Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, July 14, 2020

’ آیا صوفیہ ‘ کی بحالی پر اضطراب یا اسلاموفوبیا کا اظہار؟

تحریر: شیخ احمد الریسونی
ترجمہ: محمد سہیل الندوی۔
                 صداٸے وقت 
            ==============
جس وقت سے اس عالیشان و پرشکوہ مسجد (ترکی کے شہر استنبول میں ” آیا صوفیہ ” کے نام سے مشہور و معروف ہے) کی بحالی کا فیصلہ ترکی کی عدالت عالیہ نے تمام شواھد و ثبوتوں کی بنیاد پر سنایا ہے ٹھیک اسی وقت سے کچھ یورپین ممالک اور مسیحی گرجا گھروں کے مابین غم و غصہ کا ایک طوفان ہے،رنج وملال کی ایک لہر ہے، وہ اس عظیم فیصلہ پر ماتم کناں و چیں بہ جبیں ہیں، اور تعجب تو اس بات پر ہے کہ عرب کے بعض منافقوں کا ٹولہ اور یونیسکو کی متعدد تنظیمیں و جماعتیں بھی اس ناپاک رویہ میں ان کے شانہ بشانہ نظر آرہی ہیں، جبکہ ترکی اور صدر ترکی جناب رجب طیب اردوغان کی جانب سے لیاگیا یہ فیصلہ بڑا دانشمندانہ فیصلہ ہے، مسئلہ کلیسا کی مسجد میں تبدیلی یا کلیسا سے میوزیم میں تبدیلی کا نہیں ہے جیساکہ بعض لوگ اس پر مصر ہیں اور اسی کو ثابت کرنے کی کوششیں کررہے ہیں اور نہ ہی کلیسا کو معطل کئے جانے کا ہے بلکہ اصل مسئلہ تو مسجد کی اپنی سابقہ ہیئت پر بحالی کا ہے صدیوں سے جو مسجد آباد تھی جس کو ۱۹۳۵ میں بند کردیا گیا اس کی بحالی کی بات ہے ، اس پر یورپین ممالک ومسیحی دنیا کا اضطراب چہ معنیٰ دارد؟ اس بات سے وہ کیوں چراغ پا اور چیں بہ جبیں ہیں کہ ” آیا صوفیہ ” کی عمارت کو میوزیم کی حیثیت سے ختم کرکے اس کو دوبارہ مسجد کے لئے بحال کیا جارہا ہے کہ اس میں ذکر اللہ کے زمزمے اور تلاوت قرآن کے نغمے بلند ہوں۔
کیا ارباب مسیحیت اس کو گوارا کریں گے کہ وہ مسجد اللہ کی عبادت و تلاوت قرآن کریم کے لئے نہ کھولی جائے بلکہ اس کی حیثیت صرف ایک تفریح گاہ و میوزیم کی باقی رہے، لوگ سیر و سیاحت کی غرض سے اس کو روندتے رہیں اور کھیل تماشے ہوتے رہیں۔ مسیحیت کے علمبردار و مذہبی رہنما ان دونوں باتوں میں سے کس کو پسند کریں گے؟ جبکہ قرآن کریم میں اللہ کا صاف ارشاد ہے ” ولولا دفع الله الناس بعضهم ببعض لهدمت صوامع و بيع وصلوت و مسجد يذكر فيها اسم الله كثيراً، ولينصرن الله من ينصره، إن الله لقوى عزيز”، اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ٹکراتا تو کتنی خانقاہیں، اور کلیسا،اور عبادت گاہیں، اور مسجدیں مسمار کردی جاتیں، جن میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا رہا، اور لیا جاتا ہے، اور اللہ ان کی ضرور مدد کرے گا جو اللہ کے مشن کی مدد کریں گے،بے شک اللہ طاقت والا اور غالب ہے۔
قرآنی اس پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو مسیحی دنیا اس بات کی زیادہ حقدار تھی کہ وہ اس فیصلہ پر اپنے اطمینان و رضامندی کا اظہار کرتی کہ اس مسجد کی بحالی ہو اور تعلیم و تربیت کا ایک مقدس نظام وجود میں آئے اور اس بات کے لئے فکر مند ہوتی لیکن ایسا نہیں ہوا،
رہی بات ” آیا صوفیہ” کی کلیسا سے مسجد میں تبدیلی کی تو اس واقعہ کو پانچ سو سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے، کہ سلطان محمد الفاتح نے اس کو بزور شمشیر فتح کیا، اور اس اراضی کے عوض خطیر رقم بھی پیش کی۔ موجودہ ترکی اور اس کے صدر رجب طیب اردوغان پر طعن و تشنیع نہ کی جائے اس مرد مجاہد نے تو صرف مسجد کی بحالی کی کوشش کی ہے، اور بہت وضاحت کے ساتھ اس بات کو رجب طیب اردوغان نے اپنے خطاب میں کہہ دیا ہے، اور اپنی بصیرت کا استعمال کرتے ہوئے اس مرد غیور نے یہاں تک کہہ دیا ہے ” کہ ان شاء اللہ العزیز ” آیا صوفیہ “کی بحالی مسجد اقصیٰ اور القدس کی بازیابی کا پیش خیمہ ہے، پھر یہ تاویلات لنگ کیوں کی جارہی ہیں؟ بے سر و پا باتوں کا ہجوم کیوں ہے؟ 
اگر ہم تھوڑی دیر کے لئے یہ فرض بھی کرلیں کہ کلیسا کو مسجد میں تبدیل کیا جانا غلط ہے تو یہ بات بھی ہمارے حق میں ہوگی کیونکہ اسپین و روس اور صقلیہ (Sicilia) اور یوگوسلاویہ (Yugoslavia) کی سینکڑوں مسجدیں جو باڑوں یا قہوہ خانوں میں تبدیل کردی گئیں ہیں، ان سب کو بحال کیا جائے، ان سب سے ظالمانہ قبضے و تسلطات کے خاتمہ کے اعلانات ہوں، اور بہت دور جانے کی بھی ضرورت نہیں ہے برما، چین، اور ہندوستان کی حالت زار کا تو پوچھنا ہی کیا ؟ خود فرانس میں حالیہ چند سالوں میں زائد از پچاس مسجدیں مقفل و معطل کی جاچکی ہیں، اس کا ذمہ دار کون ہے؟ 
بلا وجہ چراغ پا ہونے والوں اور اعتراض کرنے والوں سے ہمارا ایک سوال ہے کہ ” آیا صوفیہ” کو ترکی اگر میوزیم سے کسی کلب یا عالمی سنیما گھر میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کرتا تو آپ کی نیندیں حرام ہوتیں؟ اپنے مہر سکوت کو توڑتے؟ یا مارے خوشی کے پھولے نہ سماتے؟ 
اور نام نہاد انسانیت کے ٹھیکے دار اور اجارہ دار جو ” انسانی ورثہ کا راگ الاپ رہے ہیں ان کو معلوم ہوجانا چاہئیے کہ یہ عمارت کہیں نہیں جائے گی ، ویسے ہی محفوظ رہے گی بلکہ اس سے بہتر حالت میں نظر آئے گی۔
اعتراضات و اشکالات کرنے والے منافقین جن کا رویہ گمراہ کن اور تلبیس پر مبنی ہے ، ان سے صراحت کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ وہ اب اس بات کا برملا اعتراف کرلیں کہ وہ شریعت اسلامی کے خلاف ہیں، صلیبی و صہیونی جماعتوں کے حمایتی و حاشیہ بردار ہیں، نماز و روزہ کے دشمن ہیں، قرآنی تلاوت و تعلیمات کے خلاف ہیں ۔