Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, July 15, 2020

مسجد ‏آیا ‏صوفیہ ‏اور ‏ہم ‏۔۔۔

از/ارشاد احمد اعظمی /صداٸے وقت ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

      ترکی اسلام کی طرف لوٹ رہا ہے اس سے دشمنان اسلام کے سوا " إنما المؤمنون إخوة " کے جذبے کے تحت سب کو خوش ہونا چاہیے ، ترکوں میں جو دینی جذبہ ہے اس کا ہم ہندوستان میں بیٹھے تصور نہیں کر سکتے ، 1974-1978 کے عرصہ میں میرا مدینہ منورہ میں قیام رہا ، اس وقت ترکی میں فوج برسر اقتدار تھی ، جو مغرب کی پیروی کو اپنا شعار بنائے ہوئے تھی ، پھر بھی ترک حجاج کا نظم و نسق ، دین سے ان کا لگاؤ اور شعائر اسلام کا احترام قابل دید ہوتا تھا ، سعودی حکومت بھی ان کو اہمیت دیتی تھی ۔ 

      ترکوں کی بدقسمتی اور ان کے لئے ابتلاء و آزمائش تھی کہ 1923 م میں زمام حکومت مصطفی کمال اتاترک کی زیر قیادت فوج کے ہاتھوں میں چلی گئی ، لیکن اب صورت حال مختلف ہے ، تھوڑا وقت ضرور لگے گا ، لیکن ترکی نئے جوش و ولولے کے ساتھ اسلام کی طرف لوٹ رہا ہے ، یہ ہمارے لئے خوشی کا پیش خیمہ اور بشارت کا آئینہ دار ہے ۔
      أنبیاء اور رسل کو ایک طرف رکھ دیں تو دنیا کا کون سا انسان ہے جس سے غلطیاں نہ ہوئی ہوں ، غلطیاں ترکوں سے بھی ہوئیں ، ہمیں اس کا اعتراف ہے ، لیکن ان کی اچھائیاں کتنی ہیں ، اس پر بھی ہماری نگاہ ہونی چاہیے ، ہمیں ان سے مستقبل میں بہت سی  امیدیں قائم ہیں ، ہمارا فرض بنتا ہے کہ اس مرحلے میں جب کہ دشمنان اسلام اور ہمہ دم اس کے خلاف سازشیں رچنے والے ترکی کی اسلام پشند حکومت کے خلاف کمر بستہ ہیں ، ہم پوری قوت کے ساتھ اس کی آواز بنیں ۔ 

      تاریخ شاھد ہے کہ سلطنت عثمانیہ کی صلیبیت اور اسلام دشمن طاقتوں کے ساتھ برابر کشمکش رہی ہے ،  مستشرقین اور یوروپین مؤرخین نے سلطنت عثمانیہ اور اس کے حکمرانوں کے متعلق جو لکھا وہ ان کا نقطہ نظر تھا ، اور یقینی طور پر اسلام دشمنی پر مبنی تھا ، اس کو برحق مان لینا اور آنکھیں بند کرکے جوں کا توں نقل کر دینا سراسر نا انصافی ہے ، اسی دور میں یورپ کے مغربی حصوں میں صلیبی طاقتوں کے ذریعے مسلم حکومتوں کو اکھاڑ پھینکا گیا ، مسلمانوں کے اوپر روح فرسا ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھائے گئے ، مساجد اور مقدسات اسلامیہ کو نیست و نابود کیا گیا ، ان کو گرجا گھروں اور باڑہ خانوں میں تبدیل کیا گیا ، کیا ان مستشرقین و مؤرخین نے ان حیوانی حرکتوں کے خلاف زبانیں کھولیں ؟

      یہ اس کا بین ثبوت ہے کہ ان مستشرقین کی کہانیاں بے سر و پا اور من گھڑت قصے اور افسانے ہیں ، مرعوبیت کے نتیجے میں ہمارے یہاں ایک فیشن چل پڑا ہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم پانے والے ان من گھڑت کہانیوں کا حوالہ دینا اپنی قابلیت کی دلیل سمجھتے ہیں ، حد تو تب ہوگئی جب دیوبند سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد کالج سے ڈگری لینے والے ایک صاحب تاریخ میں درج مسلم واقعہ نگاروں کے بیانات کو نظر انداز کر کے انھیں حوالوں کی بنیاد پر سلطان محمد فاتح کو خون خوار ، چھوٹا ، فریبی اور ان کے مفتیوں و قاضیوں کو سلطان کی غلط خواہشات کی برآوری میں اسلام کے صریح احکام میں تحریف کا خطا وار اور ہوا پرستی کا مجرم قرار دیتے ہیں ۔ 

       ہمیں ایسا رویہ اختیار کرنے پر شرم آنی چاہیے ۔۔۔۔

ارشاد احمد اعظمی