Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, September 22, 2020

اولاد ‏کی ‏تربیت ‏کا ‏طریقہ اور ماں باپ ‏کا ‏کردار ۔۔۔۔۔۔‏


تحریر /محمد امین الرشید سیتامڑھی /صداٸے وقت 
==============================
اولاد کی بہترین تعلیم و تربیت کی غرض سے والد کا کردار بڑاہی سخت ہوتا ہے، جب کہ اسی کے برعکس ماں کی حد سے زیادہ نرمی اور لاڈ پیار سے اولاد نڈر اور بے باک ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے اس کی تعلیم وتربیت اور کردار پر بُرا اثر پڑتا ہے، جب کہ والد کی سختی، نگہہ داشت اور تیزی سے اولاد کو من مانی کرنے کا موقع کم ہی ملتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اولاد باپ سے زیادہ ماں کے قریب ہوتی ہے، لیکن اولاد یہ نہیں جانتی کہ ان کے والد کو گھر چلانے اور تعلیم و تربیت کا مناسب اہتمام کرنے کی لیے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں اور کتنی مشقتیں سرنگوں کرنا پڑتا ہے وہ باپ ہی ہوتا ہے جو اپنے اہل و عیال کو پالنے کے لیے خود بھوکا رہ کر یا روکھی سوکھی غذائیں کھا کر اپنا  گزر بسرکرتارہتا ہے، لیکن باپ  پوری کوشش کرتا ہے کہ اس کے بچوں کو اچھا کھانا، پینا، تعلیم و تربیت میسر ہو
ہر باپ کا یہی خواب ہوتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ معیار زندگی فراہم کرے تاکہ وہ معاشرے میں باعزت زندگی بسر کرسکیں اور معاشرتی ترقی میں بہتر طور پر اپنا کردار ادا کرسکیں۔ اسلام میں باپ کو بڑا رتبہ حاصل ہے جب کہ احادیث مبارکہ میں باپ کی ناراضگی کو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور باپ کی خوش نودی کو ربّ تعالیٰ کی خوش نودی قراردیا گیا ہے

بچے کا ایمان مضبوط کر نے کے لئے ماں کو چاہئے کہ بچے کی ذہن میں اللہ کا تصور پیداکریں کہ بیٹا!اگر تم ایسے کروگے تو اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائیں گے ۔آپ جب پیار سے سمجھائیں گے تو بچہ پوچھے گا کہ اللہ تعالیٰ کون ہے ؟اب اللہ رب العزت کا تعارف کروانے کا موقع مل جائیگااب آپ اللہ کا خوب تعارف کرائیں کہ کھانا کھلانے اور پانی پلانے والی ذات اللہ کی ہے ہم سب کا پیدا کرنے والا اللہ ہے یہ پوری کائنات اللہ نے بنائی ہے ،غرض کہ وہ موٹی موٹی باتیں جو آئے دن پیش آتے رہتے ہیں حکمت کے ساتھ اللہ کی طرف کرتے رہیں اورجیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا جائے اس کو دینی تعلیم دیں، قرآ ن مجید پڑھائیں، حدیث شریف زبانی یاد کروائیں ،دعا ئیں یاد کرائیں ، ارکان اسلام ،کلمہ طیبہ اس کے معنٰی ومفاہم بچہ کے سامنے بیان کریں،نماز کا طریقہ بتائیں ،سوتے وقت بجائے لوری یا جھوٹی قصہ کہانیوں کے انبیاء علیہم السلام کے واقعات ان کی قربانیاں جناب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ،حیات خلفاء راشدین و اہل بیت،صحابۂ کرام و ازواج مطہرات اور پیشوان اسلام اوراسلامی تاریخ بتائیں
تاکہ بیٹا کہنے پر مجبورہوجائےکہ والدین نے الحمد للہ بہت محنت اور کوشش کی جو آج ہم اس قابل ہوئےہیں کہ کچھ لکھ پڑھ لیتے ہیں کچھ کہ سن لیتے ہیں
ایک مسلمان گھرانے کا ماحول بچے کو ایک ڈیڑھ سال کی عمر میں رکوع و سجود، اذان اور نماز سے آشنا کر دیتا ہے۔ گھر کا ماحول نمازی ہو گا تو بچہ لاشعوری طور پر اس کو زندگی کا ایک جزو سمجھے گا۔ پھر جس بچے کی تربیت کے لیے دعا اور دوا کا اہتمام، نکاح کے رشتے میں جڑنے کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا، لازماً اللہ تعالیٰ ایسے ماں باپ کے لیے آسانیاں فراہم کرے گا۔ نماز جتنی اہم عبادت ہے، شیطان کو اس کی پابندی اتنی ہی گراں گزرتی ہے۔ وہ نماز کو مشکل ترین کام بنا کر مسلمانوں کو رب سے دور کرنا چاہتا ہے، اسی لیے نفس پہ اس کی ادائیگی گراں گزرتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ خود اپنی نمازوں کی حفاظت کریں۔’’بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔‘‘ مرد حضرات خود با جماعت نماز کی پابندی کریں، لڑکوں کو مسجد میں محبت اور شفقت سے لے جائیں۔ ننھے لڑکے کو مسجد سے محبت، انس اور تعلق پیدا کروانا چاہیے۔ جس طرح بچہ باپ کے ساتھ باہر جانے اور کچھ حاصل کرنے کے شوق میں خوشی خوشی بازار جاتا ہے بالکل اسی طرح مسجد میں جا کر خوشیوں کے حصول اور کچھ پا لینے کی آرزو پیدا کی جائے۔ اللہ تعالیٰ سے محبت اور شکر گزاری کے جذبات پیدا کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ جو بچہ اپنے رب کا شکر گزار ہو کر آسودگی کی دولت پا لیتا ہے، اسی کے والدین کامیاب ہیں۔ نماز کو بچے کے ذہن میں اس حقیقت کا حصہ بنایا جائے کہ جو نعمتیں، خوشیاں ملی ہیں، اسے ان کا شکریہ ادا کرنا ہے اور پھر مزید چیزیں بھی مانگنی ہیں۔ بچے کو روز مرہ کی ننھی منی آرزوئیں اپنے رب کے سامنے پیش کرنے کا سلیقہ سکھایا جائے۔ ہر مشکل کام میں اسے اللہ سے مدد مانگنے کا اللہ سے قربت کا احساس دلایا جائے۔ نماز کی پابندی کروانے کے سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ اسے ابتداء میں یعنی تین سال کی عمر ہی سے ضرور اپنی نماز ادا کرنے کے دوران اپنے ساتھ رکھا جائے۔ دن میں پانچ مرتبہ نماز کی ادائیگی تاکہ اس کی آنکھوں کے سامنے اور شعور کے اندر، رچ بس جائے۔ اسی عمر سے نماز کے کلمات یاد کروانے شروع کر دیے جائیں۔ جتنے بھی کلمات ترجمے کے ساتھ یاد ہو جائیں انھی کے ساتھ نماز کی ادائیگی شروع کروائی جائے۔ لڑکے تو مسجد میں جا کر رکوع و سجود کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ لڑکیوں کو بھی گھر میں اس کی مکمل پہچان کروائی جائے۔ شروع میں بچے کو ایک نماز اور وہ بھی صرف فرض کی عادت ڈالی جائے اور یہ فجر کی نماز ہے۔ بچہ چاہے جس وقت بھی سو کر اٹھے اسے معلوم ہو جائے کہ اٹھنے کے بعد پہلا کام نماز کا ہوتا ہے۔ پہلے وضو اور نماز پھر ناشتہ……… صبح اپنے رب کے حضور حاضری کا تصور اس کے لازمی معمولات کا حصہ بن جائے۔ یہ عمل ایک سال تک جاری رکھا جا سکتا ہے۔ پھر پوری نماز فجر کی فرض و سنت کے ساتھ پابندی کرائی جائے۔ دوسری نماز جس کی پابندی آسان ہے وہ مغرب کی نماز ہے۔ چند ماہ ان دو نمازوں کی پابندی ہو۔ پھر بتدریج باقی نمازیں اور رکعتوں کے لحاظ سے بھی پہلے صرف فرائض، پھر سنت موکدہ کی پابندی کروائی جائے۔ چار پانچ سال تک مکمل توجہ، شعور، اور دعاء و یقین کے ساتھ کی جانے والی یہ محنت ان شاء اللہ کبھی رائیگاں نہیں جائے گی
الحمدللہ ان سب چیزوں پر والد صاحبؒ نے کافی محنت کی اور مدرسہ بیت العلوم سرائےمیر اعظم گڑھ یوپی میں اس پر توجہ بھی بہت کی تا کہ بچے شروع سے ہی ان سب چیزوں کے پابند ہوجائیں
جن کے والدین وفات پا چکے ہوں وہ ان کے لیے ہر وقت دعا کرتے رہیں اور ان کی دی گئی اچھی تربیت پر عمل کرتے رہیں تاکہ ان کو اس کا اجر ملتا رہے۔ یاد رکھیں اللہ نے قرآن پاک میں نیک والدین اور ان کے نیک بچوں کو جنت میں اکھٹا کرنے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔ لہٰذا اللہ سے ہر نماز میں دعا کریں کہ وہ آپ کے والدین کو بخشش فرمائے اور ان پر اس طرح رحم فرمائے جس طرح انہوں نے آپ پر بچپن کی بے بس زندگی کے دوران رحم کیا تھا۔ رب ارحمھما كما ربياني صغيراانشاءاللہ بندہ امید کرتا ہے کہ آج  سےہم سب انشاءاللہ مذکورہ ہدایات پر عمل پیرا ہونگیں اور ماں باپ کی قدر اور اس کے حکم کو اپنےسر کا تاج سمجھینگیں اللہ پاک ہمارے لئے مزید آسانیا ں پیدا فرمائے آمین یارب العالمین .....
محمد امین الرشید سیتامڑھی ابن حضرت مولانا حافظ محمد ہارون رشید صاحب مظاہری علیہ الرحمہ سابق استاد مدرسہ اسلامیہ عربیہ بیت العلوم سرائےمیر اعظم گڑھ یوپی