Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, July 23, 2020

ارریہ ‏کی ‏آواز ‏عارف ‏اقبال ‏قرنطینہ ‏میں۔۔۔


از /*ہمایوں اقبال ندوی،* سکریٹری جمعیۃ علماء ہند، ارریہ ....رابطہ, 9973722710
                صداٸے وقت۔
            =============
    پہلی جانچ میں صحافی جناب عارف اقبال کو کورونا پوزیٹیو آگیا ہے، اس وقت وہ ضلع ارریہ کے فاربس گنج واقع اے این ایم کالج میں آئسولیٹ ہیں اور کورونا جیسی مہلک وبا سے دو دو ہاتھ کر رہے ہیں، ہمیں امید ہے موصوف جس پرعزم اور خوداعتمادی کے ساتھ ارریہ کے خشک سے خشک مسائل کی آواز بن کر ارباب اقتدار کو جھنجھوڑنے میں کامیاب ہوئے ہیں ، اسی جوانمردی اور مضبوطی کے ساتھ اس وبا سے بھی باہر نکلنے میں کامیاب ہوں گے۔احباب سے موصوف نےدعا کی درخواست کی ہے کہ دوسری رپورٹ نگیٹیو آجائے اور ہم آپ کے درمیان پہونچ جائیں اوراپنے فرض منصبی کواداکرسکیں۔

موصوف کی یہ درخواست منظور کئے جانے کے لائق ہی نہیں بلکہ اہل ارریہ پر ان کا حق ہے ۔ ہمارے علم کے مطابق گزشتہ کئی دنوں سے موصوف ارریہ میں سیلاب کے پیش نظر ضلع انتظامیہ کی جانب سے مختلف بلاک و پنچایتوں میں کی جانے والی تیاریوں کا جائزہ لے رہے تھے، ساتھ ہی ارریہ میں عرصہ دراز سے نامکمل پل پلیہ جو اب کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے اس کی زبوں حالی پر تواتر سے رپورٹنگ کر رہے تھے، کہ اسی درمیان کورونا نے اپنی چپیٹ میں لے لیا۔ اس وقت اہل سیمانچل ہی نہیں بلکہ ہند کے الگ الگ خطوں میں بسنے والے سینکڑوں افراد جو عارف اقبال صاحب کے متعلقین ہیں چاہے وہ اہل علم کی جماعت ہوں یا پھر سیاست، صحافت، ادب اور دوسرے شعبے سے جڑے افراد ہوں یا پھر کسی نہ کسی موقع پر غریب ، مظلوم اور ضرورتمندوں کے کام آئے لوگ ہوں، اتنے قلیل مدت میں آپ نے اپنے حسن اخلاق، خوش زبان اور سادگی کی علامت بنکر جو لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی ہیں اسی کا اثر ہے کہ ہر ایک بارگاہ خداوندی میں ہاتھ پھیلائے عارف اقبال صاحب کی صحتیابی کی دعا مانگ رہا ہے۔ کہیں سوشل میڈیا پر لوگ ایک دوسرے سے موصوف کے لئے دعا کی درخواست دیکھے جا رہے ہیں تو کہیں بالمشافحہ یا موبائل کے ذریعہ عارف اقبال صاحب کی سلامتی کے لئے دعا کرتے نظر آ رہے ہیں۔ عارف اقبال صاحب نے خود بھی اپنے احباب سے دعا کی درخواست کی ہے۔ ایک ایسابیمار جو شفا چاہتا ہے اور اسے صحت کی ضرورت پڑی ہے اس لئے کہ وہ کام کرنا چاہتا ہے، یہ خوش آئند بات ہے اور ایسے شخص کے لئے دل سے دعانکلتی ہے اور اثر رکھتی ہے پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے ۔
عارف اقبال صاحب ضلع ارریہ میں ای ٹی وی بھارت (اردو)کے گزشتہ ڈیڑھ سالوں سے نمائندہ ہیں اور نمائندگی کا ہمہ وقت خیال رکھتے ہیں بلکہ حق ادا کرتے ہیں پھر بھی کہتے ہیں کہ :
 حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

ہر بار اچھا سے اچھا کرنے کی انہیں للک رہتی ہے اورسابقہ اپنے کام میں کمی کا احساس رہتا ہے،اقبال نام کوہمیشہ بلندی کی تلاش رہتی ہے،اس عنوان پراسم بامسمی ہیں،یہی فکر ایک انسان کو کامیابی کے اوج ثریا تک پہونچادیتی ہے،بقول شاعر   :

ہےجستجو کہ خوب سے ہےخوب تر کہاں
اب ٹھہرتی دیکھئے جاکر نظر کہاں

ارریہ کو اپنے قلب وجگر میں بساکر، لب کھولتے ہیں اور دل ہی سے بولتے ہیں، اس پسماندہ ضلع کی آواز کو دور دور تک پہونچاکر  اپنی دونوں آنکھوں میں اس مٹی کا سرمہ لگاکر مرکز کی طرف دیکھتے ہیں ۔
موصوف اس وقت شہر ارریہ ہی نہیں بلکہ پورے ضلع ارریہ کی آواز بن چکے ہیں ۔بلکہ کہنے کی اجازت ہو تو اردو میں بلاخوف تردید یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ ایک پسماندہ ضلع کی حیثیت میں جتنی آوازیں لگائی جاسکتی ہیں آج کی تاریخ میں موصوف اس کاجامع بن چکے ہیں۔یہاں کےغریبوں کی آواز، کسان ومزدوروں کی آواز،ندی ونہر تالاب کی آواز، کھیت کھلیان،بازار ودکان، نالی گلی باغ ومالی کی آواز،  سڑک اور ٹوٹی پلیا،تعلیمی اداروں، مساجدوخانقاہوں اورعبادت گاہوں ،ملی وملکی تنظیموں وتحریکوں کی آواز بن گئے ہیں اور ای ٹی بھارت کے اسٹیج سے لگارہے ہیں۔
ارریہ کی سرزمین پر ای ٹی بھارت سےکون واقف تھا؟ موصوف کی ارریہ آمدکےبعد سے صحافت نے ایک کروٹ لی ہے ، اس سے قبل ارریہ کی صحافت محض برائے نام تھی ، صحافی کورٹ کچہری اور کلکٹریٹ کے اردگرد سے خود کو باہر  نہیں نکالتے تھے، مگر عارف اقبال صاحب نے اول دن سے ہی گاوں گاوں قریہ قریہ کا رخ کیا، وہاں کے در پیش مسائل کو ضلع انتظامیہ سے لیکر عوامی نمائندوں کے سامنے اجاگر کیا، ضلع کے ایسے ایسے صدور علاقوں کا رخ کیا جہاں کے لوگ صرف صحافی نام سے واقف تھے ، صحافی عملی طور پر کیسے ہوتے ہیں کیسے دکھتے ہیں لوگ ناواقف تھے، اکثر علاقوں میں عارف اقبال صاحب جب اپنا مائک لیکر داخل ہوئے تو انہیں دیکھنے بڑے بوڑھے بچے اور خواتین کا ایک مجمع لگ گیا، لوگوں نے برجستہ کہا آپ سے قبل ہمارے گاوں کے مسائل کو موضوع بنانے کے لئے کوئی صحافی نہیں پہنچا۔ عارف اقبال صاحب نے اس روش کو توڑا اور آج ای ٹی وی بھارت کوسبھی جاننے لگے ہیں اوراسےاپنی آواز کہنے لگے ہیں، ارریہ کو بھی پوری ملک میں ایک بیدار اور ترقی کے لئے کوشاں ضلع کی شکل میں دیکھا جانے لگا ہے، یہ  موصوف کی انتھک کاوش کا نتیجہ ہے ۔
 یہاں کی سرزمین پر کسی ایسے ٹی وی کے نمائندہ کو بچوں کے ساتھ لائیو کھیلتے، بیل گاڑی ٹھیلتے، تیراکی بھلے نہ آتی ہو باوجود اس کے ندی کےبیچوں بیچ بانس پربےخوفی کیساتھ ٹہلتے ہوئے  دیکھا گیاہےتووہ عارف اقبال ہی ہیں۔ یہی نہیں، ترقی کی اس دور میں جہاں صحافی حضرات جدید آلات اور تام جھام سے لیس ہوتے ہیں، تصنع سے پر ہوتے ہیں ، ایسے میں عارف اقبال صاحب نے بیل ، بھینس ، پاوں پیدل اور سائیکل سے رپورٹنگ کر دیگر صحافیوں کے درمیان اپنی ایک انفرادیت پیدا کر بتلایا کہ صحافت کس طرح کی جاتی ہے۔ ایسے نت نئے انداز کہ رپورٹنگ دیکھ کر اہالیان ارریہ نےبرجستہ کہاہےکہ  جانبازیاں ہیں، بقول داغ: 
 ہم سا جانباززمانے میں نہ پاوگے گے کہیں 
لاکھ ڈھونڈھوگے چراغ رخ زیبا لیکر

عارف اقبال صاحب نے ارریہ میں عملی صحافت کی جو داغ بیل ڈالی ہے یہ ارریہ کے میدان صحافت میں قدم رکھنے والے نووارد صحافیوں کے لئے ایک نقشے راہ ہے۔ عارف اقبال صاحب کی صحافتی دیانتداری اور سوجھ بوجھ کے ہر لوگ قائل رہے ہیں، ہم سب ان کی اس مخلصانہ کاوشوں کو سراہتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ عارف اقبال صاحب اور بھی قوت وطاقت سے یہاں کی آواز کو دور تک لے جائیں گے۔ اس وقت وہ قرنطینہ میں ہیں اور بیمار ہیں توہم سب ان کےلئے دعا کرتے ہیں :باری تعالٰی شفائے کاملہ عاجلہ مستمرہ دائمہ نصیب فرمائے ،صحت پاکر جلد ہمارے درمیان آجائیں۔
آمین یا رب العالمین