Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, July 30, 2020

بھارت ‏کی ‏نٸی ‏سنگھ ‏زدہ ‏تعلیمی ‏پالیسی ‏۔۔۔۔آر ‏ایس ‏ایس ‏کے ‏برہمنی ‏نظام ‏تعلیم ‏کو ‏نافذ ‏کرنے ‏کا ‏آغاز۔

از/سمیع اللہ خان /صداٸے وقت /٣٠ جولاٸی ٢٠٢٠
===============================
 اب تک آپ جو کچھ اسکولوں میں پڑھتے تھے، جس طرح اور جن مراحل سے گزر کر تعلیمی زندگی طے کرتے تھے وہ سبھی کچھ تبدیل ہونے جارہاہے، بھارت کی بھاجپا سرکار نے تعلیمی نظام و نصاب میں بڑے بدلاؤ کو مرکزي کابینہ کی منظوری کے بعد جاری کردیاگیا ہے 
" ٹی ایس آر سبرامنیم " نے مئی 2016 میں تعلیمی صورتحال پر اپنی رپورٹ پیش کی، اس کےبعد خلائی ادارہ " اِسرو " کے سابق صدر " کستوری رنگن " نے ۳۱ مئی ۲۰۱۸ کو تعلیمی پالیسیوں کے متعلق اپنی رپورٹ پیش کی اور نئی تعلیمی پالیسی مذکورہ دونوں رپورٹس کی بنیاد پر مرتب کی گئی ہے
 *نئی تعلیمی پالیسی کے مطابق اب:*
اسکولی تعلیم میں، دسویں اور بارہویں بورڈ کی اہمیت کم ہوگی، یعنی اب 10+2 کی جگہ
 5+3+3+4 یہ فارمیٹ رائج ہوگا _
اب اسکولوں میں، آرٹس، سائنس اور کامرس جیسے موضوعات پر کوئی اضافی محنت یا ترغیب کا سسٹم نہیں ہوگا طلباء اپنی مرضی کے مطابق موضوعات پڑھنے میں آزاد ہوں گے_
 اسکول میں پانچویں تک کی تعلیم کی ہدایتکار زبان، صرف مقامی اور مادری زبان  ہوگی انگریزی کو اہمیت حاصل نہیں ہوگی
 بنیادی طورپر ہندوستان کے تعلیمی نظام میں اب ہندی اور سنسکرت کو اہمیت دی جائےگی _
 اب انڈر گریجویٹ پروگرام ۳ سے چار سال میں ہوگا 
اب M-Phil نہیں ہوگا بلکہ ماسٹرز کے بعد  پی ایچ ڈی میں داخلہ دیا جائےگا _
 سردست مختلف یونیورسٹیز اور اعلیٰ تعلیمی نظام سنبھالنے اور انہیں کنٹرول کرنے کے لیے کئی Regulator / منتظمہ ہیں، جیسے UGC, AICTE لیکن اب سے ان سب کا انتظامی کنٹرول ایک ہی ہوگا، سوائے میڈیکل اور قانونی شعبوں کے _
چند ہی سالوں میں  منظوری / الحاق،  کا سسٹم ختم ہوگا جیسے ابھی کالجز اور دیگر تعلیمی اداروں کو بڑی یونیورسٹیوں سے منظوری حاصل ہوجاتی ہے آگے چلکر وہ ختم ہوجائے گی، آئندہ اب کالجز سمیت دیگر تعلیمی اداروں کو خودمختار بنایاجائے گا، ڈگری کالجوں کو بتدریج خودمختاری دی جائےگی _
 اداروں کو BOG یعنی بورڈ آف گورنر کے ماتحت لایاجائے گا جو مالیات کی فراہمی کا بھی ذمہ دار ہوگا 
 ہزاروں اعلیٰ تعلیمی اداروں کو انضمام، وغیرہ کی پالیسیوں کے ذریعے تعداد گھٹائی جائےگی، یہاں تک کہ صرف ۱۵ ہزار باقی رہیں گے_
 اعلیٰ تعلیمی اداروں کے تین حصے: ریسرچ یونیورسٹی / ٹیچنگ یونیورسٹی اور ڈگری کالج _
نئی تعلیمی پالیسی کا ہدف یہ ہیکہ سن  ۲۰۳۵ تک بڑے پیمانے پر حق تعلیم اور تعلیمی سرگرمیوں کا فروغ ہوجائے اور ہر دوسرا شخص تعلیمیافتہ ہو_
 
 بنیادی طورپر نئی تعلیمی پالیسی کے ضوابط 55 صفحات پر مشتمل ہیں جن کو پڑھنے سے جہاں ایک طرف کئی ایک پہلوﺅں سے مثبت اور خوشنما احساس بھی ہوتا ہے وہیں ہر چند سطر بعد یہ پتا چلتاہے کہ اب بھارت میں تعلیمی نظام کو پرائیویٹ کیا جارہاہے، ہر سطر بعد آپکو تعلیمی آزادی اور علم دوستی کی تڑپ نظر آئے گی لیکن اس نام نہاد آزادی دینے کی حقیقت کا اب تک سبھی کو تجربہ ہوچکاہے، یہ صرف عوامی خون چوسنے کی آزادی ہوتی ہے جو مخصوص کارپوریٹ سیکٹر کو حاصل ہوتی ہے، تعلیم کو بےحد مہنگا اور محدود بنایا جارہاہے، نئی تعلیمی پالیسی جس کا دعویٰ ۲۰۳۵ تک اعلیٰ تعلیم کا وسیع پیمانے پر فروغ ہے وہ درحقیقت ۲۰۳۵ آنے تک غریبوں، پچھڑوں اور کمزور طبقات کے لیے اعلیٰ تعلیم کے حصول کو ناممکن بنانے کا راستہ ہے_

 مذکورہ تعلیمی پالیسی میں اداروں کو خودمختار بنانے کا فیصلہ ہے، خودمختار لفظ کو آپ " من مانی " پڑھیں گے تو اس خودمختاری کا دوسرا مطلب سمجھ آجائےگا 
" اعلیٰ تعلیم میں جتنا چاہو پڑھو پھر آزادانہ نکل جاو یہ درحقیقت غیرمستطیع طلباء کے ساتھ کھلواڑ ہوگا یعنی جو کورس مکمل کرنے  میں خودکفیل نہیں ہوں گے انہیں ادھوری پڑھائی کا سرٹیفکیٹ دے دیا جائےگا اس طرح روزگار کے مواقع مزید ناپید ہوں گے جس کے پاس جتنا پیسہ ہوگا وہ اتنی دیر اپنی تعلیم جاری رکھ پائےگا باقی سرکاری اسکیموں کی کوئی امید نہ رکھے "
ہر انسٹیٹیوٹ BOG کے ماتحت ہوگا بورڈ آف گورنر ہی  مالیات فراہم کرے گا تقرری میں بھی اس کا عمل دخل ہوگا مطلب اب انسٹیٹیوٹ میں رہتے ہوئے سرکار کے خلاف بولنے پر آپ کبھی بھی نکالے جاسکتے ہیں آپکی نوکری جاسکتی ہے اور ترقی بھی روکی جاسکتی ہے… بورڈ آف گورنر ہی تنخواہوں کی تقسیم اور پروموشن وغیرہ کا ذمہ دار ہوگا، مطلب اب مالیاتی فراہمی سے مرکزی سرکار نے ہاتھ اٹھا لیے ہیں، سرکار کی نئی تعلیمی پالیسی میں یہ بھی واضح کرنے کی کوشش ہیکہ پرائیویٹ اور پبلک اداروں میں کوئی فرق نہیں ہوگا سارے اداروں کا ایک منتظم ہوگا اور کچھ مراحل و ضوابط پھر جو حکومت کا پسندیدہ ادارہ ہوگا اسے بورڈ آف گورنر کے ذریعے فنڈنگ کروائی جائےگی"
 راشٹریہ شکشا آیوگ، نیشنل ریسرچ فاونڈیشن، جیسے ادارے بناکر تعلیمی انتظام و انصرام کا کنٹرول  چند ہاتھوں میں سمیٹا جارہاہے تعلیمی نفاذ میں ریاستی اختیارات کو چھینا جارہاہے، دلچسپ بات یہ بھی ہیکہ راشٹریہ شکشا آیوگ کے سربراہ وزیراعظم ہوں گے یعنی کہ اب نریندر مودی قومی تعلیمی کمیشن کی قیادت کرینگے_

 *نئی تعلیمی پالیسی لانے میں آر ایس ایس(سَنگھ)  کا براہ راست کردار ہے*
نئے تعلیمی نظام پر آر ایس ایس سے وابستہ بال مکند پانڈے نے انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ: نئی تعلیمی پالیسی میں ہمارے ۸۰ فیصد سے زائد مطالبات منظور کیے گئے ہیں اور ہم نئی تعلیمی پالیسی سے خوش ہیں، اس کے علاوہ HRD منسٹری کا نام تبدیل کرکے ایجوکیشن منسٹری کرنے کا مطالبہ بھی آر ایس ایس کا تھا جسے وزارت نے منظوری دے دی ہے_
 
 یہ جو نیا تعلیمی نظام ملک میں نافذ ہونے جارہاہے اس کے بہت سارے پہلو ہیں، بہت سارے لوگ اس نئے نظام کی بعض مثبت چیزیں لیکر سیکولر بننے کی کوشش کرینگے، بعض لوگ اس میں سے قابلِ تائید نکات کو لیکر اڑتے پھریں گے، لیکن یہ یاد رکھنا اہم ہوگا کہ ایک نسل پرست بالادست عزائم کی حامل دہشتگرد تنظیم آر ایس ایس کا اس نئے نظام کو لانے میں بڑا اہم ترین رول ہے، دوسری طرف زبان اور مراحل میں لایا گیا بدلاؤ صاف طورپر آنے والے دنوں میں اسکولی نصاب میں ہندو وانہ آمیزش کو یقینی بناتا ہے، پرائیویٹ اور سرکاری درجہ بندی کو ختم کرنے کا سیدھا مطلب ہیکہ وہ اپنے مخالف نظریات کے تمام اسکولوں میں گھس پیٹھ بھی کرینگے، اپنی مرضی کے مطابق پڑھائی کروانا مشکل بنایا جائے گا، اعلیٰ تعلیم اتنی مہنگی کردی جائے گی کہ درمیان میں ہی سلسلہ منقطع کرنا پڑےگا، اعلیٰ ذاتوں کے لیے گنجائشیں اور غریبوں کے لیے دروازے بند ہوتے جائیں گے، آج جن کی آنکھیں نہیں کھلیں گی وہ ۲۰۳۵ آنے تک دیکھ لیں گے کہ ہندوستان میں ہندوتوا منوسمرتی کے تعلیمی نظام کا نفاذ کس طرح جمہوری پردوں میں کردیا گیا لیکن تب آپکے پاس اپنا تعلیمی حق واپس حاصل کرنے کے لیے بہت دیر ہوچکی ہوگی، *خاص بات یاد رکھیں کہ، یوروپ اور اسی طرح روس سے متاثر دانشوروں پروفیسروں اور ڈاکٹروں کے طبقے کو اس تعلیمی نظام سے کچھ خاص پرابلم نہیں ہوگی کیونکہ اسے کچھ اسی طرح مرتب کیاگیاہے کہ زہر سریع الاثر نہیں بتدریج اثر کرےگا اور مغرب زدہ لوگوں کے لیے اس میں خوشنمائی بھی رکھی گئی ہے ان کی نفسیات کے مطابق، لیکن بھارت کے دلتوں، پچھڑوں، آدی واسیوں اور مسلمانوں کے لیے یہ تعلیمی نظام ہر لحاظ سے ایک نئی غلامی کی طرف لے جانے کا سائرن ہے، یہ تعلیمی نظام برہمن واد، سرمایہ داریت اور تعلیمی تجارت کو یقینی بناتا ہے، اس کے ليے آنے والا نصاب ہندو احیاء پرستی کو بچوں کے دلوں میں ہموار کرے گا،  قوت اور فن کو چند ہاتھوں میں قید کرےگا، صلاحیت اور قابلیت کی جگہ مالداری کی بنیاد پر اعلیٰ تعلیم حاصل کی جاسکے گی، نیا تعلیمی نظام تعلیم کو بازار میں نیلام کرنے والا ہے، تعلیم کی کالا بازاری اور اس کے ذریعے بھرپور کمائی کا منصوبہ ہے_*
 *یہ جان لینا بھی اہم ہوگا کہ دہلی یونیورسٹی کے ٹیچرز ایسوسی ایشن نے اس نئی تعلیمی پالیسی کی مخالفت کی ہے اور اسے تعلیمی نظام کو کارپوریٹ گھرانے کے حوالے کرنا قرار دیا ہے اور حکومت کو متنبہ کیا ہیکہ وہ اس سے باز آجائے*
 جس ملک میں پورا کا پورا تعلیمی نظام اور اکیڈمک اسٹرکچر تبدیل کردیا جارہا ہو وہاں کی عوام اگر خاموش اور بے حس بنی رہے تو یقینًا اس نے آنے والے ڈکٹیٹرشپ سامراج کے لیے خود کو پیش کردیاہے، تعلیمی نظام برائے اصلاح اور اپڈیٹ بدلتا رہتاہے لیکن ہندوستان جیسے ملک میں آر ایس ایس کی سرپرستی میں نظامِ تعلیم کا بدلنا ہندوتوا سامراج کی طرف ایک یقینی اعلان ہے، استعماری طاقتیں جب اپنا شکنجہ کسی سرزمین پر مستحکم کرنے لگتی ہیں تو لازمی طورپر، اُس ملک کے، نظامِ حکومت، نظامِ عدالت، نظامِ قانون سازی، نظامِ تعلیم اور عسکری انتظام کا اسٹرکچر بدل دیتی ہیں، برطانوی استعمار نے ہر سرزمین پر قبضہ کرکے یہی کیا، اسرائیل نے بھی یہی کیا، یہ سب نسل پرست ظالم اقوام ہیں اور ہندوستان میں آر ایس ایس کے برہمن بھی نظریاتی مفہوم میں انہی برطانوی استعماری قوم کے ہمنوا اور نسل پرستی میں یہود کے ہم پیالہ ہیں، آج اگر یہ لوگ تعلیمی نظام کو پوری طرح الٹ پلٹ رہےہیں تو یقینًا یہ ایک ظالمانہ نسل پرست سامراج کے قیام کی جانب بڑا قدم ہے، آپ طے کیجیے کہ آپ نے سامراجی غلامی اختیار کرنی ہے؟ کہ حریت کی باعزت آئینی جدوجہد؟! 
*سمیع اللّٰہ خان*
۳۰ جولائی ۲۰۲۰ 
ksamikhann@gmail.com