Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, April 1, 2020

بنگلہ والی مسجد اور قوم لٗدو



*مولانا الیاس کاندھلویؒ کی قائم کردہ جماعت کا تعارف*
از/مولانا فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
=============================
حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ نے عوام میں اصلاحی مشن کو ایک جدید انداز میں پیش کیا۔ اس مشن سے مربوط افراد کو عوامی اصطلاح میں *تبلیغی جماعت* کہا جاتا ہے، جس کا عالمی مرکز: نظام الدین دہلی میں واقع *بنگلہ والی مسجد* ہے۔ بانئ مرحوم مولانا محمد الیاس صاحب کی یہ تحریک تقریباً سو برسوں سے کام کر رہی ہے۔ اسے اتنی پذیرائی ملی کہ اس کا دائرۂ کار شدہ شدہ عالمی ہو چکا ہے۔ دنیا کے بیش تر ممالک کے افراد اس مشن سے جڑے ہوئے ہیں۔ تحریک کے افراد اِدھر سے ادھر اور اُدھر سے ادھر آتے جاتے رہتے ہیں۔ ساری دنیا اس کے حقائق سے آگاہ اور ہندوستان کی پوری سو سالہ حکومتیں اس سے واقف ہیں۔ اس تحریک کی خاص بات یہ ہے کہ وہ رہتی تو زمین پر ہے، اس کی ساری سرگرمیاں زمین پر ہی طے پاتی ہیں، مگر اس کی ساری باتیں یا تو زمین سے نیچے کی ہوتی ہیں یا آسمان سے اوپر کی۔ یہ اس قدر غیر مضر تحریک ہے کہ اسرائیل جیسی دجالی ریاست میں بھی اس کا مرکز قائم ہے۔ غیر مسلم سیاست داں بھی اس کو اپنا تعاون دیتے رہے ہیں۔


*حکومت کا عاجلانہ فیصلہ*

کورونا وائرس کی وبا سے ملک میں لاک ڈاؤن ہوا۔ یہ فیصلہ اگرچہ درست اور وطن کے حق میں ہے، مگر اتنا اچانک اور عجلت میں ہوا کہ اس سے عوام میں بے چینی پھیل گئی۔ ہندوستان بندی سے پہلے کم از کم چار دنوں کا وقت دیا جانا چاہیے تھا تاکہ ہر شہری اپنے اپنے ٹھکانے پر بسلامت پہونچ جاتا اور گزر اوقات کے لیے کوئی معقول بند و بست کر لیتا۔ حکومت کا یہ فیصلہ دور اندیشی سے خالی اور حکمت سے سراسر عاری تھا۔ نتیجہ یہ کہ جو جہاں تھا، وہیں پھنس گیا۔ مدارس کے اکثر طلبہ تعطیل کے باوجود بھی اپنے وطن سے دور ہیں۔ مزدور طبقہ دانے دانے کو ترس رہا ہے۔ مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ کالا بازاری کا طوفان بپا ہے۔ دس روپے کی چیزیں 70،80 روپے میں مل رہی ہیں۔ معیشت بری طرح ڈگمگا گئی۔ بہت سے تو بھوکے مر گئے۔ اللہ جانے کتنے اور بھکمری کی نذر ہوں گے۔

ادھر صورتِ حال یہ کہ کورونا وائرس تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔ متاثرین کی تعداد 1400 کے قریب پہونچ گئی ہے۔ احتیاطی نقطۂ نظر سے مدارس میں قبل از وقت چھٹی کر دی گئی۔ امتحانِ سالانہ بھی ملتوی یا متروک کر دیا گیا۔ مسجدوں پر تالے ڈال دیے گئے۔ مندر اور گرودوارے بھی بند پڑے ہیں۔ لیکن اچانک لاک ڈاؤن سے جتنے نقصانات ہو رہے ہیں، کورونا وائرس سے پیدا شدہ نقصانات ان کے سامنے کوئی وقعت نہیں رکھتے۔ افسوس کہ مصیبت کی اس گھڑی میں حکومت نے عوام کو تنہا چھوڑ دیا۔ اس نے کوئی ایسی اسکیم پیش نہیں کی، جس سے وبا کا پھیلاؤ بھی رک سکے اور عوام کی مشکلات بھی۔ ہندوستانی میڈیا نے بھی کوئی اچھی صلاح نہیں دی۔ وقت گزاری کے لیے بس ادھر ادھر کی خبریں چلاتا رہا۔

*ہندوستانی میڈیا یا قومِ لُد؟*

ہندوستانی میڈیا کو میں الیکٹرانک بھیڑیا کہا کرتا ہوں۔ اسے آپ *قومِ لُد* بھی کہہ سکتے ہیں، جس کا مطلب ہے *جھگڑالو قوم* ۔ یہ لفظ قرآن میں بھی آ چکا ہے۔  یہ ہمیشہ موقعے کی تاک میں رہتی ہے اور موقع پاتے ہی انسانیت پر حملہ آور ہو جاتی ہے۔ اس کا مشن ہی جھگڑے لگانا اور ملک کو خاک و خون میں جھونکنا ہے۔ ہر الیکشن کے وقت یہ قومِ لُد اپنا مشن بڑی چابک دستی سے انجام دیتی ہے۔ کالے قوانین کے خلاف احتجاجی مظاہرے کو بھی اس قومِ لُد نے ہندو مسلم کر دیا تھا۔ اس کا کمال یہ ہے کہ جسے چاہے مشرف بہ اسلام کر دیتی ہے۔ یہ اس کی ہی کرامت ہے کہ کورونا وائرس بھی مسلمان ہو گیا۔ اللہ جانے ان پر مقدمہ کیوں نہیں کیا جا رہا! ہماری ملی تنظیمیں خاموش کیوں ہیں! یہ ہمارا مسلسل سکوت ہی ہے کہ یہ قومِ لُد آئے دن ہم پر چڑھائی کر رہی ہے۔ کسی من چلے نے درست ہی کہا ہے کہ: کورونا وائرس کی ولادت چین میں ہوئی۔ اٹلی میں پروان چڑھا اور پرورش پایا۔ ایران میں جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا۔ امریکہ میں تعلیم حاصل کی اور انڈیا میں آکر مسلمان ہو گیا۔

*مولانا سعد صاحب کی نظری چوک*

اچانک لاک ڈاؤن ہونے سے جہاں اور لوگ پھنس گئے، وہیں بنگلہ والی مسجد میں مقیم افراد بھی پھنس گئے۔مولانا سعد کاندھلوی صاحب کو چاہیے تھا کہ ہوا کا رخ بھانپ کر تحریکی ترتیبات کو فی الحال موقوف کر دیتے۔ وہ مدارس کے فیصلے دیکھ چکے تھے۔ ان کے خسر کا ادارہ مدرسہ مظاہرِ علوم جدید سہارن پور بھی بند ہو چکا تھا، کم از کم اسی سے سبق لے لیتے، لیکن انہوں نے نہیں لیا۔ الٹا وہ ایسے پیغامات عام کرتے رہے جن سے بظاہر حکومتی فیصلے کی خلاف ورزی لازم آتی ہے۔ نتیجتاً حکومتی محکمے حرکت میں آئے اور انہوں نے کار روائی کی۔ تازہ ترین تصویر یہ ہے کہ بنگلے والی مسجد بند ہے۔ مولانا سعد صاحب پر مقدمہ دائر ہو چکا ہے۔ خطرہ ہے کہ کہیں جماعت پر ہی پابندی عائد نہ ہو جائے۔ دہلی کی کیجری وال حکومت نے اس معاملے میں اتنی پھرتی اور چستی دکھائی کہ سارے مراحل آناً فاناً طے پا گئے۔ یہ وہی کیجری وال ہیں، جنہیں مسلمانوں نے بڑے لاڈ سے پالا تھا اور جن کی جیت پر کلمہ والوں نے خوب جشن منایا تھا۔ 

*قومِ لد کی بد نیتی اور دو رخی پالیسی*

مولانا سعد کا نام آنا تھا کہ قومِ لُد پوری طرح حرکت میں آ گئی۔ اب وہ اس طرح شور مچا رہی ہے گویا کارگل کے محاذ پر دشمن فوج پر فتح پالی ہو اور کچھ فوجی کو زندہ پکڑ لیا ہو۔ بعضوں نے جماعتی افراد کو *کورونا بم* سے بھی تعبیر کیا۔ یہ قومِ لُد ایسی پاگل بنی ہوئی ہے کہ منہ میں جو آئے، بکتی چلی جا رہی ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کا پورے لاؤ لشکر کے ساتھ اجودھیا جانا اسے نہیں سوجھا۔ مدھیہ پردیش کا اسمبلی پروگرام اسے دکھائی نہیں دیا، جس میں کورونا کے مریض بھی تھے۔ پارلیمنٹ کا اجلاس بھی اسے نظر نہ آیا۔ بالی ووڈ سنگر کنیکا کپور اور سیاست دانوں سے بھرپور اس کی تقریب اسے دکھائی نہ دی، جس کا کورونا سے متاثر ہونا بالکل کھلا ہے۔ ویشنو دیوی کا وہ مندر بھی اس کی آنکھوں سے بچ گیا، جہاں لا تعداد لوگ ڈیرہ ڈالے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں وہ افراد بھی دکھائی نہ دیے جو دہلی کی سڑکوں پر پیدل چلے جا رہے ہیں۔ روز مرہ کی وہ بھیڑ بھی اس کی رتوندی سے بچ گئی جو کھانے کے لیے کیمپوں میں دونوں وقت گھس آتی ہے۔ اسے نظر آیا تو صرف جماعتی عملہ۔ گویا کورونا صرف اسی مجمع سے پھیلتا ہے، جہاں داڑھی ٹوپی نمایاں ہو۔ بقیہ بھیڑ سے تو کورونا نے نہ ملنے کی قسم کھالی ہے! تھو ہے ایسے الیکٹرانک میڈیا پر۔ تف ہے ایسی قومِ لُد پر۔

*ہماری قوم کی بے حسی*

مولانا سعد صاحب اور ان کے پیروکاروں سے میرا علمی اور نظریاتی اختلاف رہا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ مشکلات کی اس گھڑی میں انہیں یوں ہی تنہا چھوڑ دیا جائے۔ سارے مسلمانوں سے میری گزارش ہے کہ دل جمعی سے ان کا ساتھ دیں۔ ٹھیک اسی طرح، جیسا کہ کالے قانون کے خلاف کھڑے تھے۔ قومِ لُد کا یہ حملہ مولانا سعد پر نہیں، بلکہ بالواسطہ مسلمانوں پر ہے۔ شیعہ وقف بورڈ کے ذمے دار وسیم رضوی پر مجھے کوئی تعجب نہیں۔ اگر جماعت کے خلاف وہ زہر اگلتا ہے تو وہ اس کی بیماری ہے، وہ اس سے کبھی شفا نہیں پا سکتا۔ مجھے حیرت اور بہت زیادہ حیرت بریلی کے اعلیٰ حضرت ٹرسٹ پر ہے، جو جماعت پر اپنی غلاظت انڈیل رہا ہے اور اس پر پابندی لگانے کا سخت مطالبہ کر رہا ہے۔ شاید وہ یہ سوچ رہا ہے کہ نفرت کی یہ آگ صرف جماعت کو ہی کھائے گی اور بریلوی پارٹی اس آتشِ نمرود سے بچ جائے گی۔ خدا را کلمہ کی بنیاد پر متحد رہیے۔ نفرت کا یہ ناگ پورے ملک کے کلمہ خوانوں پر برابر نظر گاڑے بیٹھا ہے۔ ہوشیار! سو بار ہوشیار!

FuzailAhmadnasiri@gmail.com