Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, June 5, 2020

جمعہ ‏نامہ۔۔۔۔ایمان ‏، ‏تقویٰ ‏اور ‏نیکی۔

از/ ڈاکٹر سلیم خان /صداٸے وقت ۔/٥ جون ٢٠٢٠ بروز جمعہ۔
==============================
ایمان  زبان سے اقرار، دل سے تصدیق، اعضاء وجوراح سے عمل کرنے کانام ہے۔ زبانی  اقرارکی تصدیق  اگر دل سے نہ ہو تو وہ نفاق ہے۔ایمان بلا عمل فسق ہے ۔ اس   سے بچنے کے لیے  دل میں تقویٰ  ہوناچاہیے تاکہ اعضاء و جوارح کے لیےاعمال  صالحہ کا ارتکاب آسان ہوجائے۔   نیکی سےایمان  بڑھتا ہے اور گناہ سے کم ہوجاتا ہے۔ایمان کو جانچنے کا پیمانہ اگر نیکی ہے توسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیکی کیا ہے۔ رسول اکرم ﷺ فرماتے ہیں   ’’اصل نیکی حسن اخلاق ہے‘‘۔  عام طور احادیث میں قرآن حکیم کی آیات  کی تفسیر ہوتی ہے لیکن یہ حدیث دراصل آیت  البر کا خلاصہ ہے۔ ارشادِ ربانی ہے :’’ نیکی یہی نہیں ہے کہ تم اپنے چہرے مشرق اور مغرب کی طرف پھیر دو‘‘۔ عام طور انسان چونکہ نیکی اور بدی کو چند علامات سے منسوب کرکے مطمئن ہوجاتا ہے اس لیے خیر کیا ہے یہ بتانے سے  پہلے  بتایا گیا  کہ کیا نہیں ہےکیونکہ نیکی کے جعلی   تصور ات کی جھاڑ جھنکاڑ سے   جب تک قلب و ذہن پاک صاف   نہ ہوجائے اس وقت  تک اس میں حقیقی خیر کا تخم پروان نہیں چڑھ سکتا ۔  اس کے بعد اعمال بیان کرنے بجائے ایمانیات کا ذکر فرمایا گیا اس لیے کہ ایمان کے بغیر عمل معتبر نہیں۔ فرمایا ’’بلکہ اصل نیکی اُس کی ہے جو ایمان لایا اللہ پر ‘اور یومِ آخر پر‘ اور فرشتوں پر ‘اور کتابوں پر اور انبیاء پر‘‘۔

ایمان کے بعد جب اعمال کا ذکر آئے تو بندۂ مومن  توقع کرتا ہے کہ عبادات مثلاً نماز روزے کا ذکر ہوگا لیکن چونکہ  نیکی حسن اخلاق ہے اس  لیے حقوق اللہ سے پہلے حقوق العباد کی تلقین فرمائی گئی ’’ اور دیا اس نے مال اس کی محبت کے علی الرغم رشتے داروں کو‘اور یتیموں کو‘اور محتاجوں کو‘اور مسافرکو‘اور سائلوں کواور گردنوں کے چھڑانے میں‘‘۔  ایسے ایمان والے کا تصور محال ہے جو عبادات کو اولین نیکی نہ سمجھتا ہو لیکن حقوق العباد کو بھی عین خیر سمجھنے والے کم ہوتے ہیں ۔ اس کا ذکرنے کے بعد فرمایا گیا ’’ا ور قائم کی اس نے نماز اور ادا کی زکوٰۃ‘‘۔دین فطرت میں یہ ترتیب و توازن ہے کہ انسان خدمت خلق کو سب کچھ کر عبادات سے بے نیاز نہ ہوجائے ۔باہمی رشتوں کی بنیاد ایفائے عہد پر ہوتی ہے۔ اہل ایمان  جہاں اپنے رب سے کیے گئے ’عہدِ الست‘ کی پاسداری کرتے ہیں وہیں بندوں کے ساتھ بھی وعدہ کرکے نبھاتے ہیں۔ آیت کے اگلے حصے میں اس کا ذکر ہے فرمایا ’’   اور پورا کرنے والے اپنے عہد کے جبکہ کوئی باہم معاہدہ کرلیں‘‘۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وہ خالص منافق ہے جب بات کرتا ہےتو جھوٹ بولتاہے، وعدہ کرکے  خلاف ورزی کرتاہے، عہدو پیمان باندھ کر توڑ دیتاہے اور جھگڑا ہوجائے تو گالی گلوچ کرنے لگتا ہے۔ گویا یہ گناہ ایمان کو نفاق میں بدل دیتے ہیں۔
اس دنیا میں انسان کو آزمائش کے لیے بھیجا گیا اور مختلف النوع ابتلاء اس کا مقدر کردی گئیں۔  ان میں صبر و استقامت کا مظاہرہ بھی نیکی ہی ہے اس لیے کہ آگے فرمانِ ربانی ہے’’اوربالخصوص صبر کرنے والے فقروفاقہ میں‘تکالیف و مصائب پراور جنگ کے وقت.یہی ہیں وہ لوگ کہ جو واقعتاً راست باز ہیں‘اور یہی ہیں وہ لوگ جو حقیقتاًمتقی ہیں ‘‘ ۔ آزمائشوں میں سے کچھ تو انفرادی ہوتی ہیں مثلاًغربت و مصیبت وغیرہ  مگر کچھ اجتماعی بھی ہوتی ہیں کہ جن کے لیے مل جل کر جہاد و قتال کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بغیرنہ تو ظلم و جبر کا خاتمہ ہوتا اور نہ  عدل و قسط کا قیام ممکن ہے۔ اس  کے لیے بھی صبرو استقامت کے  مظاہرے کو نیکی کی اس وسیع  تعریف  میں شامل کرکے یہ بتا دیا گیا کہ یہ کوئی سیاست نہیں بلکہ خیر مجسم کا جزو لاینفک ہے۔ آیت کے اختتام فرمایا ’’ یہی ہیں وہ لوگ کہ جو واقعتاً راست باز ہیں‘اور یہی ہیں وہ لوگ جو حقیقتاً متقی ہیں ‘‘۔ یعنی حقیقی تقویٰ ان تمام پہلووں کا احاطہ کرتا ہے  ۔ تقویٰ کی  اس  ہمہ گیر تعریف  کی روشنی  میں ہمیں اپنے قلب کو ٹٹول کر دیکھنا  چاہیے۔ ابھی رمضان تازہ ہے ہمیں  اپنے   روزوں کا جائزہ لے کر دیکھنا چاہیے کہ کیا ہم وہ  تقویٰ حاصل  کرسکے  جو ان تمام  تقاضوں کو پورا کرنے میں ہمارا معاون و مدد گا رہو  یا ہم نے  بھی اپنی  پسند کی مطابق نیکی  کے تصور کو  چند لگے بندھے رسوم ورواج اور علامات سے وابستہ کرکے اپنے آپ کو مطمئن کررکھا ہے۔  اللہ تعالیٰ ہمیں حقیقی تقویٰ  اور نیکی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔