Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, August 27, 2020

امریکہ ‏مزید ‏عرب ‏ممالک ‏کی ‏اسراٸیل ‏کے ‏ساتھ ‏صلح ‏کرانے ‏کے ‏لٸیے ‏سرگرم ‏۔



امریکی انتطامیہ عرب ممالک اور اسرائیل میں امن قائم کرنے کی کوششوں کو تیز کرتے ہوئے دو اعلی حکام کو اس ہفتے مشرق وسطی کے دو الگ الگ دوروں پر بھیجے گی۔
 نٸی دہلی /صداٸے وقت /ذراٸع ۔
==============================
امریکی حکام کے مشرقی وسطی دورہ کو اسرائیل اور متحدہ عرب امارات میں سفارتی تعلقات قائم کرنے کے حالیہ معاہدے کے بعد مزید ممالک کو اس میں شامل کرنے کی کوشش قراردیا جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کے مطابق توقع ہے کہ وزیر خارجہ مائیک پومپیو اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سینیئر مشیر اور داماد جیرڈ کشنر الگ الگ دوروں پر مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک کے رہنماوں سے ملاقاتیں کریں گے۔ سفارت کاروں کے حوالوں سے دی گئی خبر میں کہا گیا ہے کہ وزیرخارجہ پومپیو اتوار کو اسرائیل، بحرین، عمان، متحدہ عرب امارات، قطر اور سوڈان کے دورے پر روانہ ہوں گے۔ جبکہ کشنر اس ہفتے اسرائیل، بحرین، عمان، سعودی عرب اور مراکش کا دورہ کریں گے۔ امریکی وزارتِ خارجہ نے ابھی ان دوروں کا باقاعدہ اعلان ںہیں کیا۔
'ایسوسی ایٹڈ پریس' کی رپورٹ کے مطابق سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ ان دونوں دوروں سے کسی بڑے اعلان کا امکان نہیں ہے
البتہ ان دونوں دوروں کا مقصد اسرائیل اور عرب ممالک میں کم از کم ایک اور امن معاہدے کا حصول ہے جس کے تحت اسرائیل اور خطے کے ایک اور ملک کے درمیان سفارتی روابط قائم کرانے کی کوشش کی جائے گی۔
دورہ قطر میں وزیر خارجہ پومپیو کی افغان طالبان کے نمائندوں سے ملاقات بھی متوقع ہے۔ امریکی سفارت کار اس ملاقات میں بین الافغان امن مذاکرت اور امریکی فوج کے انخلا سے متعلق اُمور پر بھی بات چیت کریں گے
: ابھی تک وائٹ ہاؤس اور محکمہ خارجہ نے اعلی حکام کے مشرق وسطیٰ کے ان دوروں پر تبصرہ نہیں کیا۔
خیال رہے کہ اسرائیل اور عرب ممالک میں تعلقات کو معمول پر لانے کی ان کوششیں میں اسرائیل اور فلسطین کے تنازع کے حل کے بغیر تیزی آئی ہے۔ ان سفارتی کوششوں میں تیزی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکہ نے ایران پر عائد تمام پابندیوں کی بحالی کا اعلان کیا ہے۔
یاد رہے کہ اسرائیل اور متحدہ عرب امارات نے 13 اگست کو مکمل سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کیا تھا۔ امریکہ کی مدد سے عمل میں آنے والے اس معاہدے کے تحت اسرائیل مزید فلسطینی علاقے ضم نہیں کرے گا۔ بعض تجزیہ کار صدارتی انتخابات سے قبل اسرائیل، امارات معاہدے کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اہم سیاسی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی ہوئی سیاسی صورتِ حال کی عکاسی کرتا ہے اور اس کی وجہ ایران سے متعلق پائے جانے والے بعض عرب ممالک کے خدشات بھی ہیں۔اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے معاہدے کے بعد صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ دگر عرب ممالک کو بھی متحدہ عرب امارات کے اس اقدام کی پیروی کرنی چاہیے۔