Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, December 6, 2020

دسمبر ‏کی ‏6 ‏تاریخ ‏کو ‏بابری ‏مسجد ‏کی ‏شہادت ‏کی ‏برسی ‏پر ‏ملک ‏میں ‏” ‏یوم ‏دعا ‏“ ‏یوم ‏سیاہ ‏منایا ‏گیا۔

میرٹھ میں بھی 6 دسبمر کو جمعیت علماء ہند کی جانب سے دعائیہ جلسے کا انعقاد کرتے ہوئے اس دن کو یوم دعا کے طور پر منایا گیا اور ملک میں موجود دوسری مساجد کی حفاظت کے لیے دعا کی گئی۔
5/5
نٸی دہلی /صداٸے وقت /ذراٸع /٦ دسمبر ٢٠٢۔
==============================
6 دسبمر سن 1992 کو ایودھیا میں بابری مسجد کو شہید کر دیے جانے کے بعد سے مسلم سیاسی سماجی اور ملّی تنظیموں کی جانب سے ہر سال اس دن کو یوم غم یوم دعاء یا ملک کے جمہوری نظام میں یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا رہا ہے۔ تاہم متنازع زمین کے مالکانہ حق کے معاملے میں سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ آ جانے کے بعد بھی مسلم سماجی اور ملّی تنظیمیں 6 دسبمر کو بابری مسجد کی شہادت کو یاد کرکے افسوس کا اظہار کرتی ہے۔
میرٹھ میں بھی 6 دسبمر کو جمعیت علماء ہند کی جانب سے دعائیہ جلسے کا انعقاد کرتے ہوئے اس دن کو یوم دعا کے طور پر منایا گیا اور ملک میں موجود دوسری مساجد کی حفاظت کے لیے دعا کی گئی۔
دسبمر سن 1992 کو ملک کی سب سے بڑی آبادی والے صوبے اُتر پردیش کے ایودھیا میں صرف ایک مسجد ہی نہیں منہدم کی گئی بلکہ اس ملک کے جمہوری نظام میں کسی بھی مہذب کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی آئینی قسموں اور اصولوں کو بھی پامال کر دیا گیا تھا۔
اُس دور کی حکومتوں سے لیکر عدالتوں تک نے اس واقعہ کو ملک کی تاریخ میں ایک سیاہ باب قرار دیا لیکن الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد اس ملک کی سب سے بڑی عدالت سے حق میں فیصلے کی امید کر رہا اس ملک کا مسلمان سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد اور بھی مایوس ہو گیا۔
بابری مسجد کے مالکانہ حق کی لڑائی لڑنے والی تنظیموں سے لیکر مسلم سماجی اور ملّی تنظیموں نے بھی مندر کے حق میں دیے گئے فیصلے کو عقیدت کی بنیاد پر دیا گیا فیصلہ قرار دیا لیکن ملک میں امن و امان فضا قائم رکھنے کے لیے اس فیصلے کو قبول کیا لیکن مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ان کے دلوں سے 6 دسبمر کا درد نہ کبھی کم ہوا اور نہ کبھی کم ہوگا لیکن اب کوشش یہ ہے کہ دوبارہ کسی اور عبادتگاہ کے ساتھ اس طرح کا واقعہ انجام نا دیا جائے۔