Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, December 14, 2020

شاندار ‏ماضی ‏کی ‏طلب۔۔۔۔منافقت ‏کے ‏ساتھ۔۔

تحریر /سمیع اللہ خان /صداٸے وقت /14 دسمبر 2020
=============================
مسلمانوں میں ہاہاکار مچی ہوئی ہے، ان کے حقوق مارے جارہے انہیں سوتیلے سلوک اور ظلم کی شکایت ہے، کچھ ہیں جو بامراد ہورہے ہیں، لیکن اکثریت کے گرد گھیرا تنگ ہوتا جارہاہے ! 
در ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺁﺝ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﻮ ایسا دین چاہیے ﺟﻮ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺎ ﮨﻮ، 
ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺑﺮﺍﺋﯽ ﮐﻮ ﺑﺮﺍﺋﯽ ﻧﮧ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺋﮯ ، 
ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ہم دوسروں میں ﺗﺒﻠﯿﻎ ﮐﺮﺗﮯ ﭘﮭﺮﯾﮟ لیکن ﺍﭘﻨﯽ ﺍﺻﻼﺡ ﺳﮯ زیادہ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﭘﺮ ﻧﻈﺮ رکھیں ۔
ماضی کے کارناموں پر ڈینگیں ہانکتے رہیں، ماضی کی کہانیوں میں پوری رات گزار دیں اور فجر کی نماز کو قتل کردیں، پھر جب ان کارناموں کو دوہرانے کی باری آئے تو ان کارناموں کے پہلے مرحلے سے ہی بدک جائیں، 
ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﮌﮬﯽ ،عمامہ،  ﻣﺴﻮﺍﮎ ﺍﻭﺭ ﻧﮑﺎﺡ ﮐﯽ ﺳﻨﺘﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﻮﮞ،  ﻟﯿﮑﻦ وقت کے طاغیوں ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺻﻔﺎ و ﻣﺮﻭﮦ ﭘﺮ ﭼﮍﮪ ﮐﺮﮐﮭﻞ ﮐﺮ ﺣﻖ ﮐﺎ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﺮﻧﺎ ﺷﺎﻣﻞ ﻧﮧ ﮨﻮ، جس میں مودی اور آر۔ایس۔ایس سے سمجھوتے کے لیے سیرت سے دلائل ڈھونڈ لائے جائیں مگر کشمیری مسلمانوں کے حق کے لیے نبوی مزاج کا گلا گھونٹ دیا جائے !!!
ﺟﺲ ﻣﯿﮟ کانوں کی لذت والی ﻧﻌﺖ ﺧﻮﺍﻧﯽ ﺗﻮ ﮨﻮ ﻟﯿﮑﻦ ﺭﺟﺰﯾﮧ ﺍﺷﻌﺎﺭ ﻧﮧ ﮨﻮﮞ  ! 
جہاں پرنسپل، مہتمم، امیر صاحب، صدر و سیکریٹری، حضرت و پیر صاحبان ، ماسٹر، منسٹر اور اپنے اپنے شخصی خداؤں کی چوکھٹ پر قصیدہ خوانی اور چاپلوسی کی مجالس منعقد ہوں لیکن ان کے احتساب کے اسلامی اصولوں کو دفن کردیا جائے ان پر تنقید حرام ہوجائے ! 
یہاں جو لائٹنگ میں دو چار لفظ  لکھ  بول لیتا ہے جو ذرا سا مفکر دانشور یا انٹلکچوئل ہوجاتا ہے اس کی نظر میں ہر دوسرا نوجوان انتہاپسند، ایکسٹرمسٹ، جنونی اور شہرت کا بھوکا ہوتاہے، 
 ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﷺ ﮐﺎ رحمۃ ﺍﻟﻠﻌﺎﻟﻤﯿﻦ ﮨﻮﻧﺎ ﺗﻮ معلوم ہو، ﻟﯿﮑﻦ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﷺ ﮐﺎ ﺧﻮﺩ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﭘﺴﻨﺪ ﮐﺮﺩﮦ ﻧﺎﻡ ﻧﺒﯽ ﺍﻟﻤﻼﺣﻢ ﷺ ‏( ﺟﻨﮕﻮﮞ ﻭﺍﻻ ﻧﺒﯽ ‏) جان کر بھی جاننا نہيں چاہتے، 
ماضی کے شاندار واقعات سے اپنے اسٹیج سجانا چاہتےہیں، ایک سے بڑھ کر ایک بہادری کی لوریاں سنا کر کریڈٹ بھی لینا چاہتےہیں، لیکن خود کوئی اقدام کرنا نہیں چاہتے، اگر کوئی کرنا چاہے تو وہ اشتعالی انفعالی جذباتی یا دہشتگرد ہے_

ہم ایسا دین چاہتےہیں، ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺻﺎﻑ ﺻﺤﺎبہء کرام ؓ ﺗﻮ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺌﮯ ﮔﺌﮯ ﮨﻮﮞ ﻟﯿﮑﻦ ﺻﺤﺎﺑﮧ ﮐﺮﺍﻡ ﺭﺿﻮﺍﻥ ﺍﻟﻠﮧ علیھم ﺍﺟﻤﻌﯿﻦ ﮐﯽ ﺳﻨﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﻮﺭﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﻮ ﺗﮩﯽ ﮨﻮ ! جہاں مدحِ صحابہ اور حبِ صحابہ کو پیشہ بنالیا جائے لیکن نقوشِ صحابہ کو روند دیا جائے 
 عظمتِ صحابہ کا نعرہ ہو اسلاف و اکابر کے نام پر باہم دست و گریبان ہوں ان عظمائے اسلام کے نام پر مسلمانوں میں گروہ بندیاں تو ہوں لیکن خلافتِ راشدہ اور اسلامي عظمت رفتہ کی واپسی کا نام آتے ہی بدک جائیں 
ﺟﮩﺎﮞ ﺑﻼﻝ ﺣﺒﺸﯽ ﷺ ﮐﺎ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﮭﯿﺴﭩﺎ ﺟﺎﻧﺎ ﺗﻮ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﻮ ﻟﯿﮑﻦ ﮨﻤﺎﺭے ﺩﯾﻦ ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﻨﺎ ﻣﻌﺪﻭﻡ ﮨﻮ، 
ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺑﺎﮨﺮ ﻏﻞ ﻏﭙﺎﮌﮦ ﮐﺮﻧﮯ ، ﺁﻭﺍﺭﮦ ﮔﺮﺩﯼ ﮐﺮﻧﮯ ، ﺍﻣﺖ ﻣﺴﻠﻤﮧ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺁﻧﭽﻞ ﺍﺗﺎﺭﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎزﺕ ﺗﻮ ﮨﻮ ﻟﯿﮑﻦ، 
ﻣﻌﺘﺼﻢ ﺑﺎﻟﻠﮧ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻗﺎﺳﻢ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﯽ ﺍﻣﻨﮓ ﭘﯿﺪﺍ ﻧﮧ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﮨﻮ، 
ﺟﮩﺎﮞ مسلمان بچوں ﮐﻮ گاندھی اور  مارکس ﮐﮯ ﻗﺼﮯ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﮨﻮﮞ ﻟﯿﮑﻦ ﺳﯿﺪﻧﺎ عبداللہ بن عباس،  سیدنا ﺍﺑﻮﺩﺟﺎﻧﮧ ، ﺳﯿﺪﻧﺎ ﺿﺮﺍﺭ، ﺳﯿﺪﻧﺎ حسن و ﺣﺴﯿﻦ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ عنھما ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺪﻧﺎ ﻋﺒﺪﺍﻟﻠﮧ ﺑﻦ ﺯﺑﯿﺮ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟٰﯽ ﺍﺟﻤﻌﯿﻦ ﺟﯿﺴﮯ ﺟﻠﯿﻞ ﺍﻟﻘﺪﺭ شیر دل عظیم اسلامی ہیروز ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﺗﮏ ﻧﮧ ﮨﻮ، 
جہاں مغربي جدید تخلیقات کے کارنامے تو یاد کرائے جاتےہیں لیکن، اصمعی، ابنِ ترک، خوارزمی، کندی، طبری، فرغانی، رازی، فارابی، ابن الہیثم، سینا، البیرونی اور خیام جیسے اعلیٰ دماغ بھلا دیے جاتےہیں 
ﺟﮩﺎﮞ ﭼﮭﯿﻨﮏ ﺁﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﻋﻠﯽ ﺳﮯ ﺍﻋﻠﯽ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺍﻭﺭ ﻃﺒﯿﺐ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﮨﺘﻤﺎﻡ ﺗﻮ ﮨﻮ ﻟﯿﮑﻦ 
" ﻭﮨﻦ " (یعنی موت کا خوف جس کی وجہ سے ذلّت کی زندگی پر راضی ہیں )  اس  ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﮐﺎ ﻋﻼﺝ ﺗﻮ ﺩﻭﺭ ﺍﺱ بیمارﯼ ﺳﮯ  واقف بھی نہیں ہونا چاہتے، 
ایسے مسلمان بننا چاہتےہیں جو  اپنی مسلمانی چھپائیں، ايسے سیکولر بننا چاہتےہیں کہ اسلام کا نام زبان پر نا آئے، ایسے دانشور بننا چاہتےہیں کہ مادی نظریات سے تو خوب خوب استدلال کریں اور ان سے تمغے سجائیں لیکن کامل اسلام اور نظریاتی اسلام سے بدکتے ہیں، 
ملحدانہ نظریات کے نعرے لگانا چاہتےہیں لیکن اپنی تہذیب و تمدن سے منہ پھیرتے ہیں، 
ان اقوام کے ساتھ رہتےہیں جو اپنی شناخت، تشخصات اور نظریات ڈنکے کی چوٹ پیش کرتےہیں  ہم ان کا لیبل اپنے پر لگوانے کی فراق میں رہتےہیں اُن کی چکاچوند ان کے چمکتے میڈیا اور شہرت کی اسٹریم میں خود کی جگہ بنانے کے لیے اوندھے منہ گرے جاتےہیں لیکن اپنی خود کی اسٹریم خود کی عالمی اسلامی امت کی مین اسٹریم کو وہی وقار و مقام دینے کے لیے تیار نہیں 
 
*دوٹوک یہ کہ آج کا مسلمان بشمول عام و خاص ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﺎ ﺩﯾﻦ چاہتاہے جس کی بنیاد ﯾﮧ ہو ﮐﮧ وہ  ﺍﯾﺴﺎ ﺟﺪﯾﺪ ﺩﯾﻦ ہو،  ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﻣﺎﻝ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺧﻮﻑ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺟﺎﻥ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻄﺮﮦ ﮨﻮ*
*اور ﯾﻘﯿﻨﺎً ﺁﺝ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﯽ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺑﻨﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﻼﺷﺒﮧ ﺍﯾﺴﺎ ﺩﯾﻦ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﺩﯾﻦ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺩﻭﺭ ﮨﮯ، اور ﺟﺐ ﮨﻤﯿﮟ ﺩﯾﻦ ﺍﯾﺴﺎ ﭼﺎہیے تو ایسی کھلی منافقت کے ساتھ پیغمبر محمدﷺ، ابوﺑﮑﺮ ﺻﺪﯾﻖؓ، ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕؓ ، ﻋﺜﻤﺎﻥ ﻏﻨﯽؓ ﺍﻭﺭ ﻋﻠﯽؓ و ﺧﺎﻟﺪ ﺑﻦ ﻭﻟﯿﺪؓ  ﺟﯿﺴﺎ ﺷﺎﻧﺪﺍﺭ ﻣﺎﺿﯽ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺁﺋﯿﮕﺎ ؟؟؟؟!!*

*✍: سمیع اللّٰہ خان*
14 دسمبر ۲۰۲۰
ksamikhann@gmail.com