Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, October 16, 2020

جماعت ‏کا ‏سبق ‏۔۔۔۔۔۔۔

                    از 
*مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی*
*نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ*
                 صداٸے وقت 
             ============
  ہم پنج وقتہ نمازوں کی جماعت میں حاضر ہوتے ہیں ،امام کی اقتداکرتے ہیں ،اس کے ہر عمل سے اپنا عمل ملاتے ہیں، وہ جب تکبیر تحریمہ کہتاہے تو ہم بھی تکبیر تحریمہ کہتے ہیں ،جب وہ رکوع میں جا تا ہے تو ہم رکوع میں چلے جا تے ہیں، وہ جب سجدہ میں جا تاہے تو ہم بھی سجدہ میں چلے جاتے ہیں، اس کے تشہد پر ہم تشہد کرتے ہیں اور اس کے سلام پھیر نے پر نماز ختم کردیتے ہیں ،امام کی ایسی اقتدا اوراتباع کو ہم جما عت کہتے ہیں ،بازار میں جو ازدہا م ہے، اسے جماعت نہیں کہتے، پلیٹ فارم کی بھیڑ بھی جماعت نہیں کہلا تی، کیوں کہ وہاں صرف مجمع ہو تاہے، ہر آدمی اپنی دُھن میں مگن، ہر ایک کے حرکات وسکنات الگ الگ اور ہر ایک کی مشغو لیت جداجدا، لوگ جب مسجد میں جمع ہوجاتے ہیں، باہر سے کوئی پوچھتا ہے کہ جماعت ہوگئی، لوگ کہتے ہیں کہ ابھی جماعت نہیں ہوئی ،مسجد میں مقتدی حاضر ہیں اور امام بھی موجود ہے ،لیکن جب تک مقتدی امام کی  اتباع واقتد اء کی نیت نہیں کرتے اور عملًا اس کی پیروی نہیں کر تے ،اس وقت تک جماعت قائم نہیں ہوتی، اتباع واقتداء کی یہ خاص کیفیت جو مسجد میں پائی جا تی ہے، اسلام کا مطالبہ ہے کہ باہر کی زندگی میں بھی ایسا ہی ہو، ہم نماز کے علاوہ بھی اپنی زندگی ،جماعت کے ساتھ گزاریں ہما را ایک امیر ہو، ان کے کہنے پر چلیں ،معروف میں اس کی بات سنیں اور مانیں، قرآن کریم میں جو اُلُوْ الأمْر کی اطاعت کی بات کہی گئی ہے اس کا یہی مطلب ہے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ اسلام جماعت کے بغیر نہیں ہے اور جماعت امارت کے بغیر نہیں، اور امارت اطاعت کے بغیر نہیں ۔﴿لَاإسْلَامَ إلَّا بِجَمَاعَۃٍ وَلَا جَمَاعَۃَ إلَّا بِإمَارَۃٍ وَلَا إمَارَۃَ إلَّا بِطَاعَۃٍ﴾
جب زندگی میں جماعت کا یہ تصور قائم ہوتاہے تو اللہ کی نصرت اور مدد آتی ہے اسی کو ﴿ید اللہ علی الجماعۃ﴾ سے تعبیر کیا گیا ہے ۔اس کے برعکس اگر آدمی انفر ادی زندگی گزارتاہے تو وہ بہت کمزور ہو تاہے، یہ کمزو ری ہر اعتبار سے آتی ہے اور جس طر ح سے لکڑی کے ایک ٹکر ے اور رسی کے الگ الگ دھاگے کو آسانی سے تو ڑ ا جا سکتاہے اسی طرح وہ شخص جو جماعت سے کٹ کر زندگی گزا رتا ہے اس کی حیثیت کٹی پتنگ کی ہو تی ہے جس کو ہو ا کے ہلکے جھونکے بھی نا معلوم سمت اڑا لے جا تے ہیں ۔
پھر مسجد میں جو جماعت قائم ہو تی ہے اس میں بڑا چھو ٹا نہیں دیکھا جا تا ،ذات پا ت نہیں دیکھی جا تی ،علاقائی اور لسانی بنیا دوں پر تفریق نہیں ہوتی ،مالک، مزدور، غریب وامیر، کالا گورا اور ہر علاقہ کا آدمی جماعت میں شر یک ہو تا ہے، کسی کا نسب نہیں پو چھا جا تا ہے اور نہ زبان، نہ علاقہ پوچھا جاتاہے نہ مشاغل ،اسلام باہر کی زندگی میں بھی اسی سو چ کے پر وان چڑھا نے اوراسی فکر کو عام کر نے کی ضر ور ت پر زور دیتاہے ،آدمی کے جماعت میں شر یک ہونے کے لئے اتنی بات کا فی ہے کہ وہ محمد رسو ل اللہ کا کلمہ پڑھتاہے اور جن چیزوں پر اجمالی یا تفصیلی ایمان رکھنا ضرو ریا ت دین سے ہے وہ اس کا معتقد ہے ۔
اسلام کی یہی وہ روشن تعلیمات ہیں جس کی وجہ سے بلال رضی اللہ عنہ حبشہ سے آئے، صہیب رضی اللہ عنہ روم سے آئے ،سلمانؓ فارس سے آئے اورپتہ نہیں کتنے لو گ کن کن علاقوں سے آکر محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھ کر ایک امت اور ایک جماعت بن گئے اور ان کی در بار رسالت میں ایسی پذیرائی ہوئی اور ایمان کی حلاوت نے ان کے قلب میں ایسا گھرکر لیاکہ وہ وہیں کے ہوکر رہ گئے، دنیا کی ساری آسائشوں کو تج دیا ،بیوی بچے تک کو چھو ڑنا گوارہ کر لیا، لیکن ایک امت اور ایک جماعت بن کر زندگی گزارنے کا جو تصور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پید ا کیا تھا، اس سے سر مو انحر اف کو تیا ر نہیں ہوئے ،اس وحدت اور جماعت نے ان کوپو ری دنیا میں غالب کر دیا ۔اور اسلام کا جھنڈا سارے عالم پر لہر انے لگا ۔
بعد کے دور میں جماعت کایہ سبق ہم فرامو ش کر گئے ،چھوٹے چھوٹے مفادات کے لئے ہم ٹکروں میں بنٹ گئے دل بنٹے، ادارے بنٹے اور پھر مساجد بھی بنٹ گئیں، کسی دل جلے نے ایک شہر کا تذکرہ کر تے ہوئے بجا فرما یا تھا کہ وہاں دیوبندیوں کی مسجد ہے ،بریلیوں کی مسجد ہے، اہل حدیث کی مسجد ہے ،راعین ،شیخ ،سید اورپٹھا نو ں کی مسجدیں ہیں، لیکن پورے شہرمیں کوئی بھی مسجد اللہ کے نام کی نہیں ہے ،جس مسجد سے ہمیں اتحاد کا سبق ملتاتھا ،اجتماعیت کا سبق ملتاتھا ،جوڑ کا سبق ملتا تھا اسے آج توڑنے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے ۔یہ ایک افسوسناک صورت حال ہے، ہمیں اس صور ت حال کو ہر حال میں بدلنا ہو گا ،پوری مغربی طاقتیں اور خود اس ملک کی فر قہ پرست قو تیں ہمیں صفحۂ ہستی سے مٹانا چاہتی ہیں ،ہمارا قصور صرف یہ کہ مغرب کی خدا بیزار اور ہندوستان کی بت پرست طاقتوں کے مقابلے میں ہم اللہ کی بڑائی کا اعلان کرتے ہیں اورروئے زمین پر خدا کی الوہیت اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسا لت کی تبلیغ کرتے ہیں ۔
       جب اس ملک کے پڑھے لکھے لو گوں پر بھی جنون طاری ہوتاہے اوربھا گلپور ،ہا شم پورہ، ملیانہ، احمد آباد اعظم گڑھ، اوردہلی میں ظلم کی تاریخ رقم ہوتی ہے تو کوئی نہ ذات پات پو چھتا ہے ،نہ علاقہ اور نہ مسلک و مشرب ،ظلم کی تلو ار چلنے کے لئے یہ بات کا فی ہوتی ہے کہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھتاہے ،کیسا عجیب المیہ ہے کہ غیر توہمیں ایک سمجھ کر یکساں سلوک کریں اور ہم اپنے معاشرہ میں مختلف عنوانوں سے بنٹے رہیں ،ذاتی جھگڑ ے اور چھو ٹے مفاد ہمیں اس منزل پر پہنچادیں کہ ہم اسلامی حمیت وغیر ت، اخلا ق ورواداری کو چھوڑکر دوسروں کے ساتھ جاملیں اور اپنے بھائی کو تکلیف پہونچانے کا کو ئی مو قع ضا ئع نہ ہونے دیں، تف ہے ہماری سو چ اور ہمارے کر دار پر۔
       اپنا محا سبہ بھی کیجئے اور اتحاد و اجتماعیت کے لئے راتوں کی تنہائی میں اللہ سے گڑ گڑاکر دعائیں مانگئے ،تاکہ ہم سب ایک امت اور ایک جماعت ظاہراً نہیں حقیقتاً بن جا ئیں۔ ﴿وماذالک علی اللہ بعزیز﴾۔