Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, August 23, 2020

ہرگز ‏نہیں۔۔۔میرے ‏ساتھ ‏میرا ‏رب ‏ہے۔

تذکیر بہ موقع اجلاس 
مرکزی مجلس شوریٰ جماعت اسلامی ہند 
23 _ 25 اگست 2020 ]

از / ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی / صداٸے وقت ۔/٢٣ اگست ٢٠٢٠۔
==============================

        قرآن مجید میں متعدد مقامات پر حضرت موسیٰ علیہ السلام اور آپ کی قوم اور شہنشاہِ مصر فرعون اور اس کے لاؤلشکر کے درمیان کش مکش اور معرکہ آرائی کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں _ اس میں موجودہ حالات میں ہمارے لیے رہ نمائی اور عبرت پذیری کا بھرپور سامان موجود ہے _ اس موقع پر میں سورۂ الشعراء کی چند آیات(52 تا 68) کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا _
        سورۂ الشعراء میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک خاص موقع پر وحی الٰہی کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے ساتھ راتوں رات نکل کھڑے ہوئے _ فرعون کو خبر ملی تو اس نے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ ان کا پیچھا کیا _ فرعونی لشکر دیکھ کر بنی اسرائیل گھبرائے ، لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو تسلّی دی _ وحی الٰہی کے مطابق انھوں نے دریا پر اپنا عصا مارا ، فوراً اس کا پانی دونوں طرف ہٹ گیا اور درمیان میں راستہ بن گیا _ چنانچہ بنی اسرائیل بہ حفاظت دریا کے پار نکل گئے _ پیچھے سے جب فرعونی لشکر دریا میں داخل ہوا تو وہ اپنی سابقہ حالت میں آگیا اور پورا لشکر اس میں غرق ہوگیا _

        اس موقع پر اس سورہ کی درج ذیل دو آیات ہماری خصوصی توجہ چاہتی ہیں :
فَلَمَّا تَرَآءَ الۡجَمۡعٰنِ قَالَ اَصۡحٰبُ مُوۡسٰٓى اِنَّا لَمُدۡرَكُوۡنَ‌ۚ۞ قَالَ كَلَّا‌‌ ۚ اِنَّ مَعِىَ رَبِّىۡ سَيَهۡدِيۡنِ  (الشعراء :61 _ 62)
" جب دونوں گروہوں کا آمنا سامنا ہوا تو موسیٰؑ کے ساتھی کہنے لگے : "ہم تو پکڑے گئے _ " موسیٰؑ نے کہا : "ہرگز نہیں ، میرے ساتھ میرا رب ہے ، وہ ضرور میری رہ نمائی فرمائے گا _"

        ان آیات میں دو رویّے بیان کیے گئے ہیں : ایک اصحابِ موسیٰ کا رویّہ اور دوسرا خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کا رویّہ _ اصحابِ موسیٰ سے مراد بنی اسرائیل ہیں ، جو سیکڑوں برس کی غلامانہ زندگی کی وجہ سے پست ہمّت اور بزدل ہوگئے تھے _  فرعون کے لشکر کو دیکھ کر ان پر گھبراہٹ طاری ہو گئی ، وہ ہمّت ہار بیٹھے اور بے ساختہ ان کی زبان پر یہ الفاظ آگئے :"ہم تو پکڑے گئے _" ان حالات میں انھوں نے اللہ تعالیٰ سے رجوع نہیں کیا ، اس سے مدد نہیں مانگی ، اس سے صبر اور استقامت طلب نہیں کی _ دوسری طرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کا گہرا ایمان ، تائیدِ غیبی پر زبردست یقین اور اللہ تعالٰی پر بھرپور توکّل تھا ، جس نے ان کی زبان سے یہ الفاظ ادا کروائے : " ہرگز نہیں ، میرے ساتھ میرا رب ہے _" بنی اسرائیل کے لہجے میں جتنی دہشت ، گھبراہٹ اور بے چارگی تھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کا انداز اتنا ہی زیادہ پُرسکون ، پُر اعتماد اور عزمِ مصمّم سے لب ریز تھا _ "ہرگز نہیں" میں جتنا زور ہے اسے بہ خوبی محسوس کیا جاسکتا ہے _   “میرے ساتھ میرا رب ہے “، پھر مجھے کس بات کا ڈر اور کس چیز کا اندیشہ؟!

محترم ساتھیو!
          گزشتہ ایک برس سے ملک کے حالات جتنی تیزی سے بدل رہے ہیں وہ ہمارے سامنے ہیں _  ہندوتوا فورسز برابر طاقت ور ہوتی چلی جارہی ہیں اور وہ مسلسل ایسے اقدامات کررہی ہیں جن سے اسلام اور مسلمانوں کی رسوائی ہو اور وہ برابر کم زور سے کم زور تر ہوتے چلے جائیں _ کشمیر میں دفعہ 370 کا خاتمہ ، تمام تر ثبوتوں کے باوجود مسلمانوں کو بابری مسجد سے محروم کردینا ، اس کی جگہ عظیم تر بت خانہ کی تعمیر کی اجازت ، بڑے دھوم دھام سے شیلاپوجن کی تقریب کا انعقاد ، متھرا اور کاشی کی مسجدوں کے بارے میں از سرِ نو تنازعہ کھڑا کرنا ، دہلی فسادات میں مسلمانوں کی جانوں ، مالوں اور جائیدادوں کی بڑے پیمانے پر لوٹ پاٹ ، اس کے بعد مسلمانوں کو ہی موردِ الزام ٹھہرانا ، لاک ڈاؤن کی آڑ میں شہریت ترمیمی قانون (CAA) ، نیشنل رجسٹر آف سٹیزن شپ (NRC) اور قومی آبادی رجسٹر (NPR) کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی قیادت کرنے والے مسلم نوجوانوں کی پکڑ دھکڑ اور ان کی ایذا و تعذیب اس کی چند مثالیں ہیں _ اس صورتِ حال میں امّت کی اکثریت کی طرف سے اسی رویّے کا مظاہرہ کیا جارہا ہے جس کا اظہار بنی اسرائیل نے کیا تھا _  جس طرح بنی اسرائیل گھبراہٹ کے ساتھ کہہ بیٹھے تھے :"ہم تو پکڑے گئے _" اسی طرح مسلمان بھی اسی گھبراہٹ کا مظاہرہ کررہے ہیں _ ایسے میں انبیائی تحریک کے عَلَم برداروں کو اس رویّے کا مظاہرہ کرنا چاہیے جس کا اظہار حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کیا تھا _ انھیں بھی اسی طرح ایمان و یقین ، صبر و استقامت اور توکل علی اللہ کے ساتھ علی الإعلان کہنا چاہیے :
 " ہرگز نہیں ، ہمارے ساتھ ہمارا رب ہے"، پھر ہم کیوں گھبرائیں؟ کیوں ڈریں؟اور کیوں حواس باختہ ہوں؟ ہمارا رب ضرور ہماری رہ نمائی کرے گا _ وہ ضرور ان مشکل حالات سے نکلنے کی ہمیں تدبیر بتائے گا _ "

محترم بھائیو! 
            اس موقع پر میں ایک اور چیز کی طرف آپ حضرات کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا _ وہ ہے توکل کے ساتھ تدبیر _ دین کی تعلیم یہ ہے کہ پہلے ہر ممکن تدبیر اختیار کی جائے ، پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کیا جائے _ ہمیں تدابیر اختیار کرنے میں دشمنوں سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنی چاہیے _ سورۂ الشعراء کی ان آیات سے بھی یہی بات معلوم ہوتی ہے _  حضرت موسیٰ اپنی قوم کے ساتھ آدھی رات ہی کو نکل گئے ، جب کہ دشمن کی فوج کو نکلتے نکلتے سورج نکل آیا _ دریا کا شق ہونا یوں تو قدرتِ الٰہی سے یوں بھی ممکن تھا ، لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوا کہ دریا پر اپنی لاٹھی مارو _ اس طرح انہیں اسباب اختیار کرنے کی تعلیم دی گئی _

          ہمارے لیے ان آیات کا درس یہ ہے کہ حالات چاہے جتنے سخت ہوں ، دشمنوں کے منصوبے چاہے جتنے ہمارے خلاف ہوں ہم ان کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی تمام تر تدابیر اختیار کریں ، پھر اللہ تعالیٰ پر توکل کریں کہ وہ ان سے نجات دے گا اور ہماری حفاظت کرے گا _ جب سب سے طاقت ور ہستی ہمارے ساتھ ہے ، پھر ہمیں کیا ڈر؟ کیا اندیشہ؟