Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, March 4, 2020

کورونا وائرس، اسباب و علاج۔۔۔۔۔ازڈاکٹر فیاض احمد علیگ۔


از/ڈاکٹر فیاض احمد( علیگ)
dr.faiyaz.alig@gmail.com
Mo. 9415940108
       ڈاکٹر فیاض احمد علیگ۔

                 صداٸے وقت         
                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(corona-virusحالیہ کورونا وائرس (2019-nCoV/COVID-19کا ظہور سب سے پہلے 30 دسمبر 2019ء کو چین کے ایک شہر ووہان میں ہوا ،اور دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف چین بلکہ دنیا کے تقریباً50 ممالک تک یہ وبا پھیل گئی حتی کہ وائٹ ہائوس نے اس کو National Public Health Emergency قرار دے دیا جبکہ عالمی ادارہ صحت (WHO) نے 30 جنوری 2020ءکو کورونا وائرس (2019-nCoV) کی اس وبا کو Public Health Emergency of International Concern (PHEIC) ہونے کا اعلان کر دیا اور اسی روز Center for Disease Control (CDC) نے چین سے یو ایس آنے والے تمام امریکی شہریوں کے لئے Federal Quarantine Order کا حکم بھی جاری کردیا،جس کی مدت ووہان سے پرواز کی تاریخ سے14 روز رکھی گئی۔ جس کا بنیادی مقصداس نئے وائرس سے یو ایس کی عوام کو محفوظ رکھنے کے ساتھ ہی اس علاقائی وبا (Endemic)کو عالمی وبا (Pandemic) میں تبدیل ہونے سے روکنا ہے۔ مزید برآں وہاں کے حکام نے تمام شہریوں کو Self-Quarantine کا بھی مشورہ دیا ہے۔ میڈیکل سائنس کے مطابق Isolation کامقصد بیمار افراد کو الگ تھلگ رکھنا ہوتاہے تاکہ وہ صحت مند افراد تک اس بیماری کو نہ پھیلا سکیں جبکہ Quarantine کا مقصد صحت مند افراد (جو کہ وبائی علاقہ سے آئے ہوں لیکن اس مرض میں مبتلاء نہ ہوں )کو الگ تھلگ رکھنا ہوتاہے۔ CDC کے ذمہ داران کے مطابق 50 سالوں میں یہ پہلا Federal Quarantine Order ہے۔اس سے قبل 1960ء میں Smallpox Evaluations کے وقت اس طرح کا Federal Quarantine Order جاری کیا گیا تھا۔ بیشترممالک نے چین بالخصوص ووہان سے آنے والے مسافروںکو 14 روز تک نہ صرف Mandatory Quarantine میں رکھنے کا اعلان کر دیا ہے بلکہ اس کے بعد بھی مزید ۱۴ روز تک ان کی حرکات و سکنات کو محدود رکھنے کا مشورہ دیا ہے۔
حکیم کبیرالدین بحیثیت مترجم
چین میں اس وائرس کی پیشگی اطلاع، وہاں کے ایک 43سالہ ماہر امراض چشم ڈاکٹر لی وین لیانگ نے دسمبر 2019ء کے اواخر میں ہی دے دیا تھا اور اپنے اس اندیشہ کو انھوں نے وہاں کی سوشل سائٹ پر شئیر بھی کیا تھا لیکن افسوس کہ چینی حکام اور انتظامیہ نے اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجا ئے الٹا ان کو افواہ پھیلانے کے جرم میں گرفتار کرلیاتھا۔ 30 دسمبر 2019ءکوجب یہ وائرس وبا کی صورت میں ظاہر ہو اور ایک بڑی آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا،تب جا کر چینی حکام اور انتظامیہ کو ہوش آیا۔ لیکن افسوس کہ اس وقت تک معاملہ قابو سے باہر ہو چکا تھا’’اب پچھتائے کا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت‘‘۔اس پورے واقعہ کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس بیماری کی پیشگی اطلاع دینے والا ڈاکٹر مریضوں کی خدمت کرتے ہوئے خود اس بیماری کا شکار ہو کر موت کی نیند سو گیا۔
جب تمہیں کسی سرزمین میں ’’طاعون‘‘ کی وبا کا علم ہو تو اس سرزمین میں داخل مت ہو۔اور جب کسی ایسی سرزمین میں ’’طاعون‘‘ پھیل جائے جہاں تم پہلے سے موجود ہو تو تم اس سرزمین سے باہر مت نکلو۔صحیح بخاری : 9653۔ باب:۔ما یذکر فی الطاعون

کورونا وائرس کی دہشت اب تک تھائی لینڈ، ہانگ کانگ، تائیوان، آسٹریلیا، سنگاپور، جاپان،جنوبی کوریا، ملیشیا،فرانس، کینڈا، ویتنام، نیپال، کمبوڈیا، روس، جرمنی، انڈیا، فلیپائن، سری لنکا، فن لینڈ، یونائٹڈ عرب عمارات،اٹلی، برطانیہ، اسپین،سویڈن، بیلجیم، یو کے، ایران، افغانستان، جارجیا، اسٹونیا، سویزر لینڈ، الجزائر، برازیل، مصر،بحرین، وغیرہ کے ساتھ ہی تقریباًتمام بر اعظموں تک پہنچ چکی ہے اور مذکورہ تمام ممالک میں اس کے مصدقہ ا ور مشتبہ مریض پائے جا رہے ہیں۔ صرف پاکستان ایسا ملک تھا جہاں فروری 2020ءکے اواخر تک ایک بھی مریض نہیں پایا گیا تھا۔ اس کی وجہ یہ رہی کہ پاکستان نے تمام ملکوں کی طرح چین میں موجود اپنے شہریوں کو اس وباء کے دوران چین سے واپس نہیں بلایا ،بلکہ ایک حدیث (جب تمہیں کسی سرزمین میں ’’طاعون‘‘ کی وبا کا علم ہو تو اس سرزمین میں داخل مت ہو۔اور جب کسی ایسی سرزمین میں ’’طاعون‘‘ پھیل جائے جہاں تم پہلے سے موجود ہو تو تم اس سرزمین سے باہر مت نکلو۔صحیح بخاری : 9653۔ باب:۔ما یذکر فی الطاعون)کا حوالہ دیتے ہوئے ان کو وہیں رکنے اور حفظان صحت کے اصولوں پر عمل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ گو کہ مذکورہ حدیث طاعون کے حوالے سے ہے لیکن آج بھی وبائی امراض سے تحفظ کا یہی بنیادی اصول ہے اور جدید میڈیکل سائنس بھی تمام وبائی امراض کی روک تھام کے لئے اسی اصول پر عمل کرتی ہے اور یقینا اسی اصول کی روشنی میںمیڈیکل سائنس کے جدید اصول حفظان صحت جیسے Isolation, Quarantine وغیرہ وجود میں آئے ہیں۔پاکستان نے اسی اصول اور حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے اپنے ملک کو اس وبا سے محفوظ رکھا تھا،لیکن 27 فروری 2020ء کو پاکستان میں بھی کورونا وائرس کے دو مصدقہ مریض پائے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہاں کی عوام میں بھی خوف و ہراس بڑھ گیا ہے ۔لیکن ابھی تک اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے کہ پاکستان میں یہ وائرس کہاں سے اور کس کے ذریعہ پہنچا؟
کورونا وائرس کی کے خوف اور اس کی دہشت سے تمام ممالک نے اپنے شہریوں کے لئے Level 4 Travel Advisory جاری کرتے ہوئے اپنے شہریوں سے یہ اپیل کی ہے کہ وہ فی الحال چین کا سفر نہ کریں۔ اس کی سنگینی کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے National Center for Immunization and Respiratory Disease کی ڈائرکٹر نے اس کی تشخیص کے لئے Blue Print for Their Diagnostic Tests بھی ایک پبلک سرور پر ڈال دیا ہے تاکہ اس کی تشخیص میں آسانی اور تیزی آسکے۔
بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے خوف سے 28 فروری کو چین نے حالات کو قابو سے باہر قرار دیتے ہوئے عالمی ادارہ صحت سے یہ درخواست کی ہے کہ وہ ملک میں ایمرجینسی صورت حال (State of Emergency ) کا اعلان کر دے۔ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ٹینڈروس ایڈہینم نے کہا کہ COVID-19 نامی اس وائرس کا خطرہ عالمی سطح پر بہت زیادہ بڑھ چکا ہے،لیکن ہمارے پاس موقع ہے کہ ہم فوری اقدامات کر کے اس وائرس کو روک سکیں۔ چنانچہ ۲۸ فروری کو عالمی ادارہ صحت نے دنیا کی تمام حکومتوں سے کورونا وائرس کے خلاف فوری اور ہنگامی اقدامات کرنے کی اپیل کی ہے۔اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گو تیرس نے بھی اس حوالے سے کہا ہے کہ یہ وقت گھبرانے کا نہیں بلکہ تیاری کرنے کا وقت ہے۔ہمیں مکمل طور پر تیار رہنا ہو گا۔
29 فروری 2020ء تک دنیا بھر میں تقریباً84 ہزار سے زائد افراد کورونا وائرس سے متاثر ہو چکے ہیںاور مجموعی طور پر 2900 افراد ہلاک ہو چکے ہیںجن میں سب سے زیادہ چین میں ہلاک ہوئے جبکہ 43اموات کے ساتھ ایران دوسرے نمبر پر اور 13 اموات کے ساتھ جنوبی کوریا تیسرے نمبر ہے۔ کورونا وائرس کے خوف سے تمام ممالک اس سے بچاو کے لئے مختلف اقدامات کر رہے ہیں۔ سوئیزر لینڈ نے ملک بھر میں ایک ہزار سے زائد افراد پر مشتمل تمام اجتماعات پر پابندی لگا دی ہے۔ سعودی عرب نے بیرونی ممالک سے آنے والے عمرہ زائرین کی آمد اور سیاحتی ویزوں پر پابندی لگا نے کے ساتھ ہی خلیجی ممالک سے مکہ و مدینہ آنے والے زائرین پربھی عارضی طور پرپابندی لگا دی ہے۔ تاہم ایسے خلیجی باشندے جو Quarantine کے دور سے گزر چکے ہوں اورطبی جانچ کے بعد ان کی کورونا وائرس سے محفوظ رہنے کی تصدیق ہو چکی ہو ،وہ اس پابندی سے مستثنی ہیں
کورونا وائرس کیا ہے ؟ :۔
یہ در حقیقت وائرس کا ایک بڑاگروپ ہے جو عموماً جانوروں میں پایا جاتا ہے اور جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہو کر بیماری کا سبب بن جاتا ہے۔ اس طرح کی بیماری کو میڈیکل سائنس کی زبان میں Zoonotic Disease کہا جاتا ہے۔ بسا اوقات یہ انسان اور جانور دونوں کو متاثر کرتا ہے۔ اس کے نام کی وجہ تسمیہ اس کا CROWN SHAPE ہونا ہے۔ قیاس کیا گیا ہے کہ یہ وائرس عام طور سے چمگادڑ، سانپ بالخصوص سمندری سانپ اور دودھ پلانے والے جانوروں میں پایا جاتا ہے۔
کورونا وائرس کی شناخت سب سے پہلے 1960ء میں ہوئی تھی لیکن آ ج تک یہ پتہ نہیں چل سکا کہ آخر یہ کہاں سے آیااور اس کی پیدائش کے اسباب کیا ہیں؟
کورونا وائرس عام طور سے ناک کی غشاء مخاطی اور بالائی نظام تنفس میں تعدیہ کا سبب بنتاہے اور اس کی علامات نزلہ زکام یا فلو کی طرح ہی ہوتی ہیں لیکن اس کی کچھ صورتیں انتہائی خطرناک بھی ہوتی ہیں جبکہ اس کا انفیکشن Lower Respiratory Tract تک پہنچ جاتا ہے تو مریض سانس کی سنگین بیماریوں جیسے نمونیہ اور(ARDS (Acute Respiratory Distress Syndrome میں مبتلا ہو کر موت کے منہ میں جا سکتا ہے۔
کوروناوائرس کی درج ذیل اقسام نے وباء کی صورت میں اب تک بڑی تباہی مچائی ہے۔
1۔(SARS-CoV) Severe Acute Respiratory Syndrome
2۔(MERS-CoV) Middle East Respiratory Syndrome
3۔2019 novel corona virus (2019-nCoV) / COVID-19

1۔(SARS-CoV) Severe Acute Respiratory Syndrome:۔
اس کاسب سے پہلا مریض 2002ء کے اواخرمیں جنوبی چین کے علاقہ گانگ ڈانگ (Guangdong)میں پایا گیا تھا اور اس کے بعدبڑی تیزی سے یہ ہانگ کانگ،سنگاپور، ویتنام، تائیوان، اور ٹورنٹو وغیرہ جیسے30 ممالک تک پھیل گیا تھا۔ اگست 2003 کی ابتدا تک عالمی ادارہ صحت کے مطابق 30 ممالک میں کل8422 مریض پائے گئے تھے جن میں سے 912 مریضوں کی موت ہوگئی تھی۔ اس وبا کی شرح اموات دس سے چودہ فی صدی تک ہوسکتی ہے۔ تحقیقات کے بعد اس کو SARS-CoV کا نام دیا گیاتھا۔ اس کے بعد سے اس وبا کا ظہور نہیں ہوا۔ ہاں! کچھ مریض تجرباتی حادثات (Laboratory Accidents) یا پھر جانوروں اور انسانوں کے اختلاط یا پھر صحت ملازمین کے مناسب احتیاطی تدابیر نہ اپنانے کی وجہ سے اس وائرس کا شکار ہوئے۔

2۔(MERS-CoV) Middle East Respiratory Syndromeـ:۔
یہ ایک قسم کا Betacoronavirusہے جو درحقیقت چمگادڑوں میں پایا جاتا ہے۔ جبکہ اونٹوں کے اندر اس کی Antibodies پائی گئیں۔ اس وباء کا اصل ذریعہ اونٹوں کو ہی مانا جاتا ہے اور اونٹ ہی سب سے پہلے اس سے متاثر ہوئے۔ اسی وجہ سے اس بیماری کو’’ Camel Flu ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔لیکن آج تک اس کا اصل سبب معلوم نہ ہو سکا کہ یہ وائرس اونٹوں تک کیسے پہنچا ؟ MERS-CoV کا ظہور سب سے پہلے ستمبر 2012ء میں سعودیہ عربیہ میں ہوا ۔سعودی عرب کے بعد دیگر Middle East Countries جیسے افریقہ،ایشیاء،یوروپ وغیرہ جیسے 27 ممالک میں بھی یہ وبا کی صورت میں نمودار ہوا۔ اسی وجہ سے اس کا نام (MERS-CoV) رکھا گیا جیسا کہ اس کے نام سے ہی ظاہر ہوتا ہے ۔ اپریل ۲۰۱۴ء؁ میں انڈیانا میںپہلے امریکن مریض کی شناخت ہوئی اور اسے داخل اسپتال کیا گیا۔اس کے بعد فلوریڈا میں بھی ایک مریض کی شناخت ہوئی ۔ بعد میں تحقیقات سے پتہ چلا کہ یہ دونوں مریض سعودیہ عربیہ سے امریکہ آئے تھے۔
سائنٹفک بنیاد پر اس وائرس کی شناخت سب سے پہلے ایک Egyptian Virologist ڈاکٹر علی محمد ذکی نے سعودی عرب میں پھیلی وباء کے دوران ستمبر 2012ءمیں کیا۔انہوں نے اس وائرس کوسب سے پہلے ایک 60 سالہ مریض (جس کو نمونیہ اور Kidney Failure کی شکایت تھی )کے خون میں دریافت کیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر ذکی محمد نے اس نمونے کی تصدیق Rotterdam,Netherlands کے مشہور میڈیکل کالج (Erasmus Medical Center (EMC) ) کے مشہور Virologist ڈاکٹر Ron Fouchier سے کروائی ۔ ان کی تصدیق کے بعد ڈاکٹر ذکی محمد کی مذکورہ معلومات 15 ستمبر 2012ء کو ProMED-mail پر شائع کی گئیں۔ستمبر 2012ء میں ہی ایک 49 سالہ قطری باشندہ (جو حال ہی میں قطر سے یو۔کے۔ آیا تھا) کی موت کورونا وائرس کے نتیجہ میں سانس کی شدید تکلیف سے لندن کے ایک اسپتال میں ہوئی تھی۔ اس وقت لندن کی Health Protection Agency (HPA) نے اسے London 1 novel CoV/2012 کا نام دیا تھا۔ اس وقت عالمی ادارہ صحت نے اپنے تمام ممبر ممالک اور ان کے صحت کے اداروں اور ان کے ذمہ داران کو ہوشیار (Alert ) رہنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس وقت بھی اس وائرس کی تحقیق و تصدیق مذکورہ میڈیکل کالج کے ڈاکٹر Ron Fouchier اور ڈاکٹر ذکی محمد نے کی تھی ۔ ان کا یہ تحقیقی مقالہ 8 نومبر2012ء کو New England Journal of Medicine میں شائع ہوا تھا۔اس وقت ان لوگوں نے اس کا عارضی نام Human Corona- Erasmus Medical Center (HCoVEMC) رکھا تھا۔ مئی 2013ء میں International Committee on Taxonomy of Viruses کی تحقیقاتی ٹیم نے اس کو MERS-CoV کانام دیا اور اسی نام کو عالمی ادارہ صحت نے بھی منظور کیا جسے Novel Corona Virus 2012 کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
مئی 2015ءمیں کوریا میں MERS کی وبا نمودار ہوئی تھی جس کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عرب ممالک کے بعد MERS کی یہ سب سے بڑی وباء تھی۔WHOکی رپورٹ کے مطابق نومبر 2019ء کے اواخر میں عالمی سطح MERS کے کل2494 مصدقہ مریض پائے گئے ،جن میں سے 858 مریضوں کی موت ہوئی۔WHO کے مطابق 2102 مریض صرف سعودی عربیہ میں تھے اور مرنے والوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ (780) سعودیہ عربیہ میں تھی۔اس کے مطابق سعوبیہ عربیہ میں اموات کی شرح 37.1% تھی جبکہ تمام ممالک کی شرح اموات بحیثیت مجموعی 34.4% تھی۔
چونکہ MERS-CoV کے تعدیہ کا اصل سبب اونٹوں کو مانا جاتا ہے اس لئے WHO نے اس وقت یہ مشورہ دیا تھا کہ اولاً تو اونٹوں کے قریب نہ جائیں اور جن لوگوں کا اونٹوں سے بار بار واسطہ پڑتا ہو اور وہ اونٹوں کے Contact میں رہتے ہوں وہ بار بار اپنے ہاتھوں کو صابن سے دھولیں۔ بیمار اونٹوں سے بالکل دور رہیں اور انہیں ہرگز نہ چھوئیں۔ اونٹ سے حاصل ہونے والی غذائوں سے پرہیز کریں اور ناگزیر صورت میں انہیں اچھی طرح پکا کر ہی استعمال کریں۔اونٹ کے پیشاب کو ہرگز استعمال نہ کریں ۔ (Middle East Countries کے کئی ممالک میں اونٹ کے پیشاب کو مختلف امراض میں بطور دوا استعمال کیا جاتا ہے۔)
دسمبر 2019ء کے اواخر میںکورونا وائرس کی ایک نئی قسم نے چین میں دستک دی اور ہزاروں لوگوں کو موت کی اآغوش میں پہنچا دیا۔ چین میں یہ وباء اس کے مشہور شہرووہان کے سمندری غذائی بازار اور جانوروں کے بازار سے شروع ہوئی تھی اس لیے چینی حکام نے ووہان میں موجود دونوں بازاروں کو پہلی فرصت میں بند کردیا ہے۔ لیکن آج تک اس کے اصل سبب کا پتہ نہیں چل سکا ہے کہ آخر یہ اتنی تیزی سے کیسے پھیلا اور وقت رہتے اس پرقابو کیوں نہیں پایا جا سکا ؟
یہ وائرس بھی سابقہ کورونا وائرس کی طرح چمگادڑ، سانپ بالخصوص سمندری سانپ اور دودھ پلانے والے جانوروں میں ہی پائے جانے پر قیاس ہے۔ چونکہ چین کے لوگ چمگادڑ اور سانپ دونوں کا گوشت اور ان کا سوپ بکثرت استعمال کرتے ہیں، اس لئے اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ وائرس ان کے ذریعہ ہی انسانوں تک پہنچے ہوں۔ لیکن وہیں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ چینی لوگ یا بہت سے دیگرجنگلی قبائل کے لوگ صدیوں سے سانپ اور دیگر جنگلی و سمندری جانوروں کاگوشت بطور غذا استعمال کرتے آرہے ہیں تو اس سے قبل یہ بیماری یا وبا کیوں نہیں پھیلی۔؟ اس پہلو پر بھی سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں چین خود اپنی کسی چال میں پھنس گیا؟ یا پھرکسی دشمن کی سازش کا شکار ہو گیا؟ جیسا کہ کئی نیوز چینلوں اور خبر رساں ایجینسیوں نے یہ دعوی کیا ہے کہ چین خود ا پنے یہاں Biological Weaponsبنا رہا تھا اور خود اس کی اپنی تجربہ گاہ سے یہ وائرس لوگوں میں پھیلا۔ اس پہلو سے بھی اس کی تحقیقات ہونی چاہییں۔ اس لئے کہ موجودہ دور میں ایٹمی ہتھیاروں اور میزائل سے زیادہ خطرناک حیاتیاتی ہتھیار (Biological Weapons) ہوتے جا رہے ہیں جن کی مدد سے بغیر سامنے آئے کسی بھی ملک کو بآسانی تباہ کیا جا سکتا ہے۔بہر کیف ………. وجہ چاہے جو بھی چین اس وقت پوری طرح تباہ ہو چکا ہے اور اس کے بھرے پرے شہر ویرانے میںتبدیل ہو چکے ہیں اور وہاں کے تمام شہری اپنے ہی گھروں میں قید ہو چکے ہیں۔ اس کی معیشت تباہ ہو چکی ہے اور بیرونی دنیا سے اس کا ناطہ ٹوٹ چکا ہے۔ حتی کہ اس وبا کو عالمی وبا (Pandemic) قرار دیے جانے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ 28 فروری کو عالمی ادارہ صحت نے دنیا کی تمام حکومتوں سے کورونا وائرس کے خلاف فوری اور ہنگامی اقدامات کرنے کی اپیل کی ہے۔عالمی خبررساں ادارے کے مطابق عالمی ادارہ صحت نے خبردار کیا ہے کہ مختلف ممالک میں ایسے افراد میں بھی کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے جو کبھی چین نہیں گئے۔یہ بہت بڑے خطرے کے محض ابتدائی آثار ہیں ۔عالمی ادارہ صحت نے اس صورت حال کو ’’ٹپ آف دا آئس برگ‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور صورت حال کی نگرانی کے لئے اپنے ایک وفد کو چین بھی بھیجا ہے۔
تحقیقات کے بعد بین الاقوامی صحت تنظیم (WHO)نے کو اس نئے وائرس کو پہلے 2019 novel corona virus (2019-nCoV). کا نام دیا پھر11 فروری2020ء کو WHO نے اس وائرس کو COVID-19 کا نام دیا ہے۔

اسباب ـ:۔
کورونا وائرس، چمگادڑ اور سانپ بالخصوص سمندری سانپ میںپایا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ مختلف دودھ پلانے والے جانوروں (Mammals) بالخصوص اونٹ وغیرہ میں ہوتا ہے ۔ اولاً یہ وائرس جانوروں سے انسانوںمیں پہنچتاہے، اس کے بعدایک انسان سے دوسرے انسان تک تیزی سے پھیلنے لگتاہے۔ یہ وائرس ایک انسان سے دوسرے انسان کو اس کے Droplets کے ذریعہ6 فٹ کی دوری تک متاثر کرسکتا ہے ۔اس کا تعدیہ بھی ٹھیک اسی طرح Droplets کے ذریعہ ہوتا ہے جیسے کہ دیگر سردی زکام اور فلو پیدا کرنے والے وائرس سے ہوتا ہے یعنی متاثرہ افراد کے کھانسنے، چھیکنے یا پھر ان کے ذریعہ استعمال کئے جانے والے سامان جیسے رومال ،تولیہ وغیرہ استعمال کرنے یا پھر ان سے ہاتھ ملانے ،بوسہ لینے سے بھی یہ تعدیہ ہو سکتا ہے۔ بسا اوقات اس سے متاثر مریض میں کوئی علامت نہ ہونے کے باوجود وہ دوسرے شخص کو متاثر کر سکتا ہے۔ چنانچہ نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع رپورٹ کے مطابق چین کی ایک جرمن کمپنی میں کام کرنے والی متاثرہ عورت نے کوئی علامت نہ ہونے کے باوجود اس کمپنی کے چار افراد کو اس تعدیہ سے متاثر کیا جبکہ خود اس کے اندر اس وقت تک کوئی علامت ظاہر نہیں ہوئی تھی۔
اس وائرس کا تعدیہ عموماً سردی اور بارش کے موسم میں ہوتا ہے لیکن دیگر اوقات میں بھی لوگ اس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔
یہ وائرس جسامت میں کافی بڑے (تقریباً 400-500 micro mm) ہوتے ہیں جو کسی بھی ماسک کو کراس نہیں کر سکتے۔
یہ اپنی جسامت اور وزن کے باعث ہوا میں نہیں ٹھہر سکتے بلکہ زمین پر گر جاتے ہیں ۔اس لئے یہ ہوا کے ذریعہ پھیلنے والی بیماری (Air Born Disease) کا سبب نہیں ہوتے۔
27 ڈگری سینٹی گریڈ یا اس سے زیادہ درجہ حرارت پر یہ وائرس زندہ نہیں رہ سکتے۔ اس لئے گرم ممالک میں یا گرم موسم میں یہ بیماری کا سبب نہیں بن سکتے۔

علامات
اس کی علامات چارسے چودہ دن کے اندر ظاہر ہو سکتی ہیں ۔علامات عموماً وہی ہوتی ہیں جو عام طور سے بالائی نظام تنفس کے امراض میں ہوتی ہیںجیسے ناک بہنا، چھینک آنا،کھانسی،گلے میں خراش اور بخار وغیرہ۔
اگرکورونا وائرس کا یہ انفیکشن Lower Respiratory Tract یعنی نچلی سانس کی نلی اور پھیپھڑوں تک پہنچتا ہے تو نمونیہ یا پھر (ARDS )Acute Respiratory Distress بھی ہو سکتا ہے بالخصوص چھوٹے بچوں ،بوڑھے لوگوں میںاور ان لوگوں میں جن کی قوت مناعت (Immune Power)کمزور ہے یا پھر جن کو پہلے سے کوئی دل کی بیماری ہے ۔ایسی صورت میں یہ جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔
سعودی عرب میں پھیلی MERS-CoV کی وباء کے دوران ۴۷ مصدقہ مریضوں میں پائی جانے والی علامات کچھ اس طرح تھیں ۔

بخار98 فیصد
کھانسی 83 فیصد
سانس میں تنگی (Shortness of Breath72 )فیصد
عضلاتی درد (Myalgia) ۳۲ فیصد
دست (Diarrhea) 26 فیصد
الٹی (Vomiting) 21 فیصد
پیٹ درد (Abdominal Pain) 17 فیصد
جبکہ 72 فیصد مریضوں میں دوران علاج Mechanical Ventilation کا استعمال بھی ناگزیر ہو گیا تھا۔

تفتیش (Investigations):۔

صرف علامات کی بنیاد پر یہ تشخیص کرنا ممکن نہیں کہ یہ کورونا وائرس کا تعدیہ ہے یا پھر کسی اور وائرس جیسے Rhinovirus وغیرہ کا تعدیہ ہے یا صرف موسمی نزلہ اور فلو وغیرہ ؟ اس لئے اس کی تشخیص کی لئے ناک اور گلے کی رطوبات کا کلچر اور خون کی جانچ ناگزیر ہوتی ہے۔
۔کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں میں عموماً کریات بیضاء (WBC) خاص طور سے Lymphocytesکی کمی ہوتی ہے ۔
اگر مرض معمولی ہوتا ہے یعنی صرف بالائی نظام تنفس (Upper Respiratory Tract) تک محدود رہتا ہے تو حلق اور ناک کی رطوبات کا نمونہ (Nasopharyngeal Swab) لے کر اس کی جانچ کی جاتی ہے۔جبکہ سنگین صورت حال میں درج ذیل جانچ بھی ناگزیر ہو جاتی ہے۔
Chest X-ray
Real Time Polymerase Chain Reaction (RT-PCR)
Broncho Alveolar Lavage (BAL)
Immunofluorescence assay (IFA
علاج
کورونا وائرس کے علاج کے لئے ابھی تک کوئی موثر دوا موجود نہیں ہے ،نہ ہی کوئی Antiviralدوا اس کے علاج میں موثر پائی گئی ہے۔ اس کے باوجود اس سے ڈرنے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس لئے کہ اس وباء کی شرح اموات صرف دو فیصد ہے ۔حفظان صحت کے اصولوں پر عمل کرکے اور مناسب احتیاطی تدابیر کے ساتھ اس وباء سے بچا جا سکتا ہے ۔
عام حالات میںاس کا علاج بھی ٹھیک اسی طرح کرتے ہیں جیسے عام نزلہ (Common Cold) کا کیا جاتا ہے۔
بخار اور گلے کی خراش کے لئے OTC Products کا استعمال کر سکتے ہیں لیکن چھوٹے بچوں اور نوجوانوں (جن کی عمر ۱۹
سال سے کم ہو) کوAspirin ہرگز نہ دیں۔ اس کے بجائے Paracetamol یا پھر Ibuprofen یا پھر کا استعمال کر سکتے یں۔
یونانی دوائوں میں علامات و عوارضات کے مطابق تریاق نزلہ، شربت عناب، خمیرہ مروارید اور روغن بابونہ کا استعمال کسی حکیم کے مشورہ سے کیا جا سکتا ہے۔ حالیہ وباء کے تناظر میںوزارت ایوش نے بھی مذکورہ ادویات کو مفید بتاتے ہوئے ان کے استعمال کی سفارش کی ہے ۔اس کے علاوہ دیگر مختلف ادویات جیسے عرق عجیب، حب بخار، شربت نزلہ، جوشاندہ نزلہ ،قرص کافوراور تریاق وبائی کا استعمال حسب ضرورت کیا جا سکتا ہے۔
کچھ مریضوں میں یہ معمولی انفیکشن شدید نمونیہ یا Acute Respiratory Distress Syndrome (ARDS) میں تبدیل ہو سکتا ہے ۔ایسی صورت میں مریض کو ہاسپٹل میں ایڈمٹ کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔

مریضوں کے لئے ہدایات:۔

سردی، زکام ،بخار اور کھانسی ہونے پر خود کو الگ تھلگ (Isolate) رکھیں۔
ڈاکٹر کے مشورہ سے دوائیں لیں ۔ خود علاجی (Self Medication) سے پرہیز کریں۔
ادھر ادھر تھوکنے سے پرہیز کریں۔
کھانستے یا چھینکتے وقت منہ اور ناک کو صاف کپڑے یا رومال سے ڈھک لیں تاکہ Droplets فضاء میں نہ پھیلیں۔
ایک ہی رومال بار بار نہ استعمال کریں۔بہتر یہ ہے کہ ٹشو پیپر استعمال کریں اور اسے ادھر ادھر نہ پھینکیں بلکہ جلادیں یا کسی اور طریقے سے اسے ضائع (Dispose) کر دیں۔
وقفہ وقفہ سے پانی یا کوئی مشروب کا استعمال کرتے رہیں یعنی گلا خشک نہ ہونے دیں۔
زیادہ سے زیادہ آرام کریں۔

حفظ ما تقدم:۔
٭ اس مرض کی نہ تو کوئی موثر دوا ہے اور نہ ہی آج تک کوئی ویکسین ہی ایجاد ہو سکا ہے۔حالانکہ حالیہ وباء کے بعد سے کئی ممالک کے سائنسداں اس کا ٹیکہ تیار کرنے کی مسلسل کوشسوں میں مصروف ہیں۔امریکہ اور برطانیہ کے سائنسدانوں نے تو کورونا وائرس سے بچاو کی ویکسین تیار کرنے کا دعوی بھی کیا ہے ۔امریکی کمپنی موڈرینا کے مطابق تو انہوں نے کورونا وائرس سے بچاو کی ویکسین تیار بھی کر لی ہے اور اس ویکسین کو امریکہ کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف الرجی اینڈ انفیکشس ڈیزیز اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کو بھیج دیاہے۔ مذکورہ دونوں ادارے اس ویکسین کا مکمل جائزہ لینے کے بعد اپریل 2020ء سے انسانوں پر اسے آزمانے کا کام شروع کردیں گے۔اسی طرح اسرائیلی سائنسدانوں نے بھی فروری ۲۰۲۰ء؁کے اواخر میں کورونا وائرس سے بچاو کی ویکسین تیار کرنے کا دعوی کیا ہے ۔اسرائیلی سائنسدانوں کے مطابق وہ ویکسین تیار کرنے کے انتہائی قریب ہیں اور اگر معاملات اسی طرح آگے بڑھتے رہے تو چند ہفتوں میں ہی وہ ویکسین تیار کر لیں گے۔ خدا کرے مذکورہ تمام سائنسداں اور ادارے اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوں۔
٭جب تک اس کا کوئی موثر ویکسین وجود میں نہیں آ جاتا، اس سے تحفظ کے لئے احتیاطی تدابیر ہی موثر علاج ہے۔اس سے تحفظ کے لئے وہی تدابیر کی جانی چاہیئے جو عام طور سے نزلہ (Common Cold) کی صورت میں اختیار کی جاتی ہیں۔
٭کسی بھی وبائی مرض سے سے تحفظ کی سب سے بہتر اور کامیاب تدبیر اس حدیث پر عمل کرنا ہے ۔(جب تمہیں کسی سرزمین میں ’’طاعون ‘‘ کی وباء کا علم ہو تو اس سرزمین میں داخل مت ہو۔اور جب کسی ایسی سرزمین میں ’’طاعون‘‘ پھیل جائے جہاں تم پہلے سے موجود ہو تو تم اس سرزمین سے باہر مت نکلو۔صحیح بخاری:۹۶۵۳۔باب:۔ما یذکر فی الطاعون)
٭ حلال کھائیں،حرام جانوروں اور حشرات الارض سے پرہیز کریںاور ان کی منڈیوں میں ہرگزنہ جائیں 
٭عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کے مطابق دوسرے لوگوں بالخصوص ایسے لوگوں سے جن کو چھینک یا کھانسی آ رہی ہو کم از کم تین فٹ (ایک میٹر)کا فاصلہ رکھیں۔
٭اپنے ہاتھوں کو صابن یا پھر کسی اچھے Sanitizerسے دن میں بار باراچھی طرح صاف کریں۔
٭قوت مناعت (Immune System) کو تقویت دینے والی اشیاء بالخصوص وٹامن سی سے بھرپور پھلوں اور سبزیوںکا استعمال زیادہ کریں ۔اس لئے کہ طبی ماہرین کے مطابق قدرتی وٹامن سی قوت مناعت (Immune System) کو مضبوط کرنے میں بنیادی اہمیت رکھتی ہے ۔ اس کے لئے طبی ماہرین کے مطابق لیموں کافی اہمیت کا حامل ہے۔چنانچہ چین کی حالیہ وباء کے تناظر میںبیجنگ فوجی اسپتال کے سی ای او پروفیسر چین ہورین (Chen Horin) نے اس وباء سے تحفظ کے لئے ایک کپ نیم گرم پانی میں لیموں کی چند قاشیں ڈال کر پینے کا مشورہ دیا ہے ۔
٭سردی زکام کے مریضوں سے دور رہیں اور غیر ضروری ملاقات،اورمصافحہ ومعانقہ سے پرہیز کریں۔
٭پر ہجوم جگہوں پر جانے سے پرہیز کریں۔اگر جانا ضروری ہو تو ماسک کا استعمال ضرور کریں۔
٭اپنے ہاتھ اورانگلیوںکو آنکھ،ناک اور منہ سے دوررکھیں۔
٭متاثرہ افراد سے بہت زیادہ قربت (Close Contact) سے بچیں۔
٭حلق کو خشک نہ ہونے دیں بلکہ تھوڑی تھوڑی دیر پر تازہ پانی یا کوئی بھی مشروب پیتے رہیں۔اور ہلکے گرم پانی سے دن میں کئی بارغرارہ کرتے رہیں۔
٭27 ڈگری سینٹی گریڈ یا اس سے زیادہ درجہ حرارت پر یہ وائرس زندہ نہیں رہ سکتے ۔اس لئے گرم ممالک میں یا گرم موسم میں یہ بیماری کا سبب نہیں بن سکتے۔اس لئے ٹھنڈی چیزوں سے پرہیز کریں ۔گرم مشروبات کا استعمال زیادہ کریں