Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, September 20, 2020

ڈاکٹر ‏ضیإ ‏الرحمٰن ‏اعظمی ‏کی ‏کتاب ‏” ‏گنگا ‏سے ‏زمزم ‏تک ‏کا ‏روحانی ‏و ‏علمی ‏سفر ‏“کا ‏سماعت ‏اجرإ۔

اعظم گڑھ ۔اتر پردیش /صداٸے وقت / نماٸندہ عبد الرحیم صدیقی کی رپورٹ۔
==============================
آج جامعة الفلاح کے ابو اللیث ھال میں ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی رحمہ اللہ کی سوانح اور خدمات پر شائع ہونے والی کتاب؛ گنگا سے زمزم تک کا روحانی و علمی سفر ؛کے اجراء کی تقریب ہوئی. جناب خالد اعظمی صاحب کی ترتیب شدہ یہ پہلی کتاب ہے جو مرحوم کی زندگی اور خدمات کے بارے میں منظر عام پر آئی ہے. 216 صفحات پر مشتمل یہ کتاب المنار پبلشنگ ھاوس دہلی نے بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے. اہم شخصیات کے قیمتی پیغامات کے علاوہ اس میں 23 مقالات اور موصوف کی چند تحریریں شامل ہیں. مقدمہ نامور عالم دین اور جماعت اسلامی ہند کے سابق امیر مولانا سید جلال الدین عمری حفظہ اللہ نے لکھا ہے. اس کتاب میں ڈاکٹر ضیاء الرحمن اعظمی رحمہ اللہ کی حیات و خدمات کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی اور ان کی گرانقدر تصنیفات کا بھی مفصل تعارف ہے.مرحوم ایک معتدل عالم دین تھے اور ہر حلقے میں مقبول تھے. ان کی وفات پر ہر حلقے سے گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا اور بے شمار تعزیتی پیغامات آئے. شوشل میڈیا پر بہت ساری تحریریں آئیں اور اب بھی سلسلہ جاری ہے. ایک عالم ربانی اور عظیم محدث کی رحلت سے ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا ہے. 
تقریب کے آغاز میں ناظم تقریب مولانا عبید اللہ طاھر فلاحی مدنی نے مرحوم کا جامع تعارف کراتے ہوئے کہا کہ 1943 میں ان کی پیدائش بلریا گنج کے ایک ہندو خاندان میں ہوئی. 1960 میں انہوں نے اسلام قبول کرلیا، اس کے بعد شدید آزمائش سے دو چار ہوئے، حکیم محمد ایوب صاحب نے خصوصی سرپرستی فرمائی. یہاں سے انہوں نے ہجرت کی اور ککرالہ چلے گئے، اس کے بعد جامعہ دار السلام عمراباد چلے گئے اور فضیلت مکمل کی. اس کے بعد مدینہ یونیورسٹی سے گریجویشن اور ام القری یونیورسٹی مکہ مکرمہ سے پوسٹ گریجویشن کیا. اس کے بعد رابطہ عالم اسلامی میں انہیں سروس مل گئی، سعودی شہریت بھی ملی اور دوران ملازمت انہوں نے جامعہ ازہر سے ڈاکٹریٹ بھی کرلیا. حدیث اور علوم حدیث سے خاص دلچسپی تھی، چنانچہ 1979 میں مدینہ یونیورسٹی کی حدیث فیکلٹی میں استاذ ہوگئے. 2001 میں ریٹائرمنٹ کے بعد مسجد نبوی میں درس حدیث کا سلسلہ شروع کیا. دو درجن سے زائد کتابیں شائع ہوئیں. اپنے قبول اسلام کی داستان؛ گنگا سے زمزم تک؛ کے نام سے لکھی. سب سے بڑا کارنامہ ان کی وہ کتاب ہے جو صحیح احادیث کی انسائیکلوپیڈیا ہے اور 19 جلدوں میں چھپی ہے. تمام صحیح احادیث کو اس میں انہوں نے جمع کر دیا ہے، تقریبا 16500 احادیث اس میں ہیں.
30 جولائی 2020 کو عرفہ کے دن وفات ہوئی، مسجد نبوی میں جنازہ ہوااور جنت البقیع میں تدفین ہوئی.
مولانا محمد عمران فلاحی صاحب نے کہا کہ مرحوم سے متعدد بار مدینہ منورہ میں ان کے گھر پر ملاقات ہوئی، جو لوگ بھی یہاں سے جاتے تھے ان سے تپاک سے ملتے اور بہت خاطر مدارات کرتے تھے، سب کی خیریت پوچھتے. بہت اپنائیت کا اظہار کرتے. جب انہوں نے احادیث صحیحہ کا انسائیکلوپیڈیا تیار کرلیا تو کہا تھا کہ شاید اللہ تعالیٰ نے اسی کام کیلئے مجھے ایمان کی دولت سے نوازا.
اس موقع پر جناب منشی محمد انور صاحب جو ان کے قبول اسلام کے احوال کے عینی شاہد ہیں، اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد جب انہیں ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو انہوں نے جس استقامت، پامردی اور صبر کا ثبوت دیا، اس سے دور صحابہ کی یاد تازہ ہوگئی.
مولانا محمد طاھر مدنی صاحب نے کہا کہ ان کی تصنیفات بہت گرانقدر ہیں، علوم حدیث، ادیان و مذاہب اور دعوتی موضوعات پر انہوں نے بیش بہا کتابیں لکھی ہیں. دعوتی کام کی اہمیت پر بہت زور دیتے تھے. اس مقصد سے انہوں نے ہندی زبان میں قرآن مجید کی انسائیکلوپیڈیا تیار کی، جس میں قرآنی اصطلاحات کا تعارف ہے. اس کتاب کو پڑھنے کے بعد برادران وطن کو قرآن مجید سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے. اس میں تقریباً 600 اصطلاحات کا تعارف ہے.
صدر مجلس مولانا رحمت اللہ اثری صاحب نے بتایا کہ مدینہ یونیورسٹی میں مرحوم کی زیر نگرانی مجے ایم اے کی تھیسس تیار کرنے کا موقع ملا، جو بوہرہ فرقہ کے بارے میں ہے. بہت قریب سے انہیں دیکھنے کا موقع ملا، بہت ملنسار، متواضع اور مہمان نواز تھے. ان کے علمی کارنامے ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں. محنت، لگن اور جانفشانی کا سبق ان کی زندگی سے ہمیں ملتا ہے.
رپورٹ؛ رابطہ عامہ جامعة الفلاح
نوٹ؛ کتاب جامعہ صدر دروازے پر ایجوکیشنل بک ہاؤس میں دستیاب ہے، خصوصی رعایت کے ساتھ صرف 100 روپیے میں.