Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, August 13, 2020

احباب ‏کے ‏ہمراہ ‏چند ‏گھنٹے ‏کا ‏ایک ‏خوشگوار ‏سفر۔



                                                             تحریر۔۔۔اسعد اللہ بن سہیل احمد اعظمی۔   
                       صداٸے وقت                    
           =============
              *(قسط اول)* 

     *نگری نگری پھرا مسافر گھر کارستا بھول گیا* 
       *کیاہے تیرا کیاہے میرا اپنا پرایا بھول گیا* 
       *( میراجی)* 

سفرانسانی زندگی کا ایک خاصہ ہے، لیکن جب سفر کسی دوست واحباب سے زیارت وملاقات پر مشتمل ہو، تواس میں چار چاند لگ جاتے ہیں، مرجھائی ہوئی کلیاں کھل اٹهتی ہیں، سوکھے پتے بھی ہوادینے لگتے ہیں، راہ کی دشواریاں وسفر کی پریشانیاں سہل ہوجاتی ہیں۔ آج کے دور میں کرونا مہاماری کے چلتے جہاں ایک دوسرے سے ملنا،جلنا دشوار ہے، ایسے میں جب یہ موقع ہاتھ آجائے تو اسے نعمت غیر مترقبہ ہی سمجھنا چاہیے، دوستوں کی محفل ومجلس، نشست وبرخاست، ہنسی مزاق الفتی نوک جھونک کا انداز بڑا خوشگوار اور نرالاپن لئے ہوتا ہے ۔

     *دن بھی ہے رات بھی ہے صبح بھی ہے شام بھی ہے* 
       *اتنے  وقتوں  میں کوئی  وقت ملاقات  بھی ہے* 
           *(مبارک عظیم آبادی)* 

1/اگست 2020 بروز سنیچر یعنی عیدالاضحیٰ کی پہلی  رات کو قریب  ساڑھےگیارہ بجے رفیق درس مولانا صادق شیروانی صاحب کا پیغام موصول ہوا، کہ کل صبح آٹھ بجے مولانا سیف اللہ صاحب مسلم پٹی کے دولت کدہ پر حاضر ہونا ہے، میں نے فوراً رفقا ٕ سفر کے نام پوچھے، تو معلوم ہوا کہ اس سفر میں 
"مولانا مستقیم صاحب شیروانی، مولانا ومفتی عبیدالرحمن صاحب شیروانی، میں(صادق)"
اور راقم الحروف رہیں گے۔یہ سننے کے بعد میں نے جھٹ سے حامی بھرلی، اسی دوران مولانا مستقیم صاحب کا بھی پیغام موصول ہوا کہ صبح قربانی ہونی ہے اس سے فراغت کے بعد نکلیں گے، میں نے کہا اچھی بات ہے، میرے یہاں بھی قربانی ہونی ہے۔فراغت کے بعد ہی نکلنا بہتر ہے۔۔

*رفقاءسفر کا مخصر تعارف*

 *مولانا صادق صاحب:* قصبہ سرائمیر سے متصل موضع شیرواں کے ایک محلہ پرواں کے رہنےوالے ہیں،
موصوف کی پیدائش 1997کی ہے ، عربی پنجم تک مدرسہ بیت العلوم میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد دیوبند کی جانب رخ کیا اور امسال دارالعلوم وقف سے فراغت حاصل کی۔ماشاءاللہ ذہین وفطین ہونے کے ساتھ ساتھ باہمت اور صالح نوجوان بھی ہیں۔میرے سات سال کے  قدیم رفیق درس بھی ہیں، کئی مرتبہ ان کے ہمراہ دوروقریب کا سفر ہوا ہے۔ الحَمْدُ ِلله ایک اچھے رفیق سفر بھی ثابت ہوئے ہیں۔

 *مفتی عبیدالرحمن صاحب:* یہ مولانا صادق صاحب کے برادر اکبر ہیں، پیار سے لوگ انھیں حافظ جی کہتے ہیں بڑے متواضع وملنسار آدمی ہیں، عربی پنجم تک مدرسہ بیت العلوم میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد2017ء
میں دارالعلوم وقف سے فراغت حاصل کی، بعدہ مدرسہ بیت العلوم ہی میں شعبہ افتا کی تکمیل کی۔ دسمبر2018
  میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے، اللہ نے پھول کی شکل میں ایک بیٹا بھی عطاکیاہے، جس کا نام ابراھیم ہے۔ فی الحال والد صاحب کی قائم کردہ کاسٹمیٹک کی دوکان میں شب وروز محنت پیہم وجہد مسلسل کررہے ہیں۔

 *مولانا مستقیم صاحب:* یہ شیرواں کے رہنےوالے ہیں، لمبے ہیں لیکن تڑنگے نہیں، مختلف مدرسوں یعنی مدرسہ بیت العلوم سرائےمیر جامعہ حسینیہ جونپورمدرسہ شاہی مرادآباد و جامعة الشيخ دیوبند میں خاک چهاننے کے بعد مدرسہ بیت العلوم ہی سے درس نظامی کی تکمیل کی، اور اپنے خاص استاذ حضرت مولانا عبدالرشید صاحب سلطانپوری ثم الاعظمی مدظلہ سے اصلاحی تعلق قائم کئے ہوئے ہیں۔
کچھ دنوں تک مدرسہ  دارارقم شیرواں کے مکتب و مدرستہ البنات میں تدریسی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں، اس کے علاوہ مسلم کالونی سرائمیر میں جمعہ کی  امامت وخطابت کے فرائض انجام دے رہے ہیں ،  2016 کے درمیان میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے دو بچے کی نعمت سے مالامال  ہیں،ایک کا نام محمد  تقی دوسرےکانام محمدولی ہے۔ فی الحال والدصاحب کی قائم کی ہوئی برتن کی دوکان پر جم کر محنت کررہے ہیں۔ اور اس کو ترقی دینے میں کافی تگ ودو کررہے ہیں بالخصوص علیگیرن تالوں کے ممتاز بادشاہ ہیں۔۔ 

2/اگست بروز اتوار کو متعینہ وقت سے تاخیر کے ساتھ قریب  سوا گیارہ بجے راقم سمیت چار احباب پر مشتمل یہ مختصر سا قافلہ دو موٹر سائیکلوں سے کھریواں موڑ سے  مسلم پٹی کی طرف برق رفتاری سے رواں دواں ہوا، موسم سہاناتھا دھوپ کی تمازت میں ہلکا پن تھا، وقفے وقفے سے ہوا کے مست جھونکے دلوں کو مسرور کررہے تھے،سڑک کے ہردوجانب ہریالی پهیلی ہوئی تهی اور عام دنوں کی طرح حکومتی اہلکار سڑک پر لاٹھی لیکر کھڑےہوئےنظر نہیں آرہے تھے، غیرمسلموں کی میٹھے کی دوکان روڈ کے دونوں کنارے کھلی ہوئی نظر آرہی تھیں، چونکہ ان کا "رکشابندهن" کا تہوار تھا،حکومت کی طرف سے اجازت دی گئی تھی، مگر افسوس کہ "عیدالاضحیٰ" کے لیے دوکان کے کهولنے بند کرنے کے سلسلے میں کوئی چھوٹ نہیں دی گئی تهی ، یہ حکومت کادورخاپن تها۔ اس پر کیارویا جائے؟۔۔۔یا کیالکھاجائے؟۔۔۔۔ خیر میرایہ مقصود بھی نہیں....ہمارا چارنفری قافلہ پونا پوکھر، بیناپارہ، اور مرزا پور کے سینے کو چاک کرتے ہوئے  قریب پونے بارہ بجے  مولانا سیف اللہ مسلمی صاحب کے دولت کدہ پر پہنچا. مولانا سراپا انتظار تھے، آگے بڑھ کر مسکراتے ہوئے گرم جوشی سے سلام ومصافحہ کرنے کے بعد  مہمان خانہ یا یوں کہہ لیجئے اپنی استراحت گاہ و مطالعہ گاہ میں بیٹھایا جہاں کتابیں سیلقے سے رکهی ہوئی تهیں ۔ گرماگرم کباب، تلی ہوئی موم پھلی کی گودی، ودیگر چیزوں سے ضیافت کی، اخیرمیں انتہائی نفیس اور اعلیٰ قسم کی چائے نے تو دل ہی خوش کردیا۔ تقریباً پونے دوگھنٹے  تک مجلس جمی رہی، ادھر ادھر کی باتیں ہوئیں، ڈھیڑھ بجے کے قریب ہمارا یہ قافلہ مسلم پٹی سے نکلا۔ مولانا سیف اللہ صاحب گویا کہ حالِ دل سے یہ کہہ رہے تھے کہ:
           *ہر ملاقات کا انجام جدائی تھا اگر* 
         *پھر یہ ہنگامہ ملاقات سے پہلے کیا تھا* 
                         *(اعجاز گل)* 

 *مولاناسیف اللہ صاحب:* ان کی بھی عربی ششم تک کی تعلیم مدرسہ بیت العلوم میں ہوئی ۔امسال دارالعلوم دیوبند سے فراغت ہوئی ہے۔ اپنے خاص استاذ مولانا وقاری مفتی سلمان صاحب بارہ بنکوی سے اصلاحی تعلق قائم کئےہوئے ہیں۔ فہم وفراست کے مالک ہیں۔ اپنے گاٶں کے امام جمعہ وخطیب بھی ہیں، فی الحال لاکڈاٶن کی وجہ سے گھر ہی پر ہیں۔

 *مسلم پٹی:* سرائمیر سے شمال کی جانب دس کلومیٹر کے فاصلہ پر اور نظام آباد کے راستے سے تقریبا 11 کلو میٹر کے فاصلہ پر پچھم سمت میں موضع مسلم پٹی واقع ہے، موجودہ آبادی 1200 کے قریب ہے جس میں 60فیصد مسلم آبادی اور 40فیصد غیرمسلم آبادی ہے، گاٶں میں کل چار مساجد ہیں۔ اس بستی میں کئی اہم شخصیات نے جنم لیاہے۔جن میں مرزا اسلم بیگ کا نام نمایاں ہے۔

۔2/اگست 1931 کوپیداہوئے۔ جوانی میں ہجرت کرکے پاکستان چلےگئے اور 1950ء میں پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول کے چھٹے کورس میں شمولیت اختیار کی۔ 1952ء میں بلوچ رجمنٹ میں بطور انفنٹری افسر کمیشن ملا۔اور 30 بلوچ رجمنٹ میں شامل ہوئے سپیشل سروسز گروپ میں شامل رہ کر فوج خدمات انجام دیں۔ 1962ء میں سٹاف کالج کوئٹہ سے گریجویشن کی۔ نیشنل ڈیفنس کالج، راولپنڈی میں کچھ عرصہ انسٹرکٹر بھی رہے۔ چیف آف جنرل سٹاف بھی رہے۔ 1986ء میں جی ایچ کیو سے تبادلہ کرکے انہیں آرمی کور پشاور کا کمانڈر مقرر کیا گیا۔ مارچ 1987ء میں ان کو ترقی دے کر جنرل بنایا گیا اور جنرل خالد محمود عارف کی جگہ وائس چیف آف آرمی سٹاف بنایا گیا۔ جنرل عارف کے ساتھ جنرل رحیم الدین خان بھی ریٹائرمنٹ پر چلے گئے۔ جن کی جگہ تینوں افواج کا مشترکہ چیف جنرل اختر عبد الرحمن کو بنایا گیا۔ جنرل ضیا الحق صدر مملکت کے علاوہ چیف آف آرمی سٹاف بھی تھے۔(ویکیپڈیا)

مسلم پٹی سے نکلنے کے بعد مرزا پور میں لب روڈبائیں ہاتھ پر ایک عالیشان مسجد میں ظہر کی نماز ادا کی گئی ، مسجد کے صدر دروازے پر دارالسلام لکھاہوا ہے، جو کسی "خضر ثقل العصیمی" کے تعاون سے جنوری/ 2018 میں بن کر تیار ہوئی ہے۔ دروازے پر دل کو موہ لینے والا ایک شعر بھی لکھا ہوا ہے۔       
                *اللہ  کا یہ  گھر  ہے یہ   دارالسلام   ہے* 
                *رحمت کا  در کھلاہے یہ دربار عام ہے۔* 

تعمیر وتزئین کے اعتبار سے مسجد عالیشان ودلربا ہے۔ اسی کی پشت میں مکتب نما ایک چھوٹی سے عمارت بھی ہے۔اور دروازے کی جانب تین کرسمس کے پیڑ لگے ہوئے ہیں،جوخوبصورتی میں اپنی مثال آپ رکھتے ہیں۔

 بعد نماز ہمارا یہ قافلہ تیزی سے چلنے لگا، میرے ذہن میں تھا کہ اب سرائمیر کی جانب محو سفر ہیں۔ لیکن جب اچانک مولانا مستقیم صاحب کی گاڑی ندی کے پُل پر رکی، اور مفتی عبیدالرحمٰن صاحب موبائل سے بار بار کسی کو کال لگانے میں غرق ہوگئے تو کچھ تشویش ہوئی پوچھنا مناسب نہیں سمجھا پھر چلتے چلتے اچانک مولانا مستقیم صاحب اپنی گاڑی بیناپارہ گاٶں کی گلی میں موڑ دئے ان ہی کی اتباع کرتے ہوئے عزیزم مولانا صادق صاحب چلنے لگے، کچھ ہی پل بعد ہم لوگ مولانا ہاشم صاحب بینائی کے گھر پر تهے ، مولانا اس وقت اپنے ہال میں نیند کی وادی میں کھوئے ہوئے تھے، پتا چلاکہ کال بار بار انہی کو کی جارہی تھی۔ باہر کھیل رہے ان کے بھانجے عزیزم (یوسف) سلمہ سے مولانامستقیم صاحب نے خبر دینے کو کہا وہ گھر میں گئے اور اپنے ناناجان جناب ڈاکٹر رضوان صاحب کو لواکر چلے آئے۔۔
 ڈاکٹر صاحب کی کلینک آج سے چند سال قبل تک کھریواں موڑ پر رہی ہے۔ایک اچھےطبیب کی حیثیت سے مشہورتھے۔ میرے گھرانے میں اکثر دوا ان ہی کے یہاں سے لی جاتی تھی۔ ڈاکٹرہونے کے ساتھ ساتھ والی بال کے اچھے کھلاڑی بھی ہیں۔ 
 خیراندر جاکر ڈاکٹر صاحب نے مولانا ہاشم بینائی کو بیدارکیا۔ وہ آنکھ ملتے ہوئے باہر تشریف لائے اور مسکراتے ہوئے سلام ومصافحہ کیا ہال میں بیٹھایا۔ وہی پرانی روش یہاں بھی چلنے لگی(چائے ولوازمات)

 *مولانا ہاشم صاحب:* عربی ششم تک کی تعلیم بیت العلوم میں ہوئی ہے، دارالعلوم وقف کے فاضل گرامی ہیں، بیت العلوم ہی سے افتا بھی کئے ہیں، رفیق سفر مفتی عبیدالرحمٰن صاحب کے درسی رفیق ہیں،صالح مزاج آدمی ہیں، فی الحال موضع "کوڑیہ کے مدرسة انوارالعلوم "  میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

 *بیناپارہ:* سرائمیر سے تقریباً تین میل کے فاصلے پر جانب شمال واقع ہے، اور"ابن سینا طبیہ کالج" کی وجہ سے خاص شہرت کا حامل ہے، اس کے علاوہ انٹرکالج، نسواں کالج بھی ہے، گاٶں میں داخل ہونے سے قبل بائیں جانب سڑک کے کنارے ایک وسیع وعریض قبرستان ہے، دینی ودنیاوی تعلیم کے لحاظ سے کافی ترقی پر ہے، کئی ایک علمی شخصیتوں نے یہاں جنم لیاہے، جن میں مولانا ابوبکر صاحبؒ(1922/1998) مولانا اظہارالدین صاحبؒ(1910/1994) کی شخصیت نمایاں ہے۔

           *نقشہ اٹھا کے کوئی نیا شہر ڈھونڈیئے*  
           *اس شہر میں تو سب سے ملاقات ہو گئی* 
                       *(ندا فاضلی)* 


دوسری قسط میں ان شاء اللہ اگلی منزل سے لے کر اختتام سفر تک کی روداد رہے گی۔