Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, July 11, 2020

کفایت ‏شعاری ‏بہت ‏ساری ‏پریشانیوں ‏کا ‏علاج ‏ہے ‏۔۔۔۔۔(قسط ‏3)

از/ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی/ صداٸے وقت۔
==============================
شادی بیاہ کے معاملے میں اگر لڑکے والے اور لڑکی والے سمجھداری سے کام لیں تو معاملہ بہت آسان ہوجاتا ہے ۔ سمجھداری کا مطلب یہ ہے کہ آپ نکاح و ولیمہ اور تحفے تحاٸف کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پڑھیں اور ان پر عمل کریں ۔  نہ دادی نہ نانی اور نہ کوٸی اور ۔بس قرآن کی آیات , سنت رسول اور صحابہ کرام کی زندگی سے معلوم کیجیے اور طے کرلیجیے کہ بس ہم کو وہی کرنا ہے جس کی رہنماٸی یہاں سے مل رہی ہے ۔ نہ سو دو سو باراتی ہوں گے اور نہ پانچ سو , ہزار دوہزار افراد کے لیے ولیمہ کا اہتمام کرنا ہوگا ۔ ایک بار ملیشیا میں ڈاکٹر محمد یعقوب علیگ کے ساتھ ایک ولیمہ میں شرکت کرنے کا موقع ملا ۔ مسجد کے صحن میں انتظام کیا گیا تھا ۔نہ مرغ و مچھلی نہ قورمہ اور بریانی ۔ صرف وہاں کی چند روایتی چیزیں ' بسکٹ کیک 'کافی چاۓ اور کولڈ ڈرنکس ۔تقریبا دو سو افراد رہے ہوں گے ۔ اعلی تعلیم یافتہ اور بڑے بزنس مین موجود تھے ۔ مسجد کے باہر پارکنگ میں علاقے کے ان فقیروں کے لیے انتظام تھا جو مانگنے والے ہوتے ہیں ۔جیسے  اپنے یہاں ہر تقریب میں نٹ پہنچ جاتے ہیں ۔ باقی گھر کے افراد چچا خالو ماموں پھوپھا کی بات علیحدہ ہے ۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ نام و نمود اور نماٸش کو چھوڑکر شریعت کے مقاصد پر نظر رکھی جاۓ تو معاملہ آسان ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح جوہانسبرگ ساٶتھ افریقہ میں پروفیسر احمد معاذ کی دعوت پر ان کے بیٹے کے ولیمہ میں شریک ہوا ۔ وہاں جگہ جگہ کمیونٹی سنٹر ہیں ۔ امیر غریب زیادہ تر لوگ اسی سینٹر میں تقریبات انجام دیتے ہیں ۔ نہایت سادگی کے ساتھ چاۓ ناشتہ پر ڈھاٸی تین سو افراد افراد شریک تھے ۔ بعد تقریبا پچیس افراد گھر کے رہے ہوں گے جو ایک ہوٹل میں جاکر دوپہر کا کھانا کھایا ۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو اچھے خاصے مہنگے ہوٹل میں انتظام کرتے ہیں اور خوب روپیے خرچ کرتے ہیں ۔
ایک بار علی گڑھ شہر کے بڑے تاجر کی لڑکی کے عقد میں شریک ہوا ۔ مسلم مسافر خانہ میں انتظام کیا گیا تھا ۔ جب کہ اس حیثیت کے لوگ عموماً وہاں کوٸی تقریب نہیں کرتے ۔تیسرے دن لڑکی کے والد مفتی زاہد صاحب کے پاس آۓ اور پچیس ہزار روپیے یہ کہہ کر دیا کہ غریب بچوں کے لیے ہے ۔ آپ جن پر چاہیں خرچ کریں ۔ مفتی صاحب نے پوچھا کس مد کی رقم ہے مطلب زکوة ہے یا کوٸی اور مد ۔ انہوں نے کہا کہ بیٹی کا نکاح کیا تھا نا ۔ میں نے گھر والوں کی مرضی کے خلاف مسلم مسافر خانہ میں انتظام کیا ۔ کم روپیوں میں کام ہوگیا ۔ اگر کوٸی ہوٹل لیتا یا ٹینٹ اور شامیانہ لگواتا تو کٸی گنا روپیے خرچ ہوتے ۔ اب وہ روپیے میں ناداروں پر خرچ کرنا چاہتا ہوں ۔ کچھ اور لوگوں کو بھی تھوڑی تھوڑی رقم دے دوں گا ۔ ہم لوگوں نے ان کی ستاٸش اور دعاٸیں کی ۔ مطلب یہ ہے کہ صاحب حیثیت ہونے کے باوجود اگر سادگی اور کم خرچ میں کام چل سکتا ہے تو سفید پوش لوگ بڑی مصیبتوں سے بچ سکتے ہیں اور ملت کے دوسرے کام انجام دیے جا سکتے ہیں ۔ طرز فکر و عمل پر از سر نو غور کرنے اور یکسر تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ۔ ہم لوگ سنت ار نفل کے لیے قرض لے کر یا زندگی بھر کی کماٸی تو خرچ کرنے کو تیار ہیں مگر بہت سارے اہم ترین کاموں پر توجہ نہیں دیتے ۔ ( جاری)
ڈاکٹر سکندر علی اصلاحی 9839538225