Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, June 28, 2020

لازمی ‏اشیإ(ترمیمی ‏بل ‏)آرڈیننس ‏2020 ‏ایک ‏محتاط ‏مطالعے ‏کی ‏ضرورت۔



تحریر / سراج حسین۔۔(مترجم: محمد صغیر حسین)/صداٸے وقت /ڈاکٹر نازش احتشام اعظمی۔
=============================
مرکز نے 5جون 2020 کو تین سرکاری فرمان (Ordinances) جاری کیے جو میان زراعت میں تبدلیوں کے نقیب کہے جاسکتے ہیں۔ ان میں سب سے مختصر اور زراعت میں سرمایہ سرکاری کے مستقبل کے لیے سب سے زیادہ اہم ’’لازمی اشاء (ترمیمی) آرڈیننس‘‘ (Essential Commodities (Amendmen) Ordinance, 2020 ہے۔ یہ آرڈیننس ان شرائط کی صراحت کے ساتھ ساتھ انہیں پابند بھی کرنا چاہتا ہے جن کے تحت مرکز کو لازمی اشیاء ایکٹ کے تحت اجرا ضوابط کا اختیار حاصل ہوگا۔

سال رواں کے اکنامکس سروے نے ہندوستان کی زرعی معیشت میں تحریف اور تمسیخ پر ایک پورا باب (Chapter) وقف کیا ہے۔ اس نے، خاص طور پر، لکھا کہ ’’ای سی اے (Essential Carmodities (Act) کے تحت اشیاء کے ذکیروں پر جامع حد بندی نہ تو قیمتیں کم کرتی ہے اور نہ ہی گرانی کی رفتار پرواز میں تخفیف کرتی ہے۔‘‘ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ حکومت نے سروے کے مشوروں پر کان دھر اور ان کوتسلیم کرنے کے لیے کچھ مناسب قدامات کیے۔
ای سی اے، 1955 کے تحت اشیاء کو اسے اٹھ زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے جن پر مرکزی حکومت، ریاستی حکومتوں کے ذریعے کنٹرول کر سکتی ہے۔ (1) دوائیں، (2) فرٹیلائزرس، (3) غذائی اشیاء جن میں کھانے کے لائق تلہن اور تیل شامل ہیں، (4) سوت سے بنا ہوا دھاگا لچھا، (5) پٹرولیم اور اس سے بنی ہوئی مصنوعات، (6) خام جوٹ اور جوٹ ٹیکسٹائل، (7) اجناس کی فصل کے لیے بیج، پھل، سبزیاں، مویشیوں کے چارے کے بیج، کپاس کے بیج اور جوٹ کے بیج اور (8) چہروں کے ماسک اور سینی ٹائزرس۔
اس ایکٹ کے تحت حاصل شدہ اختیارات کو بروئے کار لاکر مرکز، رریاستی حکومتوں کو ’’کنٹرول آرڈرز‘‘ جاری کرنے کا اختیار سونپتی ہے جس کے ذریعے وہ درونِ ریاست اور بین ریاست اشیاء کے نقل و حمل کو منضبط کرتی ہیں اور ذخیروں کی حدیں مقرر کرتی ہیں۔ یہ لائسنسنگ کو لازمی قرار دے سکتی ہیں، یہاں تک کہ یہ چیزوں کی پیداوار پر کوئی محصول بھی عائد کرسکتی ہیں۔ ریاستوں نے ان اختیارات کا بھرپور فائدہ اٹھایا جس کے نتیجے میں ’’کنٹرول آرڈرز‘‘ کی مبینہ خلاف ورزیوں کی پاداش میں ہر سال ہزاروں پولس کیسیز درج کیے جاتے ہیں۔
ایسا پیلی بار نہیں ہورہا ہے جب مرکز نے اپنے قاعدوں اور ضابطوں پر ڈھیل دی ہو۔ مثال کے طو پر 2002 میں واجپئی حکومت نے گیہوں، دھان، چاول، معمولی اجناس اور خوردنی تیل پر لائسنسنگ اور ذخیروں کی حد ختم کردی تھی۔
2006-07 کے عالمی غذائی بحران نے بہت سے ضابطوں کو پھر سے نافذالعمل بنادیا کیوں کہ اشیاء خوردنی کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا تھا اور حکومت کے پاس گیہوں کا ذخیرہ جو عام طور پر چار ملین ٹن ہوتا ہے، گھٹ کر یکم اپریل 2006 کو دو ملین رہ گیا تھا۔ ریاستوں نے اپنے اختیارات کا خوب استعمال کیا، مثلاً آندھراپردیش کی حکومت نے دھان اور چاول کی عمدہ اقسام کی نقل وحرکت پر پابندی عائد کردی۔
موجودہ آرڈنینس صرف غیرمعمولی حالات، مثلاً جنگ، قحط، غیرمعمولی مہنگائی اور شدید قدرتی آفات میں ہی ضابطہ سازی کی اجازت دیتا ہے۔ ایسی صورت حال میں حکومتیں ذخیروں کی حدیں متعین کرسکتی ہیں۔ اس ضمن میں ایکٹ کی دفعہ 2(1A)  میں چند مخصوص صراحتیں دی گئی ہیں۔
بگمان غالب، مہنگائی (گزشتہ 12 مہینوں میں یا گزشتہ پانچ برس کے اوسط، جو بھی کمتر ہو، کے اعتبار سے، سڑنے گلنے والی اشیاء کی خردہ قیمتوں میں 100 فیصد، نہ سڑنے گلنے والی اشیاء میں 50 فیصد کا اضافہ) کے اسباب وعلل پر گاہے گاہے غوروخوض کیا جائے گا۔ یہ اسباب مختلف ہوسکتے ہیں مثلاً مانسون کی ناکای (مثلاً 15-2014یا 2015-1616) یا حد سے زیادہ بارش (مثلاً 2019-20میں سویابین کے لیے) یا کیڑے مکوڑوں کا حملہ (مثلاً 2019-20 میں مکئی پر آری ورم کا نزول)۔ اس مسئلے پر کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے حکومت ایگ مارکیٹ نیٹ (Agmarketnet) قیمتوں پر انحصار جاری رکھے گی۔
فوری ضرورت ہے کہ اسے مزید تقویت دی جائے کیوں کہ پیداوار کی قیمتیں اور منڈیوں میں ہونے والی پیداوار کی مقدار پر ہی ایک ایکٹ کے تحت حکومت کی پالیسی منحصر ہوگی۔ چنانچہ جب تک ایک متبادل نظام باقی ہے، اسے یقینی بنانا ہوگا کہ Farmer's Produce Trade & Commerce (Promotion and Facilitation) Ordinandas, 2020 اے سی کمیٹیوں سے حاصل شدہ خریداری ڈاٹا کا نظام تباہ و برباد نہ کردے۔
 ایک OECD_ICRIER 2018 رپورٹ کے مطابق 2000 سے 2015 کے درمیان، گیہوں، مکئی، چاول، کابلی، چنا، آلو، پیاز، شکر، کپاس اور دودھ پر ان گنت بار پابندیاں لگیں۔ اسی لیے، یہ کوئی امرتعجب خیز نہیں کہ ہندوستان کو زرعی پیداوار کا قابل اعتماد ایکسپورٹر نہیں سمجھا جاتا ہے۔
مستقبل میں، ایسے کسی بھی فیصلے کے استعمال سے مستثنیٰ ہونے سے متعلق چند ایسی شقِ استثنائی (caveats) موجود ہیں جن کا فائدہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں اٹھا سکتی ہیں۔ آرڈنینس کہتا ہے کہ ذخیرہ کی حدیں طے کرنے کے ضابطوں کا اطلاق پروسیسر (Processor) یا کسی زرعی پیداوار کے شریک سلسلۂ معاوضہ  (Value Chain Paticipant) پر نہ ہوگا لیکن ایسے پروسیسر وغیرہ پروسیسنگ کی گنجائش سے زیادہ ذخیرہ رکھنے کے اہل نہ ہوں گے۔ ایکسپورٹر کے تعلق سے آرڈیننس کہتا ہے کہ ایکسپورٹ کے لیے مطلوبہ ذخیرہ، اسٹاک لمٹ کے ضابطوں کے تابع نہ ہوگا۔
عام طور پر، پروسیسرز خام اشیاء کو کئی مہینوں تک اپنے پاس رکھتے ہیں یا تاجروں کے پاس رکھتے ہیں جو اپنا ذخیرہ گوداموں میں رکھتے ہیں۔ آڈریننس بابت خاموش ہے کہ مستقبل میں ذخیروں کی حدبندی سے استعفیٰ کے لیے سالانہ یا ماہانہ یا یومیہ گنجائش پر غورو خوض ہوگا۔ ماضی میں، ایسے کئی معالات سامنے آئے جب خوردنی تیل کوریفائن کرنے والوں نے ذخیروں کی اچانک حد بندی کی وجہ سے اپنے ذخیرے ختم کردیے۔ اسی طرح ایکسپورٹروں کے معاملے میں، کیا توثیق شدہ ایکسپورٹ آرڈروں کولائق اعتنا سمجھا جائے گا یا ان ایکسپورٹ آرڈروں پر بھی غور کیاجائے گا جن کا ابھی صرف ایل سی (Letters of Credit) ہی کھولا گیاہو؟
گیہموں کے کئی بے ایمان ایکسپورٹروں نے کھلے بازاروں میں فروخت کرنے کی اسکیم کے تحت برآمد کو جاری رکھنے کے لیے یکساں چور راستوں کا استعمال کیا جس کے نتیجے میں مرکزی ذخائر میں گیہوں کا اسٹاک یکم اپریل 2006 کو گھٹ کر آدھا رہ گیا۔ آخر کار حکومت کو 2006-08 کے درمیان 5.5ملین ٹن گیہوں درآمد کرنا پڑا۔ چنانچہ اس ضمن میں مزید صراحت کی ضرورت ہے کہ پیداوار میں کمی کے سبب قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے اگر ذخیرہ بندی نافذ ہوتی تو ایکسپورٹ آرڈر کا کیا مفہوم گا۔ یہ حدبندی سیلابوں یا مانسون کی ناکامی یا کیڑوں کے حملے یا دیگر قدرتی آفات کے سبب بھی ہوسکتی ہے۔
ہمارے غذائی ذخیروں کے انتظام و انصرام کی خامیوں میں سے ایک بڑی خامی یہ ہے کہ حکومت کو پرائیویٹ سیکٹر کے ذخیروں کا علم نہیں ہوتا ہے۔ گیہوں اور چاول کے مرکزی ذخیروں کا جہاں تک تعلق ہے، حکومت نہ صرف ذخیروں کی مقدار کے بارے میں جانتی ہے بلکہ ذخیروں کے مقام کے بارے میں بھی فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کے کمپیوٹرائزڈ اسٹاک مینجمنٹ سسٹم کے ذریعہ جانتی ہے۔ نجی ہاتھوں کے زیرِانتظام ذخیروں میں ایسا کوئی سسٹم موجود نہیں ہوتا۔
تجارت کے ایک آزاد ماحول میں جہاں اے پی ایم سی کے دائرۂ اثر سے  باہر کوئی بھی شخص کسانوں کی پیداوار محض اپنے PAN کارڈ کے بل پر خرید سکتا ہے، حکومت پر لازم ہے کہ وہ نجی ذخیروں پر نظر رکھے۔ یہ ہدف WDRA سے گوداموں کے رجسٹریشن کولازمی قرار دے کر آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ہندوستان کو پہلے سے ہی گواہوں کی قابل منتقلی الیکٹرانک رسید جاری کرنے کے اختیارات حاصل ہیں جسے خریدا بیچا جاسکتا ہے۔
زرعی پیداواروں کی تجارت پر Farmars Produce Trade & Commerce (Promotion and Facilitation) Ordinances, 2020  کے تحت بندشوں کو ہٹانا ایک خوش آئند قدم ہے لیکن حکومت پر لازم ہے کہ وہ نجی تجارت، اشیاء کی طلب، نجی سیکٹر کے ذخیروں اور فصلوں کی پیداوار اور دستیابی کے تخمینے کے بارے میں مزید معلومات رکھے۔ تب ہی حکومت، کسانوں کو معقول قیمت دینے اور بے ایمان عناصر کے ذریعہ ذخیرہ اندوزی اور غیر واجبی مہنگائی پر قدغن لگانے کے لیے بامعنی پالیسیاں وضع کرسکتی ہے۔
بیشتر زرعی اشیاء سے متعلق ہندوستان کا زائد از ضرورت ذخیرہ برائے نام ہے۔ چنانچہ، حکومت کو کسی شئے کے ابھرتے ہوئے پیش منظر کے بارے میں پرائیویٹ تاجروں سے کہیں زیادہ باخبر ہونا چاہیے۔ اس کے لیے سال میں کم از کم ایک بار حکومت کو حالات کا جائزہ لینا چاہیے۔ (بشکریہ: دی وائر)

(سراج حسین ICRIER میں وز پینگ سینئر فیلو ہیں۔وہ مرکزی سکریٹری برائے زراعت کی حیثیت سے سکبدوش ہوئے۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ایک صاحب فکر، اہل نظر اور مشاق قلمکار ہیں