Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, April 1, 2020

تبلیغی جماعت اور مرکز تو ایک بہانہ ہے ، گودی میڈیا کو حقاٸق چھپانا ہے۔


از *طہ جون پوری* یکم اپریل  2020/صداٸے وقت۔
==============================
پچھلے دو دنوں سے ، "تبلیغی جماعت" اور "مرکز" کے خلاف ، جو کچھ گودی میڈیا کے ذریعے کیا جارہا ہے، یقینا ایک افسوس اور شرم کی بات ہے۔ جس وقت کی پوری دنیا ، وبائی بیماری کورونا وائرس سے جوجھ رہی ہے، اس موقع پر بھی، یہ گھناونا اور نفرت انگیز ٹرائل، گودی میڈیا کی گندہ ذہنیت کا ایک اور تازہ ثبوت ہے۔
"تبلیغی جماعت" کے ذمہ داران نے تو  جو حکومت کی ہدایات تھیں ، اس کو بالکل صحیح طریقے سے فالو کیا ہے، جیساکہ خطوط کے ذریعے بات سامنے آچکی ہے اور سپریم کورٹ کے معروف وکیل’’ پرشانت بھوشن ‘‘ نےبھی اس کو اپنے ٹویٹر ہینڈل پرپوسٹ کیا ہے۔ "تبلیغی جماعت" کے بالمقابل اور بھی پروگرام ہوئے ہیں ، لیکن  ان پر گودی میڈیا کوئی سوال نہیں کرے گی، کیوں کہ وہ اپنے آقا اور آقا کےکارندوں کے خلاف لب کشائی کو جر م سمجھتی ہے۔ "تبلیغی جماعت" کے بالمقابل جو بھیڑ اکٹھا ہوئی ہے، اس کی کچھ تفصیل پیش ہے۔
"دہلی" حکومت نے  14  مارچ کو اپنا خصوصی اجلاس منعقد کیا ۔  اس میں اسمبلی ممبران اور کام کرنے والے عملہ  کی تعداد دو سو سے کم نہیں ہوگی؟ کیا اس  پر سوال قائم نہیں ہوگا؟
"دہلی" کی ہی سرحد  میں  پارلیمنٹ  بھی واقع ہے اور اس کا اجلاس بھی جاری تھا، بلکہ اس کا اجلاس لاک ڈاؤن کے بعدتک چلا۔  یقینا اس میں ایک اچھی خاصی تعداد  تھی؟ گودی میڈیا آخر کیوں خاموش ہے؟
اسی "دہلی"  میں "ہندو مہاسبھا" نے، اپنے مرکز میں کورونا کو بھگانے کے لیے، گائے کا پیشاب پیا اور  اس  میں ایک بھیڑ شریک ہوئی۔ کیا اندھے گودی میڈیا کو اس  پر سوال نہیں اٹھانا چاہیے؟  
دہلی میں 16 مارچ کو ، "کالکا مندر، کالکاجی" میں ، "نوراترا" کے پروگرام کے لیے بھیڑ اکٹھا ہوئی ۔ جس کی  ویڈیو بھی ’’ اے بی پی‘‘ پر موجود ہے۔ کیا گودی میڈیا اس پر سوال اٹھائے گا اور کیا دہلی کے وزیر اعلی "اروند کیجریوال" ایف آئی آر کا حکم دیں گے؟  اورسب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ مندر آم ادمی پارٹی کی ممبر اسمبلی’’  آتشی سنگھ ‘‘  کے حلقہ انتخاب میں واقع ہے۔ کیا وہ اب سخت ایکشن لینے کی بات کریں گی؟ کیا اس بھیڑ  کےلوگوں کو کورونا وائرس کے لیے لے جایا گیا؟ کیا ان میں سے لوگوں کے سفر کے ریکارڈ کو دیکھا گیا؟  
"دہلی"  ہی میں ، "آند وہار بس اسٹینڈ" پر لاکھوں کی تعداد میں بھیڑ تھی۔  "کیجریوال" نے بسوں کو کیوں اجازت دی؟  کیا یہ بیماری پھیلانے کا سبب نہیں ہوگا؟ اس بھیڑ کے اکٹھا ہونے کا سبب کون بنا؟
"دہلی" سے باہر کی اگر بات ہو، تو "بھارت" میں پہلا کورونا کا مرض 30 جنوری کو  پایا گیا۔  اور 24 فروری کو، ’’احمد آباد، گجرات ‘‘ میں  امریکی صدر’’ ڈونالڈ ٹرمپ‘‘ کا بھارتی وزیر اعظم  نے لاکھو ں کے مجمع میں پرزور استقبال کیا ۔ کیا یہ ممکن نہیں ، کہ اس بڑے مجمع میں کوئی کورونا کا مریض رہا ہواور  اس سے یہ بیماری پھیلی ہو، جس کا اب تک پتہ چل نہ سکا ہو؟ اور کیا کرونا سے متاثرہ ملک میں،  اتنی   بڑی بھیڑ اکٹھا کرنا خطرے سے خالی تھا؟
"مہاراشٹر" کے ’’ شریڈی سائیں بابا مندر‘‘ میں  ’’ آرتی‘‘ کے لیے عقیدت مندوں کی بھیڑ اکٹھا ہوئی۔ جس کو "این ڈی ٹی وی" نے ٹویٹر پر 17 مارچ ، شام دو بجکر بارہ منٹ پر ٹویٹ کیا ہے۔ کیا اس بات کا امکان نہیں کہ  اس بھیڑ میں کوئی کورونا کا مریض رہا ہو؟  کیا اس پر بھی گودی میڈیا سوال اٹھائے گا؟
"سارہ علی خان" نے ، 16 مارچ کو ’’وارانسی‘‘ اترپردیش،   میں  ’’ گنگا آرتی‘‘ کی ۔ جس کی ویڈیو موجود ہے۔ کیا اس بات کا امکان نہیں کہ اس بھیڑ میں  کو رونا کا مریض رہا ہو؟ گودی میڈیا اس پر سوال کیوں نہیں اٹھاتی؟
"دی وائر" کی رپورٹ کے مطابق، اتر پردیش کے وزیر اعلی ، لاک ڈاؤن کے پہلے ہی دن’’ ایودھیا، فیض اباد‘‘ میں ’’ رام نومی‘‘ کے پروگرام میں شریک ہوئے۔ یقینا اس میں ایک  بڑٖا مجمع رہا ہوگا؟ کیا  گودی میڈیا اس بھیڑ پر سوال پوچھے گی؟
"تمل ناڈو" میں ایک پروگرام ہوا۔ "دسکی تمیز" نے ٹویٹ کرکے کہا: کہ 119 بیرون کے افراد نے ، 21 فرورری کو  ’’ گرو جگی وسو دیو‘‘ کی  ’’ مہاشیوراتری‘‘  پروگرام میں شرکت کی، جو فی الحال ’’کوئمبٹور‘‘ ضلع میں قورینطین کردیے گئے ہیں۔ اس پروگرام میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔ اب سوال یہ ہے، کہ  کیا اس بھیڑ میں کوئی کورونا کا مریض نہیں تھا۔ ؟ کیا ان سب کا سفری ریکارڈ نکالا گیا؟  اندھا گودی میڈیا خاموش کیوں ؟
"مدھیہ پردیش" کے نئے وزیر اعلی  کی ، تقریب حلف برداری  ہوئی ۔ جس میں  خوب دھوم دھام سے کافی لوگوں نے شرکت کی۔ کیا گودی میڈیا اس بات کی جسارت کرے گا ، کہ اس پر ڈبیٹ کرے؟
اور  22 مارچ کو  ہی ’’جنتا کرفیو‘‘ کو توڑ کر *تالی اور تھالی جماعت* نے  جو سڑک پر بیماری پھیلائی ہے، اس کا حساب گودی میڈیا کیوں نہیں پوچھتا؟
اس کے علاوہ اور بھی واقعات ہیں ، جن سے معلوم ہوتا ہے، کہ  بڑی بڑی بھیڑ اکٹھا ہوئی ، لیکن یہ گودی میڈیا چپ رہا اور  سوال کرنے کی ہمت نہ کرسکا۔
در اصل جب  وزیر اعظم نے رات کو آٹھ بجے  غیر منصوبہ بند ، لاک ڈاؤن کا اعلان کیا؛ تو لاکھوں مزدوروں کی ز ندگی  داؤں  پر لگ گئی، روز کے کمانے والے پریشان ہوگئے۔ ریڑھی اور ٹھیلا لگانے والے اس دیش کےشہری بھکمری کا شکار ہوگئے ، تو سوالات اٹھنا شروع ہوگئے۔ پھر کیاتھا۔ حکومت کی ناکامی کو چھپانے کے لیے، اور اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے، گودی میڈیا نے، یہ نفرت انگیز ٹرایل شروع کیا۔  گودی میڈیا اس بات کو نوٹ کرلے، کہ حقائق سامنے آئیں گے  ان شاء  اللہ۔
اللہ اس جماعت کی حفاظت فرمائے۔ اس کام کو آباد و شاد رکھے۔ حاسدین کے حسد اور شریوں کے شر سے محفوظ رکھے۔
آمین