Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, June 16, 2020

لاک ‏ڈاٶن ‏سے ‏ان ‏لاک ‏تک ‏۔۔۔م


از/مفتی محمد ثناءالہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ/صداٸے وقت۔
==============================
 کورونا وائرس کی دہشت نے حکومت ہند کو مجبور کیا کہ وہ ملک میں کاروبار زندگی کو معطل کر دے ، چنانچہ وزیر اعظم نے پہلے ۲۲ ñ مارچ کو جنتا کر فیو کا اعلان کیا ، تالی اور تھالی پٹوایا، یہ منظر دیکھ کر گاؤں میں سر شام دیہاتیوں کے شور ہنگامے کی بہت یاد آئی، جب جانوروں سے مصیبتوں کو دور کرنے کے لیے لوگ شور شروع کر تے تھے اور یہ آواز پھیلتی ہوئی کئی گاؤں تک پہونچ جاتی تھی ، دیہاتی اور ان پڑھ لوگ اس قسم کے اوہام میں مبتلا ہوتے ہیں، ہمارے وزیر اعظم پڑھے لکھے ہیں، اور پہلے وزیر اعظم ہندوستان کے ہی  نہیں دنیا کے ہیں، جن کی ڈگری پریس کانفرنس کرکے دکھائی گئی ، ایسے پڑھے لکھے وزیر اعظم نے کیوں تالی اور تھالی پٹوائی ، لوگ سمجھ نہیں سکے، پھر انہوں نے صرف ایک دن بعد چار گھنٹے کا وقفہ دے کر پورے ملک کو لاک کر دیا، اور ایک دن انہوں نے لوگوں سے بجلی گل کرکے موم بتی اور ٹارچ جلا کر زمانہ قدیم میں ہندوستان کو پہونچانے کا کام کیا، اس سے جو فضائی آلودگی پیدا ہوئی وہ الگ ، لوگوں نے وزیر اعظم کی بات مان لی اور سب کچھ بند ہو گیا سماجی فاصلہ بنائے رکھنے اور سوشل ڈسٹنسنگ کے نام پر پورے ملک میں ہاہا کار مچ گیا ، مزدوروں کو جب کام نہیں ملا اور کمپنوں نے ان کے تعاون سے ہاتھ کھینچ لیے تو وہ گھر واپسی کے لیے سڑکوں پر نکل آئے، پیدل ، ٹرک، ٹھیلہ ، سائیکل ، موٹر سائکل جو دستیاب ہوا اس پر چل پڑے، اوپر کھلا آسمان ، سورج کی تمازت شباب پر ، نیچے تار کول کی تپتی سڑک ، ہزار ڈیڑھ ہزار کیلو میٹر کا فاصلہ ، بچے ، عورتیں، بوڑھے، سب شریک سفر ، خورد ونوش کا سامان عنقا ، بھوک سے تڑپتے لوگ اور دودھ کے لیے بلکتے بچے، یہ منظر بھی ان گناہ گار آنکھوں کو دیکھنا تھا ، سودیکھا کیے، بہت سارے لوگ دم توڑ گیے بعد از خرابیٔ بسیار گاڑیاں چلیں تو راستہ بھٹکنے لگیں، ٹرین کے راستہ بھٹکنے کی بات پہلی بار سننے میں آئی ، بھٹکی ہوئی ٹرینوں نے مزدور مسافروں کو بھی بھٹکایا اور خبر ہے کہ کم وبیش پچاسی مزدور ٹرین میں ہی دم توڑ گیے، لاک ڈاؤن کا سلسلہ بڑھتا ہی رہا ، پہلے اکیس دن، پھر انیس دن ، پھر چودہ دن اور پھر اکتیس مئی تک پورا ملک لاک ڈاؤن کا کرب جھیلتا رہا۔
 مزدوروں کے ساتھ غریب ومفلس لوگ بھی اس درمیان بے پناہ پریشانیوں سے گذرے ، حضرت امیر شریعت مفکر اسلام مولانا محمد ولی رحمانی دامت برکاتہم نے حکم دیا کہ پریشان حال لوگوں کی ہر ممکن مدد کی جائے، امارت شرعیہ کے خدام ، ذمہ داران، کارکنان قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی قاسمی کی ہدایت اور رہنمائی میں حضرت امیر شریعت کے حکم کی تعمیل میں لگ گیے، پٹنہ شہر مضافات  میں بلا تفریق مذہب وملت، غذائی اجناس ، کپڑے وغیرہ کی تقسیم کی گئی ، ذیلی دفاتر کے ذمہ داران ، قضاۃ حضرات، ضلعی کمیٹی کے عہدیداروں نے بھی اس میںبڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، جھارکھنڈ ، اڈیشہ میں بھی بڑے پیمانے پر مقامی لوگوں کے تعاون سے اس کام کو کیا گیا ، رانچی اور لوہر دگا میں کام کی وسعت اور رفتار کو دیکھ کر وہاں کی بعض تنظیموں کی طرف سے اس پریشان کن دور میں مصیبت زدوں کی مدد کے لیے امارت شرعیہ کوبہتر خدمات کے لیے سند توصیفی دیا گیا ، مدارس کے طلبہ، اساتذہ اور مزدور حضرات کی گھر واپسی کو یقینی بنانے پر توجہ مبذول کی گئی اور اسٹیشن پہونچنے پر ان کا استقبال کیا گیا اور ان کی گھر واپسی کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر انتظامات کرائے گیے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے اس خدمت کی ملک گیر سطح پر ستائش ہوئی، دار العلوم دیو بند ، دار العلوم وقف ، مظاہر علوم وقف، جامعہ عربیہ ہتھورہ باندہ، مدرسہ عین العلوم الٰہ آباد کے ذمہ داروں نے بذریعہ فون اور مکتوب اس سمت میں امارت شرعیہ کی مستعدی کو سراہا، طلبۂ مدارس سفر کی صعوبتوں سے گھبرائے ہوئے تھے، امارت شرعیہ کے ذریعہ راحت رسانی، خورد ونوش کے انتظامات سے کافی متاثر ہوئے، طلبہ کی بعض جماعتوں کو پہونچانے کے لیے امارت شرعیہ کے مبلغین کو سفر میں ان کے ساتھ کر دیا گیا ، جس سے انہوں نے بڑی عافیت محسوس کی اور امارت شرعیہ کے اکابر واصاغر اور خدام کے لیے ان کے دل سے دعائیں نکلیں، قابل ذکر ہے کہ اس کام میں امارت شرعیہ سے جڑے لوگوں میں کرونا کی نہ دہشت تھی اور نہ ہی وحشت ، بس ایک جذبہ تھا کام کا، خدمت خلق کا جو امارت شرعیہ کی شناخت او ر پہچان رہی ہے ، امارت شرعیہ کے کارندوں نے ایک طرف سرکاری ہدایت پر خود بھی عمل کیا اور مسلمانوں کو ذہنی طور پر اس کے لیے تیار کیا حضرت امیر شریعت کے کئی ویڈیوز اور مضامین نشر ہوئے، مسلمانوں کو حوصلہ ملا اور انہوں نے اپنے سارے جذبات کو کچل دیا ، جمعۃ اور عید کی نماز بھی گھروں میں ہونے لگی ، بہت سارے لوگوں نے ظہر کی نماز ادا کی، عید کے دن چاشت کی طرح نوافل پڑھے، لیکن ہدایات واحکام سے سرمو انحراف نہیں کیا۔
 یکم جون سے سرکار نے ان لاک ۔۱، کا اعلان کیا، دفاتر کھل گیے ، گاڑیاں چلنے لگیں، دوکانیں کھل گئیں اور دھیرے دھیرے زندگی معمول پر آ رہی ہے ، لیکن اس درمیان بہار ہی نہیں، پورے ملک میں مریضوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے ، یہ صحیح ہے کہ مریض کے صحت مند ہونے کی تعداد کا تناسب بڑھا ہے ، لیکن نقل مکانی کرکے آنے والے مزدوروں نے اس مرض کے متاثرین کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ کر دیا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اب اس کرونا وائرس کے ساتھ ہی جینا ہوگا،جیسے لوگ شوگر اور بلڈ پریشر کے ساتھ جی رہے ہیں، البتہ احتیاط اور پر ہیز بیمار ہونے سے بہتر ہے، امارت شرعیہ اس کی دعوت دیتی رہتی ہے ، خود اس کے دفتر میں جولوگ آ رہے  ہیں انہیں سینی ٹائز کیا جا رہا ہے ، فاصلے بنائے رکھے جاتے ہیں اور اس کی تلقین کی جا رہی ہے ، سرکاری ہدایات کے مطابق امارت شرعیہ کے تمام تعلیمی اداروں کو بند رکھا گیا ہے ، مکاتب بند ہیں اور انہیں تا اطلاع ثانی اپنی سر گرمیاں بند رکھنے کو کہا گیا ہے ، دیکھیے کب سے تعلیمی کارواں جادہ پیما ہو پا تا ہے، اس سلسلے میں طلبہ کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ رابطہ میں رہیں، اور جب تک کوئی واضح ہدایات نہ ملیں، تعلیمی اداروں کا رخ نہ کریں۔

 اس پورے لاک ڈاؤن مین ہماری خواہش تھی کہ نقیب کی ترسیل واشاعت کا کام حسب سابق جاری رہے ، شمارہ نمبر ۲۱، ۳۲ ñ مارچ کو چھپ کر آبھی گیا تھا ، لیکن ڈاک خانہ والوں نے اسے لوگوں تک پہونچانے سے انکار کر دیا، چنانچہ یہ شمارہ ابھی ایک ہفتہ قبل بھیجا جا سکا، اسٹیشنری کی دکانیں بھی لاک ڈاؤن کی زد میں آئیں، اس لیے دس شمارے نقیب کے نکلنے کی کوئی شکل نہیں بن سکی ، ایک شکل آن لائن اشاعت کی تھی ، آن لائن کے قاری بھی الحمد للہ بہت ہیں، لیکن ہماری غیرت نے یہ گوارہ نہیں کیا کہ مستقل خریداروں کو ہم نقیب سے محروم رکھیں، اس لیے آن لائن بھی نقیب نہیں نکالا جا سکا۔
 اب تازہ شمارہ خدمت میں پیش ہے، حضرت امیر شریعت دامت برکاتہم کے حکم وہدایت کے مطابق ہم اسے خوب سے خوب تر بنانے کی جد وجہد جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن اصل فیصلہ تو آپ کا ہے ، آپ جو ہمارے قاری بھی ہیں اور ناقد بھی۔