Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, April 29, 2020

لاکه ‏ڈاٶن ‏یا ‏بھوک ‏مری ‏


از/ محمد سالم سریانوی/صداٸے وقت ۔
==============================
 ملک میں لاک ڈاؤن کی دوسری مدت کا چودہواں تھا، جب کہ مکمل لاک ڈاؤن کا 36/واں دن تھا، رات کا وقت ہوچکا تھا، مسلمان روزہ کی افطاری سے فارغ ہوچکے تھے، بیشتر لوگ اِدھر اُدھر تفریح اور گپ شب میں مشغول تھے، جب کہ بہت سے حضرات نماز تراویح کی تیاری کے لیے آرام کررہے تھے، مغرب بعد ہونے کی وجہ سے اندھیرا بھی ہوچکا تھا اچانک ایک صاحب سے ملاقات ہوئی، علیک سلیک کے بعد ہم نے خیریت پوچھی، اس پر بیچارے گم سم ہوگئے، ہم نے مکرر پوچھا تو گویا ہوئے کہ سب کچھ اللہ کے فضل سے ٹھیک ہی ہے، لیکن کیا کریں، زندگی تو گزارنی ہی ہے! ان کے ان جملہ پر مجھے فکر لاحق ہوگئی، پھر پوچھا کہ زندگی کیسی گزر رہی ہے؟ فرمانے لگے کہ کاروبار تو مہینوں پہلے بند ہے، جو کچھ معمولی سی رقم تھی اسی سے خرچہ چل رہا تھا، لیکن وہ بھی کب تک چلتا! اب گرہستہ کے یہاں ہفتہ میں ایک بار جاتا ہوں، کچھ رقم مل جاتی ہے، اسی سے تیل مسالہ اور کچھ ضروری سامان لے لیتا ہوں، زندگی گزرہی ہے۔ میں نے پوچھا کہ سرکاری راشن تو ملتا ہی ہوگا؟ کہنے لگے کہ ملتا ہے، لیکن صرف گیہوں اور چاول سے زندگی کیسے چلے گی؟ ان کو کھانے کے لیے کچھ اور بھی تو چاہیے، ایسا تو نہیں کہ انھیں کو کھاکر پیٹ بھرا جاسکتا ہے!
 بات آگے بڑھی تو مجھ سے پوچھنے لگے کہ میرے پاس کچھ زیورات ہیں، جو لگ بھگ چند ہزار تک پہنچ جائیں گے کیا مجھ پر زکوٰۃ واجب ہوگی؟ البتہ اس سے ڈیڑھ گنے کا قرض بھی میرے ذمہ ہے، باقی رقم وقم میرے پاس نہیں ہے، ہم نے کہا بے فکر رہیے، آپ پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے، لیکن اس پر وہ کچھ لینے دینے سے متعلق پوچھتے رہے، مجھے کچھ عجیب سا لگا، میں نے پھر اپنی بات دہرائی، لیکن در اصل وہ کچھ اور پوچھنا چاہ رہے تھے، اسی دوران انھوں نے کہا کہ لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ کام چل رہا تو میں کیا ……… تو کیا میں لے ……
 پھر وہ بے چارے خاموش ہوگئے! میں تو سمجھ چکا تھا کہ وہ کیا کہنا چاہ رہے ہیں، لیکن ضمیر کی ملامت کی وجہ سے زبان ساتھ نہیں دے رہی تھی، میں نے ان سے کہا کہ تسلی رکھیے، ان شاء اللہ کوئی انتظام ہوجائے گا۔
 یہ ایک واقعہ ہے جو ملک کے بے شمار لوگوں کی زندگی کی عکاسی کرتا ہے، حالیہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے عام اور مزدور طبقہ پر جو مصائب آئے ہیں ان کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے، حکومت کا دعوی ضرور ہے کہ ہم غریبوں کا انتظام کررہے ہیں، ان کے کھانے پینے کی سہولت مہیا کرائی جارہی ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ سرکاری امداد صرف ان لوگوں تک پہنچتی ہے، جو کسی معمولی لیڈر سے تعلق رکھتے ہیں، یا پھر وہ اپنی زبان کھولتے ہیں، رہ گئے بیچارے وہ لوگ جن کے پاس کوئی اثر ورسوخ نہیں ہے، اور جن کی زبان نہیں کھلتی ہے وہ بے چارے کے بے چارے ہی رہ جاتے ہیں، وہ کہاں جائیں گے؟ کس سے کہیں گے؟ ان کو شرم وحیا کی وجہ سے کہنے کی ہمت وجرأت نہیں ہوتی ہے، اگر کسی نے توجہ دیدی اور خیر خیریت پوچھ لی تو بہت اچھا، ورنہ زندگی ہے جس حال میں اللہ رکھے گزر رہی ہے۔
 دہلی میں پیش آیا عورت اور بچے کا واقعہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے، جہاں دودھ پیتے بچے کو ماں دودھ نہیں پلا پارہی تھی؛ اس لیے کہ ایک ہفتے سے اس نے کچھ کھایا نہیںتھا، تو دودھ کہاں سے اترتا!!
 موجودہ لاک ڈاؤن نے غریبوں کی کمر توڑ دی، عام مزدور طبقہ کو بدحال کردیا، بچوں اور بوڑھوں کے لیے زندگی اجیرن بن گئی، مالدار اور آرام پرست لوگ تو اپنے گھروں، کوٹھیوں اور بنگلوں میں آرام سے زندگی بسر کررہے ہیں، لیکن یہ بے چارے……!
 اس لیے ایسے سخت حالات میں حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے وہ صحیح صورت حال کا جائزہ لے، پریشان حال خاموش لوگوں کی تحقیق کرے اور اپنے فنڈ سے ان کا تعاون کرے، اسی طرح ہر علاقے کے خوشحال اور ثروت مند لوگ آس پاس کے افراد کی خبر گیری کریں، وقتا فوقتا جائزہ لیں اور حسب توفیق ان کی مدد کریں، مسلمانوں کے لیے تو دوہری نعمت ہے کہ رمضان جیسے بابرکت مہینے میں ان کو یہ توفیق مل رہی ہے، اس لیے اس کو غنیمت جاننا چاہیے اور اپنے ہاتھوں کو دراز کرنا چاہیے۔
 سید الابنیاء والمرسلین ﷺ کے بارے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بخاری شریف میں روایت موجود ہے کہ آپ ﷺ بہت زیادہ جود وسخا والے تھے، اورخوب خرچ کرتے تھے اور آپ کی سخاوت رمضان میں بڑھ جاتی تھی، یہاں تک کہ زوردار ہوا سے بھی زیادہ ہوجاتی تھی۔ (بخاری)
 اس لیے ایسے حالات میں حکومت کے ساتھ ہم بھی توجہ دیں اور پریشان حال لوگوں کا تعاون کریں، ویسے یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ اس موجودہ حالت میں عام مسلمانوں کی طرف سے جود وسخا کے جو دہانے کھولے گئے ہیں وہ اپنے آپ میں بے نظیر ہیں، پھر بھی مزید کی ضرورت ہے۔ اللہ سب کو توفیق سے اور دیے ہوئے کو قبول فرمائے۔ آمین

 (تحریر 5/رمضان 1441ھ مطابق29 / اپریل2020 ء بدھ)