Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, June 26, 2020

اللہ ‏کے ‏شیروں ‏کو ‏آتی ‏نہیں ‏روباہی۔۔۔۔۔

تحریر /محمد فہد حارث /صداٸے وقت۔
=============================
جب  بھی یہ شعر سنتا تھا  تو فی زمانہ جس پہلے شخص کا خیال ذہن میں آتا تھا وہ جماعتِ اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن  مرحوم تھے۔ آپ ان چند شخصیات میں سے تھے جنہوں نے جماعتِ اسلامی سے متعلق میرے سلبی تصور کو بدلنے میں  بہت بڑا کردار ادا کیا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نیا نیا جوان ہوا تھا، غالباً بیس  برس کا بھی نہ تھا، دین  سیکھنے سمجھنے کا شوق ہوئے کوئی  دو تین سال ہی ہوئے ہونگے۔  ہر جذباتی نوجوان کی طرح مجھ کو بھی اپنے مسلک، اپنی جماعت، اپنے لوگوں کے علاوہ  باقی سارے گمراہ نظر آتے  تھے۔ انہیں میں سے ایک جماعتِ اسلامی بھی تھی، جس کو میں "منافقوں" اور "سیاسی لوٹوں" کی جماعت سمجھ کر "جماعتِ غیر اسلامی" پکارا کرتا تھا۔ پھر کچھ ایسا ہوا کہ  امریکہ نے افغانستان پر حملہ کردیا۔ میڈیا پر پروپیگنڈے کی ایسی زبردست لہر چلی کہ  شاید ہی کوئی معاشرتی طبقہ بچا ہو جس نے افغان طالبان پر  "دہشت گرد" ہونے کا الزام نہ لگایا ہو۔ صرف ایک دہائی میں طالبان  کو نہایت تیزی سے "مجاہدین" سے "دہشت گرد" ہونے کا سفر طے کروادیا گیا اور اس سفر کا موید ایسا زبردست ابلاغی پروپیگنڈہ تھا کہ  جب تک  ہر نجی مجلس میں طالبان کی "دہشت گردی" پر بات کرکے ان کی بابت دو تین تبّرے نہ پڑھ دئیے جاتے، مجلس کا کفارہ ادا نہ ہوتا تھا۔  ایسے میں جماعتِ اسلامی کی قیادت سید منور حسن مرحوم کے ہاتھ میں آگئی۔  اب یاد نہیں لیکن کسی نجی ٹی وی چینل نے ان کا ایک انٹرویو نشر کیا۔ ہم بھی بڑی نخوت و غرور سے  "جماعتِ غیر اسلامی" کے اس نئے "منافق" امیر کا انٹریو دیکھنے بیٹھے کہ چلو ذرا ان صاحب کی "منافقت" کی بھی نشاندہی کرتے جائیں۔ انٹرویو سنتے گئے اور نگاہیں حیرت و استعجاب سے پھیلتی گئیں۔ انٹرویو تھا یا ایسا محسوس ہورہا تھا کہ بن میں کوئی شیر دھاڑ رہا ہے۔ ٹی وی اینکر کے تمام سوالات کا محور و مرکز افغان طالبان تھے جن کی تائید میں اُس وقت بات کرنا گویا آ بیل مجھے مار کے مترادف  ہوا کرتا تھا لیکن سید منور حسن صاحب ہر سوال کا  جواب پوری خود اعتمادی اور اینکر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یوں حقارت سے دے رہے تھے کہ جیسے اس کو تحت اللفظ یہ پیغام دے رہے ہوں کہ میاں یہ بھی کوئی بیناؤں اور داناوں کے پوچھنے کے سوالات ہیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ اینکر نے ان کو پھنسانے کےلیے ان سے پوچھا کہ گویا آپ کے خیال میں طالبان مجاہد اور امریکہ دہشت گرد ہے؟ تو سید منور حسن  صاحب نے کمالِ بے نیازی و خود اعتمادی  سے جواب دیتے ہوئے فرمایا: "میاں! وہ سوال پوچھئے، جس  متعلق دو رائے ہوں"۔ اور اینکر صاحب کھسیانی سی مسکراہٹ لے کر بیٹھے رہ گئے۔
المختصر وہ دن اور آج کا دن میرے لیے منور حسن صاحب ہمیشہ ایک مردِ مجاہد کی حیثیت اختیار کیے رہے۔ ایسے انسان جو بیک وقت درویش صفت بھی   ہوں اور  مردِ مجاہد بھی، آج کے دور میں خال خال ہی ملتے ہیں اور سید منور حسن مرحوم ایسے ہی تھے۔ میں  پچھلے  سترہ اٹھارہ سالوں سے سید صاحب کا باقاعدہ سامع تھا۔ کہیں ان کا کوئی بیان ہو، کہیں ان کو کوئی انٹرویو ہو، شاید ہی کبھی چھوڑا ہو۔ اور میں علی وجہ البصیرت یہ بات کہتا ہوں کہ  بعض مواقع پر ان کے سیاسی اقدامات سے اختلاف بھی ہوا لیکن ان کے کسی اقدام کو کبھی منافقت یا مداہنت سے تعبیر کرنے کی جرات نہ کرپایا۔ وہ انسان یکساں ظاہر و باطن رکھنے والا تھا۔  دیکھنے میں نہایت متین، بردباد،  حلیم لیکن جہاں اسلام پر بولنےکی بات آتی تو ایسا محسوس ہوتا کہ کسی جنگل میں کوئی صیغم دھاڑ رہا ہے۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ خاص کر یہ کہ اپنے حصہ کا کام بغیر نتائج کے یکدم حصول کی پرواہ کیے کرتے جاؤ اور پھل آنے والوں کے لیے چھوڑ جاؤ۔ ضروری نہیں کہ اپنی محنت کا ثمر تم اپنی زندگی میں دیکھ جاؤ۔ تمہارے مرنے کے سو، دو سو یا ہزار سال بعد بھی کبھی اسلامی انقلاب  آیا، اسلامی ریاست تشکیل پاگئی، لوگ اللہ کے نظام کے تحت  زندگی گزارنے لگے تو اس نظام کے بپا کرنے میں تمہارا بھی کردار ہوگا، بس اس سوچ کے ساتھ محنت کیے جاؤ اور اللہ کے دین کو بپا کرنے کے لیے اپنا حصہ ڈالتے رہو۔

جماعتِ اسلامی بھی کیا رشک کرتی ہوگی کہ اس کی جھولی میں اللہ نے سید منور حسن جیسا ہیرا ڈالا تھا۔ اس مردِ مجاھد  کے اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہونے کو یہی کافی ہے کہ آج اس کی موت پر بلا امتیازِ مسلک ہر آنکھ اشکبار اور ہر دل  مغموم ہے۔ یہ رتبہ یہ درجہ اس امت میں بہت کم  لوگ پاتے ہیں جہاں مداح و ناقد دونوں کسی کی موت پر برابر کے سوگوار ہوں۔ میں نے ان جیسا نڈر، حق گو اور بیباک لیڈر نہیں دیکھا۔ آج صرف جماعت اسلامی ہی نہیں یہ امت اپنے بہت بڑے اثاثے سے محروم ہوگئی ہے۔

اللہ  منور حسن صاحب کے لیے آخرت کا سفر آسان کرے اور دین اسلام کے لیے ان کی مساعی کو اپنی بارگاہ میں مقبول فرمائے۔  ان جیسا رہبر و لیڈر نہ جماعتِ اسلامی میں تھا اور نہ موجودہ کسی سیاسی جماعت میں۔ ان کی وفات سے اسلامی نظام کے لیے جدوجہد کرنے والی جماعتوں میں  ایک ایسا خلاء  پیدا ہوگیا  جس کا پُر ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ آج ان کی موت پر دل کٹا سا جاتا ہے۔  ہمیں ہماری  دینی و مشرقی روایتوں سے جن بزرگ ہستیوں نے جوڑ رکھا ہے، آج ان میں سے ایک ہستی اور اس دنیا سے رخصت ہوئی۔ اللہ شاید ہم سے ناراض ہے کہ ایک ایک کرکے "اللہ والے" اپنے پاس بلاتا جارہا ہے۔

زمین کھاگئی آسماں کیسے کیسے😔

تحریر: محمد فھد حارث