Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, June 4, 2020

3جون ‏1857 ‏اعظم ‏گڑھ ‏کی ‏تاریخ ‏کا ‏ایک ‏اہم دن۔


اعظم گڑھ ہندوستانی کا پہلا آزاد شہر تھا اور یہ 81 دنوں تک آزاد رہا۔اسی تاریخ کو علامہ شبلی کی ولادت ہوٸی۔

از/ *عبدالعلیم بن عبدالعظیم الاعظمی پرانہ تھانہ سرائے میر اعظم گڑھ* /صداٸے وقت۔
==============================
       1857 میں جب انگریزوں کے خلاف بغاوت کی راہ ہموار ہوی اور پورے ہندوستان میں عوامی سطح پر بغاوتوں سلسلہ شروع ہوا-
            ہندوستان کا پہلا آزاد شہر اعظم گڑھ۔

 میرتھ،مرادآباد،شاملی،اور دھلی وغیرہ سے اٹھنے والی بغاوت کی آواز چند ہی ایام میں ہندوستان کے چپے چپے تک پہنچ گی، اس عوامی تحریک سے تقریبا ہر ضلع متاثر ہوا، جگہ جگہ جنگیں ہوئیں، چپہ چپہ آزادی کے نعروں سے گونج اٹھا، خطہ خطہ شمع آزادی کے پروانوں کے خون سے سیراب ہوگیا -اس تحریک کا اچھا خاصا اثر ضلع اعظم گڑھ میں بھی دکھا اعظم گڑھ کی متعدد فوجیں انگریزوں کے خلاف بر سر پیکار ہوئیں، کچھ فوجیں ذمینداران کے ماتحت تھیں، کچھ بادشاہوں اور کچھ اودھ حکومت کے زیر اثر تھیں- 1857 میں اعظم گڑھ میں کئی جنگیں ہوئیں جگہ جگہ آزادی کے متوالوں نے انگریزوں سے جھڑپیں کئیں ،اسی دوران باشندگان اعظم گڑھ  نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے خطہ اعظم گڑھ کو آزادی کی نعمت سے سرفراز کیا-
 جی ہاں آج سے 163 سال قبل آج ہی کے دن اعظم گڑھ  انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہوا تھا اور اسی دن علامہ شبلی نعمانی علیہ الرحمہ کی ولادت ہوی تھی علامہ سید سلیمان ندوی علیہ الرحمہ حیات شبلی میں رقمطراز ہیں کہ:
*مولانا شبلی مرحوم کی ولادت 3جون1857 میں عین اسی ہنگامہ خیز زمانے میں ہوی جو کہ عام طور پر غدر کے نام سے مشہور ہے اور یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ عین اسی ولادت ہوی جس دن ضلع اعظم گڑھ  کے باغیوں کی ایک جماعت نے ڈسٹرکٹ جیل کے پھاٹک کو توڑا ڈالا اور بہت سے قیدیوں کو نکال لے گئے*
 [ *حیات شبلی ص86 مع حاشیہ* ]   
ضلع اعظم گڑھ میں مئی کے اواخر میں  مجاھدین کی متعدد جماعتیں خفیہ طور پر بغاوت کی تیاری کررہی تھی جن میں سے رجمنٹ 17 جو کہ اودھ حکومت کے زیر اثر تھی سب سے زیادہ متحرک تھی اس سے  قبل انگریزوں سے چھڑپوں کے دوران کئ جنگجووں کو اعظم گڑھ جیل میں قید کردیا گیا تھا 3جون 1857 کو اعظم گڑھ کے اندر باغیوں کی متعدد جماعتوں نے بغاوت کی -
پرگنہ  ماھل پر مظفر جہاں کا قبضہ تھا اس نے وہاں جنگی مورچہ بندی کررکھی تھی، پرگن سنگھ نے مہاراج گنج کے تھانے پر حملہ کیا ،شیخ رجب علی نے اعظم گڑھ کوتوالی پر حملہ کیا- 
[ *تاریخ جنگ آزادی 1857ص507* ]  
ان متحدہ حملوں کے نتیجے میں بڑے بڑے انگریز افسران غازی پور فرار ہوگئے اور اسی دن کوندا گاوں کے عوام نے پھول سنگھ کی رہنمای میں انگریزوں کی نیل فیکٹریوں کو برباد کردیا تھا-[ ایضا ص 507  ] 
اسی دوران رجمنٹ 17 جو پہلے ہی سے بغاوت کی خفیہ پلانگ کررہی تھی انگریزوں کی ایک فوج پر حملہ کردیا جو اعظم گڑھ سے گزر رہی تھی جس کا ذکر مورخ ساورکر نے اس کا ذکر کچھ یوں کیا ہے :
*انقلابیوں نے 31مئی  سے  ہی پلان بناکر متحرک  تھے 3 جون کو انگریزوں کی ایک فوج جوکہ 7 لاکھ خزانہ کے ساتھ بنارس جارہی تھی اسی دوران رات میں رجمنٹ 17 نے ان پر حملہ کردیا اور وہاں پر انگریزوں کی ایک کثیر تعداد کو بلاک کردیا اور خزانہ لوٹ لیا*[1857 کا سوتنت  ]
مشہور مورخ پنڈت کنہیا لال نے لکھا ہے کہ:
*3 جون کو ہندوستانی رجمنٹ 17 نے اعظم گڑھ میں فساد بپا کیا انہوں نے لیفٹینٹ ہیچیسن کو تو جان سے مار ڈالا جبکہ سارجنٹ میجروں کو شدید زخمی کرکے سات آٹھ لاکھ روپئےاور توپیں لیکر اگلے روز اودھ روانہ ہوگئے*
 [1857 کی بغاوت]     
اسی دوران دیسی سپاہیوں نے بھوندو سنگھ کو لیڈر بناکر بغاوت شروع کردی اعظم گڑھ میں بغاوت شروع ہوتے ہی راجپوت،پٹھان اور  نہرن قبیلے شامل ہوگئے ان علاقوں کے راجکماروں کے  علاوہ پلوار قبیلے کا سردار پرتھوی پال سنگھ اپنے سپاہیوں کو لیکر چلا ایا- 
نظام آباد،سگڑی، مبارک پور ،دیوگاوں، چریا کوٹ ،بھگت پور اور ماھل وغیرہ بغاوت سے متاثر ہوئے -
ان متحدہ حملوں کے بعد 3 جون ہی کو شام 7 بجے شیخ رجب علی  نے اعظم گڑھ  ڈسٹرکٹ جیل کے پھاٹک کو توڑ کر اعظم گڑھ کو آزاد گھوست کردیا [ *اعظم گڑھ بھگول ص7*   ]    
قاضی اطہر مبارک پوری علیہ الرحمہ نے اس آزادی کا ذکر کچھ یوں کیا ہے کہ :
*شیخ رجب علی اور ان کے اصحاب یہاں کے مشہور بہادر تھے جنہوں نے 1857 کی جنگ آزادی میں انگریزی حکومت کا ضلع(اعظم گڑھ )سے خاتمہ کردیا تھا* 
[ *تذکرہ علماء مبارک پور ص 67* ]   
مولانا عمیر الصدیق  ندوی صاحب فیوص بمہور میں رقمطراز ہیں کہ :
*رجب علی اور ان کے جیالوں نے اعظم گڑھ کو آزاد کرایا آزادی کی یہ تھوڑی سی راحت بھی بہت تھی*
 [ *فیوض بمہور ص 107* ]   
ضلع اعظم گڑھ سے جب انگریزی فوج کا مکمل خاتمہ ہوگیا تو ماھل کے راجہ ارادت جہاں نے جونپور شاھی قلعہ  سے خود مختار حکومت کا اعلان کردیا اور خود نائب ناظم کا دعوی کردیا  
[ *دیار پورب میں علم اور علماء* ] 
بعد میں اودھ حکومت نے راجہ بینی مادھو سنگھ کو ناظم اعلی اور راجہ ارادت جہاں کو نائب ناظم مقرر کیا-
آزادی کے بعد چند مہینوں تک اعظم گڑھ  آزاد رہا اس دوران اعظم گڑھ  میں کئ جنگیں ہوئیں صرف اترولیا ہی میں دو تین جنگ ہوی  ۔
مبارک پور میں چار روز تک جنگ ہوی 
انگریزوں نے چند ہی ایام کے بعد ایک بڑی فوج کے ساتھ اعظم گڑھ پر حملہ کردیا اترولیا میں راجہ بینی مادھو سنگھ سے زبردست جنگ ہوی آخر میں انگریزوں کو شکشت کھاکر پیچھے ہٹنا پڑا -
  وہیں دوسری  طرف   انگریزوں کی ایک فوج نے بمہور پر چڑھائ کردی شیخ رجب علی کو شہید کردیا گیا بمہور کو آگ لگا دی گئ آس پاس کے گاوں کو لوٹ لیا گیا -
  اعظم گڑھ میں برابر جنگیں ہوتی رہیں 1857 کے اوخر میں ایک بار پھر انگریزی فوج اور راجہ بینی مادھو سنگھ کے فوج کے درمیان اترولیا میں جنگ ہوی  اگر چہ اس جنگ میں انقلابیوں کو شکست کھانی پڑی اور اس طرح انگریز ایک بار پھر اعظم گڑھ میں داخل ہوئے لیکن مورخین نے لکھا ہے کہ :
*اس جنگ میں انقلابیوں کی قلعہ میں چار چار  فٹ اونچی لاشیں تھیں* -
دوسری طرف راجہ سید اردات جہاں کی فوج  سے مبارک پور میں چار روز تک انگریزوں سے جنگ ہوتی رہی اسی دوران اپنوں کی غداری کی وجہ سے صلح کے بہانہ راجہ سید ارادت جہاں کو پھانسی دے دی گئ اور فوج کو تہس نہس کردیا گیا اس کے باوجود بھی انگریز اعظم گڑھ  پر مکمل قبضہ نہیں کرپائے-
راجہ ارادت جہاں کے بیٹے مظفر جہاں نے 16 ہزار جنگجووں کو ماھل میں ٹرینگ دیکر انگریزوں سے جنگ کی مورخین نے لکھا ہے کہ:
*پرگنہ ماھل پر راجہ مظفر جہاں  کا 1860 تک قبضہ رہا*
 دوسری طرف راجہ بینی مادھو سنگھ بھی وقتا فوقتا ٹکراتے رہتے تھیں

ابن عبدالعظیم الاعظمی 2 جون 11/50