Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, March 3, 2020

تاریخ نے تاریخ کو پھر یاد دلاٸی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک تاریخی کالم۔


از/ انس بجنوری /صداٸے وقت /عاصم طاہر اعظمی۔
==============================
خلافت عثمانیہ کے زوال کی کرب انگیز داستان بیان کرنا اور مکمل ہوش و حواس کے ساتھ اسے صفحات تحریر پر نقش کردینا ایک عظیم مجاہدہ اور نہایت کٹھن امتحان ہے،خلافت عثمانیہ کی تاریخ پڑھ کر جو ایمانی عزائم دلوں میں جنم لیتے ہیں؛  وہیں اس کے زوال کے قصے سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔۔جب بھی "یوم سقوط خلافت" آتا ہے تو حرم گاہ ، عظیم اسلامی یونیورسٹی اور دیگر اسلامی قلعے اشک ریز ہوجاتے ہیں۔۔۔ 
اس لیے کہ3/مارچ ملت اسلامیہ کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے اس دن کو  مورخین اسلام نے روشنائی نہیں بل کہ اشک و خون سے تیار کی گئی دوات سے صفحات تاریخ پر رقم کیا ہے۔۔۔ اس تاریخ میں الفاظ نہیں فقط  سسکیاں اور آہیں نظر آتی ہے۔۔۔کیونکہ اس دن عربوں کے زوال کے بعد ملت اسلامیہ کی سب سے عظیم طاقت "خلافت عثمانیہ"کے وجود و تشخص کو ختم کردیا گیا تھا۔۔۔  "خلافت عثمانیہ" کے زوال سے مسلم امہ کو جو بہ حیثیت مجموعی نقصان پہونچا اور اس کے فقدان سے مسلم امہ کی پیٹھ پر جو کاری ضرب لگی ہے اس کا علاج ابھی تک کار آمد نہ ہوسکا۔۔۔۔۔
چاک کردی ترک ناداں نے خلافت کی قبا 
سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ!!

امت محمدیہ کا لاغر وجود 3/مارچ 1924 میں دفنا دیا گیا تھا جب کہ سلطنت عثمانیہ کے آخری سلطان عبد المجید ثانی کو در بدر کر کے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ کر دیا گیا تھا
اور پھر اس وقت لارڈ کرزن نے یہ تاریخی الفاظ کہے تھے کہ:
"معاملہ یہ ہے کہ ترکی تباہ ہو چکا اور اب کبھی دوبارہ نھیں اٹھ سکے گا، کیوں کہ ہم نے اسکی روحانی طاقت یعنی اسلام اور خلافت کو تباہ کر دیا ہے"

لارڈ کرزن نے یہ الفاظ خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے وقت کہے تھے۔۔۔۔ گردش ایام نے ثابت کردیا کہ اس کا ایک ایک لفظ سچ ثابت ہوا، خلافت کے خاتمے سے مسلمانوں کا جو نقصان ہوا اس کی تلافی آج تک نہ ہو سکی،  خلافت عثمانیہ کے خاتمے میں جہاں پہلی جنگ عظیم وجہ بنی وہیں عربوں نے خلافت کی پیٹھ پر غداری کا وہ خنجر مارا جو تا قیامت یاد رکھا جائے گا، استعماری طاقتوں نے لارنس آف عربیہ کے ذریعے عربوں کے ساتھ مل کر سازشوں کے وہ جال بنے کہ اسلامی تاریخ آج بھی خون کے آنسو روتی ہے۔۔۔۔
خلافت عثمانیہ کے زمانے میں خلافت کی جڑیں ایشیا سے لے کر وسطی یورپ تک پھیلی ہوئی تھیں، ہندوستان اور ایران کو چھوڑ کر اسی فیصد مسلمان خلافت کے جھنڈے تلے جمع تھی۔۔۔۔۔۔ نہ کوئی سعودی عرب تھا نہ قطر نہ لیبیا اور نا ہی کویت، استعماری طاقتوں نے خلافت کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے مسلمانوں کو نیشن سٹیٹس میں بانٹ دیا اور انکی حکمرانی بہ طور انعام ان عرب شیخوں کو دے دی جنھوں نے خلافت کے خاتمے میں استعماری طاقتوں کی مدد کی، انگریز جانتا تھا کہ خلافت ہی مسلمانوں کی اصل اساس ہے جو انھیں متحد رکھ سکتی ہے اس لیے انھوں نے اس پر مسلمانوں کے ذریعے ہی ایسی کاری ضرب لگائی کی آج خلافت کا نام لینا بھی دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے۔  آج مسلمان مفادات کے چادر اوڑھے بکھرے ہوئے ہیں آج مسلمان مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں آج مسلمان اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے زوال کی آخری حد کو چھو رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ ۔

خلافت کے خاتمہ کے بعد امت کی حالت ایسی ہوگئی جسے پرورش طلب بچہ اپنے والدین کے سائے سے محروم ہو جائے اور خود غرض دنیا میں اپنی بقا کی جنگ لڑنے کیلئے تنہا رہ جائے۔ خلافت کے خاتمہ کے ساتھ ہی استعماری کفار بھوکے بھیڑیوں اور گدھوں کی طرح اس امت پر حملہ آور ہوگئے۔ انہوں نے اس امت کا خون چوسنے کے لیے ایک دوسرے سے لڑنے سے بھی گریز نہ کیا۔ اسلامی شریعت کو معطل کر دیا گیا۔ سرزمین خلافت کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم کر دیا گیا اور ہر ریاست کو اپنا آئین ، قانون، قومیت اور جھنڈا دے کر تقسیم کر دیا گیا۔ اسلام کی عادلانہ معیشت کو مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام سے بدل دیا گیا اور مسلمانوں کے معاملات کی نگرانی اسلامی حکومت کے بجائے سیکولرکردار حکومتی ڈھانچے کے ذریعہ کی جانے لگی ۔۔۔۔
خلیفہ عبد المجید ثانی کی معزولی اور سقوط خلافت کا اقدام امت مسلمہ کے لئے بیسویں صدی کا سب سے بڑا حادثہ تھا۔ مسلمانوں کا مستقبل تاریک ہوگیا مقاماتِ مقدسہ اغیار کے قبضہ میں چلے گئے۔ عالمِ عرب میں اسرائیل نے جنم لیا، ہندوستان دو دھڑ میں تقسیم ہوگیا، افغانستان میں آتش فشاں پھٹا، بابری مسجد نے چیخ و پکار کی، وادئ کشمیر مسلمانوں کا مقتل بن گئی عراق کا عرق نکال دیا ، لبنان خون میں نہا گیا، شام اور برما کے مظلوم مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے ،مسلمان یتیم اور لاوارث ہوگئے۔۔۔۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اِس اُمتِ مظلوم پر پہلے بھی لا تعداد خونچکاں سانحے گزر چکے تھے، اس کی داستان میں اُحد، جمل وصفین کی کی شہادت گاہیں بھی ہیں اور منصورہ اور خوارزم کی رزم گاہ ہوں میں ہونے والی حزیمت بھی۔ تاتاریوں کے ہاتھوں ہونے والی تباہی کے مناظر بھی یادوں میں تازہ ہیں اور صلیبیوں کی لائی ہوئی افتاد بھی بھولی نہیں، اندلس و دہلی کا سقوط بھی یاد ہے اور اقصٰی کے چھن جانے کی مصیبت بھی۔ ایک سے بڑھ کر ایک حادثہ گزر چکا تھا۔ یہ زخم گہرے ضرور تھے لیکن مہلک ہرگز نہیں۔ یہ سخت جان اُمت ہر زخم کے بعد پہلے سے زیادہ ہمت اور جرات کے ساتھ اُٹھ کھڑی ہوتی رہی ہے۔ اسی لیے ظالموں نے "3 مارچ" کو وہ کاری وار کیا کہ سمجھا جانے لگا کہ اُمت کی کمر توڑ دی گئی اور شیرازہ بکھیر ڈالا گیا ہے۔

"3مارچ" وہ منحوس دن جب ترکی پر مسلط مصطفی کمال پاشا نے خلافت کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔ باوجود اس کے کہ ترکی کو جمہوریہ بنانے کے اعلان کے ساتھ ہی "18 اپریل 1923ء" کو اپنی تقریر میں اعلان کر چکا تھا کہ 'خلافت ایک مقدس اسلامی ادارہ ہے اس لئے "اعلٰی تُرک قومی اسمبلی" اسے برقرار رکھنے کی ضمانت دیتی ہے'۔ لیکن "3مارچ 1924ء" کو تمام وعدوں کو بلائے طاق رکھتے ہوئے ترک جمہوریہ کےقانون نمبر 431 کے تحت خلافت کے ادارے کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا گیا۔ یہ دن اچانک نہیں آیا تھا، بلکہ اس کے پس منظر میں دشمن کی صدیوں کی محنت تھی، ایک طرف اس کے خاتمے کی وجہ یہودی "فری میسن" کے ممبر مصطفی کمال پاشا اور عصمت انونو تھے تو دوسری طرف اس کی راہ ہموار کرنے میں یہودی "لانس آف عریبیہ" کے فریب خوردہ "ہاشمی النسب" شریف حسین اور اس کے فرزند فیصل شامل تھے۔

خلافت کےخاتمے نے گویا اُمت ِ مسلمہ سے اُس کی وہ ڈھال چھین لی جو اسے صدیوں سے دشمن کے وار سے محفوظ رکھے ہوئےتھی، وہ شجرِ سایہ دار کٹ گرا جو آلام اور مصاحب کی تیز دھوپ میں اس کی جائے پناہ ہوا کرتا تھا، وہ نخلستان تباہ ہو گیا جو زمانے کےریگستان میں اٹھنے والے ہر طوفان کی ذد میں آنے کے بعد اسکی آخری اُمید ہوا کرتا تھا۔ خلافت کے خاتمے کے ساتھ ہی اُمت کے حصے یوں بخرے ہوئے کہ یقین ہی نہیں آتا کہ کبھی یہ تمام مسلمان ملکوں اور خطوں سے ماورا ایک ملت ہوا کرتے تھے۔ ذلت، محکومی اور بے چارگی اس پر یوں مسلط ہوئی کہ اب گمان تک کرنا دشوار ہے کہ کبھی یہ اُمت اس کائینات میں جہانگیر و جہاندار رہی ہے۔

دشمن نے صرف خلافت کے خاتمے پر ہی اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس کے دوبارہ قیام کے راستے مسدود کرنے کی بھی اپنی سی سعی کر ڈالی۔ گروہی و مسلکی تعصب کو ہوا دے کر نفاق کے بیج بوئے۔ اُمت کے خطوں کو الگ الگ ٹکڑوں میں بانٹ کر انہیں وطن قرار دیا اور حُب الوطنی کے نام پر وطن پرستی کو اُمت ِتوحید میں رواج دیا۔ اُمت کی نئی نسل کو ان کی تاریخ سے بے بہرہ رکھ کرانہیں مغربی علوم، فکر و تہذیب کی حقانیت کا قائل کرنے کی کوشش کی۔ اُمت کے ایسے منافقین کو قابل فخر بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جو اسلام کا لبادہ اُٹھ کر دشمن کے گُن گاتے ہیں۔ ممالکِ اسلامیہ پر ایسےبدبخت حکمران مسلط کئے گئے جو اسلام کے بجائے دشمن کے وفادار ہیں۔

اسلام دشمنوں نے بظاہر اپنے ارادوں میں بڑی حد تک کامیابی حاصل کرلی، ایک ملت کا تصور خواب ہو کر رہ گیا، خلافت بھولی بسری داستان بنا دی گئی۔ لیکن یہ امت دشمن کی توقع سے کہیں زیادہ سخت جان ثابت ہوئی، کئی صدیوں کی جدوجہد کے بعد ہونے والے"سقوطِ خلافت" کو ابھی ایک صدی بھی نہ گزرنے پائی تھی کہ زمیں کے شرق و وسط سے خلافت کی احیا کی صدائیں بلند ہونا شروع ہو گئیں۔ امت کے جواں رنگ و خون کے بُتوں کوتوڑ کر ملتِ واحدہ میں جذب ہو رہے ہیں۔ کہیں احیائے خلافت کی صدا رگوں میں لہو گرما رہی ہے تو کہیں شعلہ جوالہ بن کر پھوٹ چکی ہے۔ مچلتے طوفان کو روکنے کی خاطر کی جانے والی چالوں کا بھودا پن نمایا ں ہو چکا۔ فیصلے کی گھڑی قریب آن پہنچی ہے۔

" 3مارچ " ہمیں یاد ہے، اس سال یعن 2020 کو خلافت کے سقوط کو پورے چھیانوے سال ہو جائیں گے۔ ہم عہد کرتے ہیں کہ ہم اس روزیعنی " یوم سقوط خلافت" کو یاد رکھیں گے ۔ غیروں کی عیاری اور ان کے ایجنٹوں کی مکاری کو کبھی نہیں بھولیں گے۔ ہر سال ہم اس روز کو "یوم احیائے خلافت "کے عنوان سے یاد کرتے رہیں گے، ہماری جدوجہد جاری رہے گی، یہاں تک کے خلافت کا ادارہ دوبارہ قائم نہیں ہوجاتا، وہ وقت اب زیادہ دور نہیں ہے، فتح کے خدوخال بہت نمایاں ہو چلے ہیں، امت کےنوجواں فتح مبین کا مژدہ اپنے خون سے در و دیوار پر لکھ رہےہیں، اب صرف چند ہی مہ و سال کا فرق ہے اور پھر وہ وقت یقینا آپہنچے گا جب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک
بزم گل کی ہم نفس باد صبا ہو جائے گی

پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغام سجود
پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی۔۔۔
علامہ اقبال اپنے مخصوص رنگ و آہن میں یہ پیشین گوئی فرما کر رخصت ہوگئے کہ:
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ میں نے قدسیوں سے، وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
مسلمان جتنا جلدی اپنی اصل اپنی اساس کی طرف لوٹیں گے اتنا ہی ان کے لیے بہتر ہے ورنہ تباہی بربادی ذلت کی داستان طویل ہوتی جائے گی اور امت کے اس شیر کو بیدار تو ہونا ہی ہے لیکن عین ممکن ہے کہ خدا ہماری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے اور وہی اس کا جھنڈا  بلند کریں کیوں کہ خدا اپنے دین کی سرفرازی اور سربلندی کے لیے ہمارا محتاج نہیں۔۔۔۔۔!!
ہے عیاں یورش تاتار کے فسانے سے
 پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔۔۔
 ہمیں پھر بھی مایوس نہیں ہونا چاییئے عروج و زوال تو کائنات کا فطری مزاج ہےـــــــــ "طاقت" کو ایک دن "ناطاقتی" کا لباس پہننا ہی پڑتا ہے۔ فرعون و نمرود، شہرِ سدوم ہوں یا عاد و ثمود و ہامان و شداد ہوں۔۔۔۔۔۔۔ جابرانِ روم ہوں یا شاہانِ فارس، چنگیز و ہلاکو ہوں یا ہٹلر سب کے سب فنا ہوئے--------- روس و امریکہ و یورپ کی برتری بھی ایک عارضی سانحہ ہے۔ ان کے مادی جبروت سے خوفزدہ ہو کر اپنے موروثی عقائد کو ترک کر دینا یا اپنے اسلاف کی روش کو جھٹلا دینا، بدترین کم ہمتی اور شرمناک بزدلی کی دلیل ہے۔۔۔۔
اپنی ملت کو قیاس اقوام مغرب پر نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی!