Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, June 21, 2020

زرعی ‏پیداوار ‏سے ‏متعلق ‏سرکاری ‏فرمان۔۔۔


از / سراج حسین۔۔(مترجم: محمد صغیر حسین)/صداٸے وقت/ڈاکٹر نازش احتشام۔
=============================
گزشتہ 5 جون کوحکومت ہند نے تین سرکاری فرمان جاری کیے۔ ایگریکلچرل پروڈیوس مارکیٹ کمیٹیز (Agricultural Produce Market committees) کے حدود کے باہر زرعی پیداوار کی تجارت کرنے کی اجازت لازمی اشیاء ایکٹ (Essential Commodities Act) کے تحت عائد بندشوں میں نرمی اورٹھیکہ کاشتکاری کو بڑھاوادینا ہے۔

ملک اس وقت بھی کووڈ-19 معاملات میں تیزی کے ساتھ اضافے کے سبب فقیدالمثال بحران کے درمیان ہے۔ روزانہ تقریباً 10,000 نئے معاملات سامنے آرہے ہیں لیکن اس کے باوجود مذکورہ بالا سرکاری فرمانوں کے ذریعہ زرعی سیکٹر کے ماحول میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔
کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ اس قدر اہم اور دور رس قوانین پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی لازمی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ اصلاحات کئی دہائیوں سے پارلیمنٹ میں زیرِ بحث رہی ہیں۔ مزید برآں متعدد پارلیمانی کمیٹیوں نے زرعی سیکٹر کا انتظام و انصرام کرنے والے تجدیدی نظم و نسق کو ختم کرنے کی سفارشات کی ہیں۔ ان تینوں میں Farmer's Produce Trade and a Commerce (Promotion and Facilitation Ordinance), 2020  سب سے زیاد و دو رس نتاج کا حامل ہے۔
زنجیروں سے نجات
 اس قانون کی رو سے زرعی اشیاء کو کسی بھی تجارتی علاقے میں خریدا اور بیچا جاسکتا ہے۔ تجارتی علاقے کی تعریف متعین کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ APMC کمیٹیوں کے زیرِانتظام یا اجازت یافتہ منڈیوں کی حدود کے باہر یہ کوئی بھی مقام ہوسکتا ہے۔ تجارتی علاقے میں کاروبار کرنے کے لیے بس ایک ہی شرط ہے کہ تاجر کے پاس ایک جائزPAN کارڈ ہونا چاہیے اور کسان کو عام طورپر اسی دن رقم دے دی جانی چاہیے۔
تاہم ’آزاد تجارت‘ کو بھی قواعد وضوابط کا پابند بنایا جاسکتا ہے کیوں کہ حکومت نے مستقبل میں PAN کے علاوہ کسی اور دستاویز کو طلب کرنے کا حق بجا طور پر اپنے پاس رکھا ہے۔ حکومت تاجروں کے رجسٹریشن، لین دین کے طریقوں اور کسانوں کو ادائیگی رقم کے طور طریقوں کے لیے کوئی اور نظام بھی تجویز کرسکتی ہے۔
اسی طرح سرکاری فرمان، PAN کارڈ کے حال کسی بھی شخص (نفرادی شخصیت کے علاوہ) کو زرعی پیداوار کی تجارت کے لیے الیکٹر انک تجارت اور لین دین پلیٹ فارم قائم کرنے اوراسے چلانے کی اجازت دیتا ہے۔ دست بدست لین دین میں مال کی سپردگی فی الفور اسی مقام پر ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں الیکٹرانک پلیٹ فارموں پر تجارت کے لیے بہتر نگہداشت اور ضابطوں کی ضرورت ہوگی۔ اسی لیے اس معاملے میں بھی حکومت نے رجسٹریشن کے قاعدے طرزِ عمل کے ضابطے اور طریق کار وضع کرنے کا حق بجا طور پر اپنے پاس رکھا ہے۔
چنانچہ یہ بات ظاہر ہے کہ اگلے چند ماہ میں ہمیں حکومت سے یہ توقع کرنی چاہیے کہ وہ مذکورہ بالا مسئلوں پر قواعد وضوابط وضع کرے گی۔ اب اس بات کا خدشہ نہیں کہ ماحولی نظام مکمل طور پر محروم ضوابط رہے گا۔
سرکاری فرمان میں سب سے اہم شق یہ ہے کہ تجارتی علاقے میں لین دین پر کوئی بازار فیس، محصول یا لگان نہ ہوگا۔ سردست مختلف ریاستوں کی ARMC کمیٹیوں میں کئی طرح کے ٹیکس/فیس/کمیشن لیے جاتے ہیں۔ کئی ریاستوں میں ایک فیصد سے لے کر پنجاب میں 85 فیصد تک ٹیکس/محصول دینے پڑتے ہیں۔ تجارتی علاقے میں صفر ٹیکس کی رعایت کی وجہ سے تمام تر لین دین ان کمیٹیوں کے حلقہئ اثر سے باہر ہوتے جارہے ہیں۔ یہ بات کمیٹیوں کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ کمیٹیوں کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ ARMC کا جملہ ماحول نظام از خودرہم برہم ہوسکتا ہے۔
خریف کی فصل جب تک تیار ہو کر آئے، فیکٹری کے احاطوں، گوداموں، کولڈ اسٹوروں، بند گوداموں کو تیار رہنا چاہیے تاکہ صفر ٹیکس کا فائدہ اٹھایا جاسکے۔ APMC کمیٹیوں نے کئی گوداموں اور کولڈ اسٹوروں کو ذیلی منڈیوں کی حیثیت دے دی ہے اور اسے نوٹیفائی بھی کر دیا ہے جہاں تمام لین دین پر کمیٹیوں کے مقررہ محصول دینے ہوں گے۔ یہ ممکن ہے کہ ان میں سے بیشتر اس نوٹیفکیشن سے باہر آنا چاہیں اور ذیلی منڈی نہ بننا چاہیں تاکہ وہ تجارتی علاقے بن کر صفر ٹیکس کا فائدہ اٹھا سکیں۔ 
ذخیروں کے بارے میں صحیح معلومات
اجناس کے لیے پالیسی وضع کرنے میں سب سے بڑی دشواری یہ ہوگی کہ نجی ہاتھوں میں غلے کے ذخائر کے بارے میں حکومت کو معلومات دستیاب نہ ہوں گی۔ گیہوں اور
چاول کے علاوو، ہندوستان میں جلد سڑنے گلنے والی چیزوں کا فاضل اسٹاک برائے نام ہوتا ہے۔ وئیر ہاؤسنگ ڈیولپمنٹ اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی ایکٹ  (Warehousing Development and Regulatory Authority) (WDRA) گوداموں کے رجسٹریشن کے لیے ایک میکانزم مہیا کرتا ہے۔ یہ الیکٹرانک گوداموں کی قابل منتقلی رسیدوں کے بارے میں بھی قاعدے
قانون بناتا ہے۔ 
یہ نظم، حکومت کو یہ معلوم کرنے میں معاون ہوگا کہ گوداموں میں کسی وقت کس قدر ذخیرہ تھا۔ یہ اندیشہ بہر حال ہے کہ اس سرکاری فرمان کے نتیجے میں WDRA کے ساتھ الحاق کرنے میں کسی بھی گودام کو دلچسپی نہ ہوگی کیوں کہ اب بدلی ہوئی صورت حال میں تمام گودام، APMC کمیٹیوں کو کوئی فیس یا اخراجات ادا کیے بغیر بازار تجارت کی طرح کام کر سکتے ہیں۔ یہ مطلوب نہیں ہے۔ درحقیقت اب جب کہ تجارتی علاقوں میں کاروبار مکمل طور پر غیر منضبط ہونے جارہا ہے۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہWDRA کے ساتھ رجسٹریشن کو لازمی قرار دیا جائے تا کہ گوداموں میں پڑا ہوا نجی اسٹاک حکومت کے علم میں رہے۔
سرکاری فرمان میں تشویش کا دوسرا گوشہ، کسانوں کو مال کی قیمت کی ادائیگی سے متعلق ہے۔ اس سے قبل APMC کمیٹیاں اس کا انتظام و انصرام کرتی تھیں۔ سرکاری فرمان کہتا ہے کہ تجارتی علاقوں میں قیمت کی ادائیگی اسی روز ہونی چاہیے۔ لیکن اس میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ اگر لین دین کا عمل وقت طلب ہو تو تین ایام کار میں ادائیگی کی جاسکتی ہے۔ ایسے معاملات میں کسانوں کو مال فراہم کرنے کی رسید دی جائے گی جس میں مطلو بہ رقم تحریر ہوگی۔
انگور کی برآمدات کے تعلق سے ناسک مہاراشٹر کا سب سے بڑا ضلع ہے۔ یہاں انگورAPMC کمیٹیوں کہ دائرہ کار سے باہر ہیں اور کسان اپنی فصل کومنڈیوں کے باہر فروخت کرتے ہیں۔ اکثر وبیشتر میڈیا میں یہ خبریں آتی ہیں کہ تاجروں نے کسانوں کے کروڑوں روپے ہضم کر لیے۔ اس سال بھی، کووڈ -19 کی آڑ میں تاجران اور ایکسپورٹرز چاہتے ہیں کہ کسان قیمت کا 30فیصد چھوڑ دیں۔ چوں کہ تجارتی علاقے میں کوئی ضابطہ نافذ نہیں ہے، اس لیے قانون کے ذریعہ یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ کسان کو مال کی فراہمی سے قبل اسی روز مال کی قیمت نقد یا الیکٹرانک ٹرانسفر کے ذریعہ مل جائے۔ اس طور پر کسانوں اور خریداروں کے درمیان بہت سے تنازعات کے امکانات ختم ہوجائیں گے۔
تنازعات کے حل کے لیے، سرکاری فرمان ایس ڈی ایم کے مقرر کردہ بورڈ کے ذریعہ مصالحت کی ہدایت کرتا ہے۔ چوں کہ ایس ڈی ایم اور ان کے افسران دوسرے بہت سے فرائض، مثلاً نظم و ضبط کا قیام مردم شماری، انتخابات، وی آئی پی ڈیوٹی انجام دیتے ہیں، اس لیے یہ تصور حقیقت پسندانہ نہیں لگتا کہ وہ کسانوں کے تنازعات کو حل کرنے کے لیے وقت نکال سکیں گے۔ اسی دن قیمت کی ادائیگی کو لازمی قرار دے کر ادائیگی رقم سے متعلق بیشتر تنازعات سے بچا جاسکتا ہے۔
سرکاری فرمان کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ APMC کمیٹیوں کی اصلاح میں تیزی آجائے گی۔ اب چوں کہ انہیں دوسرے تجارتی علاقوں سے صحیح معنوں میں مسابقہ کرنا ہوگا۔ اس لیے انہیں کسانوں کو بہتر سہولیات دینے کے ساتھ ساتھ زیادہ شفاف بنانا ہوگا۔ کسانوں کے مفادات کے پیشِ نظر انہیں اچھا کاروبار ملتا رہنا چاہئے کیوں کہ قیمت کے تعین میں ان کی حیثیت ابتدائی ماخذ کی ہے۔ تجارتی علاقوں میں کسان کو اس قابل ہونا چاہیے کہ وہ APMC کی مقررکردہ قیمتوں کا حوالہ دے سکیں کیوں کہ تجارتی علاقوں میں نیلامی کی توقع نہیں ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ تینوں کو عام کرنے کے لیے اور تجارتی علاقوں میں مسابقے کو تیز تر کرنے کے لیے e-NAM کو فعال بنائے۔
زرعی تجارت پر قانون سازی کے لیے مرکز کے اختیار کے قانونی جواز کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کے امکانات واضح ہیں۔ ایسے میں کسانوں کی یہ خواہش دیرینہ ہوگی کہ APMC کا ایک ایسا متبادل لا یا جائے جو استحصالی نہ ہو اور انہیں معقول قیمت ادا کرے۔
ماڈل اے پی ایم سی ایکٹ 2001 سے لے کر سرکاری فرمان 2020 تک کسان حاشیے پر کھڑے ہوکر اپنے مفادات کے تحفظ اور بہتر قیمتوں کے حصول پر زوردار مباحثے سنتا رہا ہے۔ اے کاش کہ گفتار، عمل کے سانچے میں ڈھلتی، اے کاش کہ امیدیں اور آرزوئیں عملی جامہ پہنتیں اور اے کاش کہ انہیں یہ حق حاصل ہوتا کہ اپنی پیداوار کو بہتر قیمتوں پر فروخت کر لیں۔ 
(بشکریہ: دی وائر) 

(مضمون نگارICRIER میں وز پینگ سینئر فیلو ہیں۔
وہ سابق یونین ایگریکلچر پر سکر یٹری بھی ہیں