Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, June 27, 2020

عبادت ‏گاہوں ‏کے ‏تحفظ ‏کا ‏قانون ‏خطرے ‏میں ‏۔۔


تحریر / معصوم مرادآبادی/صداٸے وقت 
==============================
سپریم کورٹ نے حال ہی میں ایک ایسی عرضی سماعت کے لئے منظور کی ہے کہ اگرعدالت کافیصلہ اس کے حق میں صادر ہواتو ملک میں فرقہ واریت کا ایک نیا طوفان آجائے گا۔ ہر مسجد اور درگاہ کے نیچے ایک مندر تلاش کرنے والی سادھوؤں کی تنظیم نے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی اپنی عرضی کے حق میں جو دلائل پیش کئے ہیں، وہ انتہائی خطرناک ہیں اور ان کا مقصد ملک میں فرقہ واریت کا ایک ایسا زہر پھیلانا ہے جس سے مسلمانوں کی کوئی عبادت گاہ محفوظ نہیں رہے گی۔یہ عرضی دراصل 1991کے اس آرڈی نینس کو ختم کرنے کے لئے دائر کی گئی ہے جو عبادت
گا ہوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے۔

آ پ کو یاد ہوگا کہ جب ملک میں بابری مسجد کے خلاف انتہائی شرانگیز مہم چل رہی تھی تو اسی دوران  نرسمہا راؤ سرکار نے ایک آرڈی نینس منظور کیا تھا جس کی رو سے ملک کی آزادی کے وقت جو عبادت گاہ جس حالت میں تھی، اس کی وہی حالت برقرار رہے گی اور اس میں تبدیلی کاحق کسی کو نہیں ہوگا۔اس آرڈی نینس کے پاس ہونے کے بعد لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا تھا کہ اب مستقبل میں سنگھ پریوار کو بابری مسجد جیسا تنازعہ کھڑا کرنے کا موقع نہیں ملے گا اور تمام عبادت گاہیں شرپسندوں کے ناپاک عزائم سے محفوظ رہیں گی۔ لیکن اب سپریم کورٹ میں اس آرڈی نینس کو ہی چیلنج کردیا گیا ہے اور عدالت جلد ہی اس معاملے پر سماعت کرنے والی ہے۔
 واضح رہے کہ ملک کی سب سے بڑی عدالت نے جب سے بابری مسجد کی اراضی ہندوفریق کو پیش کی ہے، تب سے انتہا پسند تنظیموں کے حوصلے بلند ہوگئے ہیں اور اب انھوں نے گڑھے مردے اکھاڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔بابری مسجد کے معاملے میں اپنی غیر معمولی کامیابی سے تحریک پاکر اب فرقہ پرستوں نے دیگر مسجدوں پر بھی اپنے دعوے پیش کرنے شروع کردئیے ہیں۔ عبادت گاہوں سے متعلق قانون کو ختم کرنے کا اصل منشا ایودھیا کے بعد کاشی اور متھرا کی مسجدوں پر اپنا دعویٰ پیش کرناہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ1991میں نرسمہا راؤ سرکار نے اپوزیشن کے دباؤ میں جوآرڈی نینس پاس کیا تھا اس کا مقصد یہ تھا کہ آئندہ کبھی ملک میں ایودھیا جیسا تنازعہ پیدا نہ ہوسکے، کیونکہ اس تنازعہ نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا اور ملک کا سیکولر تانا بانا بری طرح بکھر گیا تھا۔آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ جس وقت ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر رام مندر بنانے کی خطرناک تحریک شروع ہوئی تھی تو وشو ہندو پریشد کے ہاتھوں میں ایسی تین ہزار مسجدوں کی فہرست تھی جو ان کے خیال میں مندروں کو توڑ کر بنائی گئی ہیں۔ ان مسجدوں میں ایودھیا کی بابری مسجد، بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عید گاہ سرفہرست تھیں۔مجھے یاد ہے کہ جب میں شلانیاس کی رپورٹنگ کے لئے ایودھیا گیا تھا تو وہاں وشوہندو پریشد کے لوگ یہ نعرے لگاتے تھے کہ ”ایودھیا تو صرف جھانکی ہے، ابھی کاشی متھرا باقی ہے۔“ظاہر ہے ان نعروں کا مقصد مسلمانوں کو نفسیاتی طور پر دباؤ میں لینا تھاتاکہ وہ دیگر مسجدوں کو بچانے کے لئے بابری مسجد پر اپنا دعویٰ چھوڑدیں۔
مسلمانوں میں بعض لوگ اس وقت یہ کہا کرتے تھے کہ بابری مسجد پر مفاہمت کرکے باقی مسجدوں کو محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن دور اندیش لوگوں کا موقف اس وقت بھی یہی تھا کہ مسجدوں کو مندروں میں بدلنے کی تحریک ایک انتہائی خطرناک سازش کا حصہ ہے اور اس کامقصد مسلمانوں کو زیر کرکے انھیں اس ملک میں دوسرے درجے کا شہری بنانا ہے۔اب جبکہ عبادت گاہوں سے متعلق آرڈی نینس کو ملک کی سب سے بڑی عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے تو یہ بات بخوبی سمجھ میں آرہی ہے۔فرقہ پرست اور فسطائی جماعتوں کا اصل مقصد اس ملک سے مسلمانوں کے پاؤں اکھاڑنا یا انھیں اپنے اندر ضم کرنا ہے تاکہ وہ اس ملک کو ہندوراشٹر بنانے کا خواب پورا کرسکیں۔ایودھیا میں پانچ سو سالہ قدیم بابری مسجد میں مورتیاں رکھنا ایک خطرناک حکمت عملی کا حصہ تھاجس میں انھیں پہلی کامیابی 6دسمبر1992کو اس وقت ملی جب پولیس، انتظامیہ اور حکومت کی مدد سے دن کے اجالے میں بابری مسجد کوشہید کردیا گیا۔ دوسری اور حتمی کامیابی فرقہ پرستوں کو گزشتہ سال نومبر میں ملی جب ملک کی سب سے بڑی عدالت نے بابری مسجد کے خلاف کئے گئے فرقہ پرستوں کے تمام جرائم پر مہر لگانے کے باوجود مسجد کی ملکیت کا فیصلہ ان ہی کے حق میں سنادیا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عدالت کی طرف سے بابری مسجد کے انہدام کو ایک مجرمانہ سرگرمی قرار دینے کے باوجود ابھی تک اس کے کسی مجرم کو کوئی سزا نہیں ملی ہے اور وہ قانون کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔ سی بی آئی کی عدالت میں ان دنوں لکھنؤ میں یہ ملزمان اپنے جو بیان درج کرارہے ہیں، ان میں ان کی عیاری اور مکاری سب صاف نظر آرہی ہے۔
گزشتہ ہفتہ ہندو پجاریوں کی تنظیم وشو بھدر پجاری پروہت مہا سنگھ نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرکے عبادت گاہ (خصوصی انتظام)آرڈی نینس1991 کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”18ستمبر 1991 کو پاس کیا گیا مرکزی قانون ہندوؤں کو ان لاتعداد مندروں سے محروم کرتا ہے جنھیں مسمار کرکے وہاں مسجدیں بنائی گئی ہیں۔ہندوؤں کے پاس ان تاریخی عبادت گاہوں پر اپنی ملکیت ثابت کرنے حق ہونا چاہئے۔اس حق کی راہ میں 1991میں پاس کیا گیا آرڈی نینس سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اس آرڈی نینس کے مطابق 15 اگست 1947کو ملک کی آزادی کے وقت مذہبی مقامات کی جو حالت تھی اسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔“ عرضی گزار پجاریوں نے کاشی وشو ناتھ اور متھرا مندر کے معاملے میں قانونی عمل دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔عرضی میں کہا گیا ہے کہ ”اس آرڈی نینس کوکبھی چیلنج نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی عدالت نے قانونی طریقے سے اس پر غور کیا۔ ایودھیا تنازعہ پر اپنے فیصلے میں بھی سپریم کورٹ کی دستوری بینچ نے اس پر صرف تبصرہ کیا تھا۔“
 بنارس کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ دونوں ایسی عبادت گاہیں ہیں جہاں بلا روک ٹوک نمازہوتی رہی ہے۔ بنارس کی گیان واپی مسجد وشوناتھ مندر کے بغل میں ہے اور اسی طرح متھرا کی عیدگاہ شری کرشن جنم بھومی مندر سے متصل ہے۔ پچھلے دنوں بنارس کی گیان واپی مسجد کے معاملے کو الہ آباد ہائی کورٹ میں یہ کہتے ہوئے چیلنج کیا گیا تھا کہ1664میں مغل بادشاہ اورنگزیب نے ایک مندر کوتوڑ کر یہاں مسجد تعمیر کروائی تھی۔اسی طرح متھرا کی شاہی عیدگاہ پرفرقہ پرستوں کا الزام ہے کہ اورنگزیب نے1669میں ایک مندر کو تڑواکر یہاں عیدگاہ اور مسجد تعمیر کروائی تھی۔ یہ تنازعہ انگریزوں کے دور میں عدالت پہنچاتھا لیکن اس پرہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مفاہمت ہوگئی تھی اور معاملہ رفع دفع ہوگیا تھا۔ تب سے وہاں باضابطہ نماز ادا کی جاتی رہی ہے۔ 1968 میں ٹرسٹ اور عید گاہ کمیٹی نے ایک سمجھوتہ کیا کہ تقریباً113یکڑ زمین جس پر عیدگاہ اور مسجد بنی ہے، اس پر عیدگاہ کمیٹی کو انتظام کاحق برقرار رہے گا۔ اس سے متصل زمین پرجہاں کبھی بدحال کیشو ناتھ مندر تھا وہاں اب شاندار شری کرشن جنم بھومی مندر ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ سادھوؤں کی اس پٹیشن کو جمعیۃ العلماء نے یہ کہتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے اس عرضی کو قبول کیا تو اس سے ملک میں لاتعداد مسجدوں کے خلاف عرضیوں کا طوفان آجائے گااور اس سے ملک میں فرقہ وارانہ منافرت اپنی انتہاؤں کو پہنچ جائے گی۔
واضح رہے کہ ایودھیا تنازعہ پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد ہی بعض انتہا پسند ہندو تنظیموں نے کاشی اور متھرا کا سوال اٹھایا تھا لیکن اس وقت آرایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ کاشی اور متھرا ان کے ایجنڈے میں نہیں ہیں۔لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ محض ایک فریب تھا اور اب سادھوؤں کی تنظیم نے سپریم کورٹ میں جو عرضی دائر کی ہے اس سے ظاہر ہے کہ سنگھ پریوار اس ملک میں ایک نیا وبال کھڑا کرناچاہتا ہے۔اس معاملے میں سادھوؤں کے بڑھے ہوئے حوصلوں کا ایک ہی سبب ہے کہ اب تک بابری مسجد کے مجرموں کو سزا نہیں ملی ہے۔ ان کے خلاف سی بی آئی عدالت کی کارروائی اتنی سست ہے کہ شایدہی ان لوگوں کی زندگی میں اس کا کوئی فیصلہ آپائے۔ لال کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی جیسے ملزمان عمر کے اس حصے میں ہیں کہ ان کی زندگی کا چراغ کبھی بھی گل ہوسکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بابری مسجد انہدام سازش کیس کی سماعت کی رفتار تیز کروائی جائے تاکہ مجرموں کو قرار واقعی سزا مل سکے اور دیگر سادھوؤں کو جو اب کاشی اور متھرا کا راگ الاپ رہے ہیں،یہ احساس ہوسکے کہ اس ملک میں اب بھی قانون کی حکمرانی ہے اور یہاں جنگل راج نہیں ہے۔