Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, September 23, 2020

سیاست۔۔۔۔۔۔اسلامی ‏طریقہ ‏کار۔


                    تحریر۔
مفتی محمد ثنا ء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف،پٹنہ
                صداٸے وقت 
نبی اور رسول پوری دنیا کے انسانوں میں سب سے زیادہ ممتاز اور کار خلافت کے لیے موزوں ترین انسان تھے، ان کے اقوال، اعمال، کیرکٹر اور کردار کی حفاظت من جانب اللہ کی جاتی تھی، کیوں کہ آگے انہیں جوکام کرناتھااس کے لیے کردار کی بلندی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، تاکہ لوگ ان کی بات پر کان دھریں اور گم گشتہ لوگ راہ ہدایت پا سکیں، اس کام میں ان کی مدد وحی الٰہی کے ذریعہ کی جاتی تھی، اس طرح وہ ایک ایسی جماعت تیار کرنے پر قادر ہوتے تھے جن کا اللہ رب العزت سے مضبوط رشتہ ہوتا تھا، اور وہ اس خلافت ارضی کی ذمہ داریوں سے پوری طرح عہدہ بر آ ہوا کرتے تھے۔
 انسان سے انسان کا رشتہ سماجی بنیادوں پر ہو تو اخلاقیات کہتے ہیں، اور اس رشتہ میں حکومت کے قیام اور اس کے تعلقات کی جد وجہد ہو تو اسے سیاسیات کہتے ہیں، توجہ اعلیٰ اخلاقی اقدار کی طرف ہو تو مکارم اخلاق ہے اور حکومت کی طرف ہو تو سیاسیات ہے۔انبیاء ورسل تہذیب اخلاق کا کام بھی کرتے تھے اور روئے زمین پر خلافت اور حکومت کے قیام کے لیے بھی جد وجہد کیا کرتے تھے، البتہ یہ کام تین مرحلوں میں کیا جاتا تھا، پہلے عقائد درست کرائے جاتے تھے، اللہ رسول کا کلمہ پڑھایا جاتا تھا، دوسرے مرحلہ میں تزکیہ نفس، تربیت اور مکارم اخلاق پر توجہ دی جاتی تھی اور تیسرے مرحلہ میں جب حالات سازگار ہوتے تو دینی خطوط پر حکومت الٰہیہ کا قیام عمل میں آتا تھا۔
تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ابتدائی مرحلے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے افراد سازی پر توجہ دیا اور مکارم اخلاق سے امت کو آراستہ کرنے کی جد وجہد کرتے رہے، ایمان وعمل صالح کی طرف لوگوں کو بلانے کا کام کیا، پھر جب پوری جماعت تہذیب نفس کے منزل سے گذر گئی تو ایسا معاشرہ وجود میں آگیا جو خود بخود ہلکی سی توجہ سے ملکی سیاست کے اسرار ورموز پر واقف ہوگئی اور حکومت الٰہیہ کا قیام عمل میں آگیا۔
 اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان وعقائد اعمال وافعال کے اعتبار سے صحابہ کرام کی تربیت کی تھی، اور یہ تربیت اس قدر مکمل تھی کہ اللہ نے انہیں اپنی رضا کی بشارت دی، یہ جماعت خود بھی راضی برضا ء الٰہی تھی، پھر جب آپ مدینہ تشریف لے گیے تو اس منتخب جماعت کے لیے ممکن ہو سکا کہ اسلامی اصول واقدار پر حاکمیت کی بنیاد رکھی جائے، اس کام کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو طریقہ کار اپنا یا، اس میں دنیا میں رائج تنازع للبقا کے اصول کو رد کر دیا، رواج یہ تھا کہ ہر قبیلہ اور ریاست اپنی بقا کے لیے جنگ پر آمادہ ہوتا تھا، زندگی کا کوئی تصور بغیر جنگ کے نہیں ہوتا تھا اور لوگ ہر وقت اس کے لیے تیار رہتے تھے، شاعر نے کہا کہ   ؎
زندگی جنگ است جاناں بہر جنگ آمادہ شو          نیست ہنگام تغافل بے درنگ آمادہ شو یعنی زندگی جنگ ہے؛ اس لیے جنگ کے لیے تیار رہو، مہلت کا وقت نہیں ہے، بے خوف وخطر آمادہ ہو، اس ماحول میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ”تنازع للبقا“ کے اصول کے بجائے بقائے باہم کا اصول دنیا کو دیا؛ جو سیاست میں بالکل نئی چیز تھی، بقاء باہم کی بنیاد پر آپ نے میثاق مدینہ کیا جو آج بھی معاہدہ کے لیے ماڈل اور نمونہ سمجھا جاتا ہے، اس معاہدہ کی رو سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوحَکم مان لیا گیا اور آپ نے ہر مذہبی جماعت کو اس کے اپنے دین پر چلنے کی آزادی دیدی، اور دفاعی امور میں سب کو شریک کرلیا، یہ پہلا سیاسی معاہدہ تھا، جس نے مسلمانوں کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا، اور اللہ تعالیٰ نے اعلان کر دیا کہ ”یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں گے تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کا حکم دیں گے، اور بدی سے روکیں گے“۔
 اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیاست کی بنیاد اس بات پر تھی کہ جاہلیت کا کوئی طریقہ رائج نہیں کیا جائے گا، امور مملکت یا تو وحی الٰہی سے طے ہوں گے یا مشورے سے، حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اگر کوئی ایسا معاملہ ہمارے درمیان پیش آجائے، جس کے بارے میں نہ کوئی امر ہو اور نہ نہی تو ایسی صورت میں آپ کا کیا ارشاد ہے، فرمایا: اس بارے میں عبادت گذار اور دیانت دار ماہرین شریعت سے مشورہ کر لیا کرو، اور انفرادی رائے اختیار نہ کرو۔“
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اسلامی سیاست میں بنیادی حیثیت دی گئی؛ بلکہ مملکت کے قیام کا مقصد ہی
 امر با لمعر وف اور نہی عن المنکر کا مزاج بنانا تھا،اور طے کر لیا گیا تھا کہ وہ بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے معاون ہوں گے اور گناہ کے کاموں میں تعاون نہیں کیا جائے گا، اس سیاست میں جن لوگوں کا عمل دخل ہوگا، ان کے لیے بنیادی شرط یہ رکھی گئی کہ وہ عہدے کے طالب نہیں ہوں گے، ذاتی زندگی میں وہ ایمان دار خدا ترس، نیک اور امانت دار ہوں گے،ان کے اندر حد سے گذر نے اور فساد فی الارض کا مادہ نہیں ہونا چاہیے، ان کے اندر حکومت کرنے کی ذہنی اور جسمانی صلاحیت ہونی چاہیے،وہ اہل علم بھی ہوں اور معاملہ فہم بھی،جو لوگ بھی حکومت کریں گے ان کے لیے عدل وانصاف کا قیام ضروری ہوگا اور ظلم وجور کے خاتمہ کے لیے کام کرنا ہوگا، اس حکومت میں رعایا کو ان کے حقوق دیے جائیں گے، ان کے جان ومال عزت وآبرو، نیزان کی نجی زندگی محفوظ رہے گی، رعا یا کو ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا حق ہوگا، اور شرعی اصول وحدود اور ادب واحترام کے ساتھ اظہار خیال کی آزادی ہوگی، غیر مسلموں کو بھی اپنے مذہب پر عمل کی آزادی ہوگی اور ان کی ضروریات زندگی کا خیال رکھا جائے گا، رنگ ونسل زبان اور علاقہ کی بنیاد پر تفریق نہیں کی جائے گی؛ کیونکہ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں، اس بنیاد پر کسی عربی کو عجمی پر اور نہ کسی گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر برتری حاصل ہو گی، برتری کا معیار تقویٰ ہوگا۔ہر قسم کے تعصب کا خاتمہ ہوگا، لسانی علاقائی اور قبائل کی بنیاد پرکسی قسم کا امتیاز روا نہیں رکھا جا ئے گا۔اسی طرح رعایا کے لیے لازم ہوگا کہ وہ اپنے حاکم کی اطاعت کریں گے اور کسی بھی امر معروف میں نا فرمانی سے گریز کریں گے، قانون کی پابندی کا خیال رکھیں گے اور نظم ونسق میں خل نہیں ڈالیں گے، ملک پر وقت آئے تو جان ومال کی قربانی پیش کریں گے۔
 جنگ وصلح سے متعلق خارجہ پالیسی میں بد عہدی سے بچا جائے گا اور معاہدہ ختم کرنا ضروری ہوا تو اس کی اطلاع مخالف فریق کو دی جائے گی، عہد وپیمان کا خیال رکھا جائے گا اور اس میں مکر وفریب کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی، صلح پسندی حکومت کا موقف ہوگا، جو گروپ دشمنی پر آمادہ نہ ہو اس سے دوستانہ برتاؤ کیا جائے گا، جو لوگ ظلم وزیادتی کریں گے ان سے بدلہ لینے میں زیادتی نہیں کی جائے گی۔جو لوگ اسلام کی برتری کو مانیں گے اور جنگ پر آمادہ نہیں ہوں گے  ان سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی، ان کے متعلق انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے گا۔
سیرت مبارکہ میں ان اصولوں کی عملی تنفیذ کے واقعات کثرت سے موجود ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص حکمراں ہو اس کو بھاری حساب دینا ہوگا اور وہ سخت عذاب کے خطرے میں مبتلا ہوگا۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاست کے جو اصول مقرر کئے تھے اور جن پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پوری زندگی عمل پیرا رہے دھیرے دھیرے امت نے ان اصولوں کو چھوڑ دیا جس کی وجہ سے اسے حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا اور سیاست غیر اسلامی بن کر رہ گئی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پیش گوئی پہلے ہی کردی تھی، مسلم شریف کتاب الایمان کی روایت ہے کہ ”پھر ان کی جگہ نالائق لوگ لے لیں گے، جو کہیں گے وہ کریں گے نہیں، اور وہ کام کریں گے جس کا حکم نہیں دیا گیا ہے، پس جو کوئی ان کے خلاف ہاتھ، زبان اور دل سے جہاد کرے وہ مؤمن ہے، اس سے کم تر ایمان کا ذرہ برابر بھی درجہ نہیں ہے۔“
نسائی شریف کی ایک روایت ہے کہ میرے بعد کچھ لوگ حکمراں ہونے والے ہیں، جو ان کی جھوٹ میں تائید اور ان کے ظلم میں مدد کرے، وہ مجھ سے نہیں اور میں اس سے نہیں“ ایک روایت میں ہے کہ عنقریب تم پر ایسے لوگ حاکم ہوں گے جن کے ہاتھ میں تمہاری روزی ہوگی، وہ بات کریں گے تو جھوٹ بولیں گے،کام کریں گے توبُرے کام کریں گے، وہ تم سے اس وقت تک راضی نہیں ہوں گے، جب تک تم ان کے بُرے کاموں کی تعریف اور ان کے جھوٹ کی تصدیق نہ کرو، پس تم ان کے سامنے حق پیش کرو جب تک وہ اسے گوارہ کریں، پھر اگر وہ تجاوز کریں تواس تجاوز کے نتیجے میں جو شخص قتل کیا جائے وہ شہید ہوگا۔آج کی خدا بیزار اور ظلم وجور پر مبنی سیاست کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے(بشکریہ نقیب)