مولانا کے اہل خانہ کو فون کرکے کہاکہ انہیں جلدہی رہا کردیاجائیگا اوروہ سیول لائنس بیراکس آتے وقت مولانا کے کپڑے ساتھ لائیں اورمولانا کواپنے ساتھ لیے جائیں۔اسد رضا حسینی کے اہل خانہ پرسکتہ طاری ہوگیاہے کہ پولیس نے انہیں مولانا کے کپڑے لانے کے لیے کیوں کہا؟۔ جب مولانا اہل خانہ کرتا پائجامہ لیکر سیول لائنس بیراکس پہنچے توپولیس نے ان سے کپڑے دینے کو کہا اورپھر مولانا اسد رضا حسینی کو کپڑے دیئے گئے۔ جس کے بعد وہ باہرآئے ۔رشتہ دار نے ٹیلی گراف اخبارکو بتایاکہ مولانا اسد رضا حسینی چل بھی نہیں پارہے تھے انکے ہاتھوں اور پیروں پربہت سے زخم تھے۔تاہم بہت ہی مشکل سے اہل خانہ نے مولانا اسد رضا حسینی کو اپنی گاڑی میں گھر لیے گئے۔اس پورے واقعہ کے بعد مولانا اسد رضا حسینی رات کے اوقات میں گھبراکربیدارہورہے ہیں۔ وہ پولیس کی ظلم وبربریت سے خوفزدہ ہے اوررشتہ داروں سے ملاقات کرنے سے ڈررہے ہیں۔
ٹیلی گراف اخبارکی رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ اخبارکے نمائندے نے اس پورے معاملہ پرمولانا اسد رضا حسینی کے اہل خانہ سے ربط کرنے کے لیے وہ انکے گھرگئے۔ لیکن گھرمیں موجود ایک خاتون نے نمائندے سے بات کرنے سے انکار کردیا۔خاتون نے نمائندے سے مخاطب ہوکرکہا۔یہاں مسلمان،بہت خوفزدہ ہے۔ رات کوپولیس آئیگی کسی کو پتہ نہیں ہے پولیس آتی اورتوڑپھوڑکرکے چلی جاتی ہے۔تم دہلی سے آئے ہو، ہمارے بارے میں لکھ کرچلیے جاؤگے، لیکن ہمیں یہاں ہمارے بچوں کے ساتھ رہناہے ۔ ہم ایک ایسے دورمیں زندگی گزاررہے کہ جہاں منہ بھی نہیں کھول سکتے ہیں۔
جب ٹیلی گراف کے نمائندے سوال کیاکہ پولیس بربریت کے متعلق مولانا اسد رضا حسینی کے اہل خانے نے ضلع انتظامیہ سے شکایت کی ہے توخاتون نے برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ جب پولیس اورحکومت ظلم بن گئی ہے توہم کس سے رجوع ہو؟اس پورے معاملے پرٹیلی گراف اخبارنے مظفرنگرپولیس انتظامیہ سے بات چیت کرنے کی کوشش کی تاہم محکمہ پولیس مولانا اسد رضا حسینی کے پڑوسیوں اوررشتہ داروں کے الزامات
پولیس نے انہیں مولانا کے کپڑے لانے کے لیے کیوں کہا؟۔ جب مولانا اہل خانہ کرتا پائجامہ لیکر سیول لائنس بیراکس پہنچے توپولیس نے ان سے کپڑے دینے کو کہا اورپھر مولانا اسد رضا حسینی کو کپڑے دیئے گئے۔ جس کے بعد وہ باہرآئے ۔رشتہ دار نے ٹیلی گراف اخبارکو بتایاکہ مولانا اسد رضا حسینی چل بھی نہیں پارہے تھے انکے ہاتھوں اور پیروں پربہت سے زخم تھے۔تاہم بہت ہی مشکل سے اہل خانہ نے مولانا اسد رضا حسینی کو اپنی گاڑی میں گھر لیے گئے۔اس پورے واقعہ کے بعد مولانا اسد رضا حسینی رات کے اوقات میں گھبراکربیدارہورہے ہیں۔ وہ پولیس کی ظلم وبربریت سے خوفزدہ ہے اوررشتہ داروں سے ملاقات کرنے سے ڈررہے ہیں۔
ٹیلی گراف اخبارکی رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ اخبارکے نمائندے نے اس پورے معاملہ پرمولانا اسد رضا حسینی کے اہل خانہ سے ربط کرنے کے لیے وہ انکے گھرگئے۔ لیکن گھرمیں موجود ایک خاتون نے نمائندے سے بات کرنے سے انکار کردیا۔خاتون نے نمائندے سے مخاطب ہوکرکہا۔یہاں مسلمان،بہت خوفزدہ ہے۔ رات کوپولیس آئیگی کسی کو پتہ نہیں ہے پولیس آتی اورتوڑپھوڑکرکے چلی جاتی ہے۔تم دہلی سے آئے ہو، ہمارے بارے میں لکھ کرچلیے جاؤگے، لیکن ہمیں یہاں ہمارے بچوں کے ساتھ رہناہے ۔ ہم ایک ایسے دورمیں زندگی گزاررہے کہ جہاں منہ بھی نہیں کھول سکتے ہیں۔

جب ٹیلی گراف کے نمائندے سوال کیاکہ پولیس بربریت کے متعلق مولانا اسد رضا حسینی کے اہل خانے نے ضلع انتظامیہ سے شکایت کی ہے توخاتون نے برہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ جب پولیس اورحکومت ظلم بن گئی ہے توہم کس سے رجوع ہو؟اس پورے معاملے پرٹیلی گراف اخبارنے مظفرنگرپولیس انتظامیہ سے بات چیت کرنے کی کوشش کی تاہم محکمہ پولیس مولانا اسد رضا حسینی کے پڑوسیوں اوررشتہ داروں کے الزامات کے متعلق بات کرنے سے انکارکردیا۔۔