Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, June 19, 2020

جمعہ ‏نامہ۔۔۔۔حقیقی ‏سہارا۔۔۔مجازی ‏سہارے۔



از/ ڈاکٹر سلیم خان/صداٸے وقت۔
==============================

کفر و شرک کی انتہاوں کے  درمیان  تو حید سواء السبیل ہے۔   توحید ٖخالص کے حصول کی خاطر رب کائنات کی ذات و صفات کا ادراک لازمی  ہے۔ قرآن حکیم کی مختلف آیات اللہ تبارک و تعالیٰ کی معرفت کراتی ہیں ۔  ان میں سے ایک نہایت جامع آیت الکرسی میں ارشادِ باری تعالیٰ  ہے: اللہ، وہ زندہ جاوید ہستی، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے، اُس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے وہ نہ سوتا ہے اور نہ اُسے اونگھ لگتی ہے زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے، اُسی کا ہے کون ہے جو اُس کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے، اس سے بھی وہ واقف ہے اور اُس کی معلومات میں سے کوئی چیز اُن کی گرفت ادراک میں نہیں آسکتی الّا یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی اُن کو دینا چاہے۔ ذاتی صفات کے ہمہ گیر تعارف کے بعدچندانتظامی  پہلو اس طرح بیان ہوئے ہیں کہ  ’’ اُس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور اُن کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکا دینے والا کام نہیں ہے بس وہی ایک بزرگ و برتر ذات ہے‘‘۔ 
آیت الکرسی کے فوراً بعد والی آیت میں  اللہ رب العزت ٰ اپنے نازل کردہ دین حنیف کے متعلق بیان فرماتا ہے ’’ دین کے معاملے میں کوئی زور زبردستی نہیں ہے صحیح بات غلط خیالات سے ا لگ چھانٹ کر رکھ دی گئی ہے‘‘۔ یہاں پر دین اسلام کی دوخصوصیات کا ذکر ہے ۔ ایک تو اس کے ذریعہ   گمراہیوں  کے درمیان ہدایت کا امتیاز   اور اس  دین کی بابت اختیار و عمل کی مکمل آزادی۔  دین کے معاملے میں  زور زبردستی نہ تو مالکِ حقیقی نے خود کی ہے اور بندوں کو اس کی اجازت دی ہے لیکن اس آزادی کےصحیح  یا  غلط   استعمال  کے نتیجے میں  رونما ہونے والے انجام سے اس طرح  خبردار کیا   گیا کہ ’’ اب جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا، اُس نے ایک ایسا مضبوط سہارا تھام لیا، جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں، اور اللہ (جس کا سہارا اس نے لیا ہے) سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے‘‘۔  اس موقع پر جنت و دوزخ کے بجائے سہارے کی بات دعوت فکر دیتی ہے۔  دراصل اپنے خالق و مالک کا انکار کرنے کے بعد انسان کے روحانی وجود میں جو خلاء پیدا ہوجاتا ہے اس کو اگر نفس سے پرُکیا جائے تو  انسان نفسانی خواہشات کا بندہ بن جاتا ہے۔ وہاں پر اگر طاغوتی   اقتدار کو براجمان کردیا جائے تو اس کی بندگی شروع ہوجاتی ہے ۔ یہ دونوں صورتیں شرک کا راستہ کھولتی ہے۔ ان میں سے کسی ایک سہارے کے بغیر بات نہیں بنتی  لیکن یہ  سہارےپائیدار نہیں ہوتے ۔ فانی  طاغوت سے کفر کے بعد ایمان لانےکے بعد ہی مضبوط  اور دائمی سہارا ملتا ہے۔ 
کفر و الحاد نہایت غیر عقلی عقیدہ ہے جو   نامور دانشوروں کی حمایت کے باوجود سوادِ اعظم  میں مقبول عام حاصل  کرنے سے قاصر رہا ہے۔ عام لوگ شرک کے چکر میں پھنس کر زندہ یا مردہ طاغوت کو اپنا سرپرست بنا لیتے  ہیں ۔    ایسے لوگوں کے بارے میں ارشادِ ربانی ہے ’’جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر دُوسرے سرپرست بنا لیے ہیں اُن کی مثال مکڑی جیسی ہے جو اپنا ایک گھر بناتی ہے اور سب گھروں سے زیادہ کمزور گھر مکڑی کا گھر ہی ہوتا ہے کاش یہ لوگ علم رکھتے‘‘۔  مکڑی اپنے جال کی مضبوطی کے گمان میں اس وقت تک مبتلا رہتی ہے جب تک کہ ہوا کا تیز جھونکا  مثلاً کورونا کی وباء اس کے تار و پود بکھیر نہیں دیتی۔  اس طرح کی تباہی و بربادی سے دوچار ہونے کے   بعد کمزور سہارا پکڑنے والوں کی  حالت اس طرح بیان ہوئی  ہے کہ ’’یکسُو ہو کر اللہ کے بندے بنو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا وہ آسمان سے گر گیا، اب یا تو اسے پرندے اُچک لے جائیں گے یا ہوا اُس کو ایسی جگہ لے جا کر پھینک دے گی جہاں اُس کے چیتھڑے اڑ جائیں گے ‘‘۔ اس عبرتناک انجام سے اپنے آپ کو محفوظ و مامون رکھنے کے لیے آگے یہ ہدایت کی گئی ہے کہ ’’ یہ ہے  اصل معاملہ (اسے سمجھ لو)، اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے‘‘۔حدوداللہ کے احترام  کی شرط  تقویٰ اور  سواء السبیل پر چلنے کی خاطر مجازی سہاروں کے بجائے حقیقی سہارے پر مکمل انحصار لازمی  ہے۔

...................................