Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, December 7, 2020

امیر ‏صاحب۔۔الہ ‏آباد ‏ہاٸی ‏کورٹ ‏کا ‏یہ ‏فیصلہ ‏ضرور ‏پڑھٸے۔


ٹھیک ہے تمہیں سے سیکھا ہے ۔۔۔۔۔کچھ تم بھی تو ان سے سیکھ لو ۔

از / ایم ودود ساجد/ صداٸے وقت۔
==============================
مئو کے ایک نابالغ محمد سعد کو مئو پولیس نے دہلی کے مرکز تبلیغ کے اجتماع منعقدہ مارچ 2020 میں شرکت کی پاداش میں ماخوذ کرلیا تھا۔۔ محمد سعد کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 269 اور 270 کے تحت چارج شیٹ بھی تیار کرلی تھی۔۔ لیکن بعد میں پولیس نے سرکل آفسر کے کہنے پر یہ چارج شیٹ واپس لی اور ایک نئی چارج شیٹ دفعہ 307 کے تحت داخل کردی۔۔ 
دفعہ 270 -269 اس وقت عاید ہوتی ہے جب کوئی فرد جان بوجھ کر وبائی مرض کے انفیکشن کو پھیلانے کا سبب بنے۔۔۔ جبکہ دفعہ 307 اس ملزم پر عاید ہوتی ہے جو کسی کو قتل کرنے کے ارادہ سے گولی مارتا ہے یا جان لیوا حملہ کرتا ہے۔۔ مئو کے سرکل آفسر کی بدنیتی کی یہ بدترین مثال ہے کہ تبلیغی جماعت میں جانے کی پاداش میں ایک نابالغ کے خلاف دفعہ 269-270 کو ہٹاکر اس سے زیادہ سنگین دفعہ 307 لگانے کی ہدایت دی۔۔۔ 
اس کے خلاف محمد سعد نے الہ آباد ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی۔۔ جسٹس اجے بھانوٹ کی بنچ نے پولیس' سی او اور ایس پی کو سخت پھٹکار لگاتے ہوئے کہا کہ تبلیغی اجتماع میں شرکت کرنے والے محمد سعد کے خلاف دفعہ ارادہ قتل کے الزام کے تحت چارج شیٹ کرنا قانونی عمل کے ناجائز استعمال کی ایک کریہہ مثال ہے۔۔۔ عدالت نے اس معاملے میں مزید کارروائی پر روک لگادی ہے۔۔۔ اگلی سماعت 15 دسمبر کو ہوگی۔۔ عدالت نے ایس پی اور سی او کو ہدایت دی ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا جوابی حلف نامہ داخل کریں ۔۔۔
            علامتی تصویر 

پورے ملک میں مختلف مقامی عدالتیں یہاں تک کہ ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ تک سینکڑوں افراد کو باعزت بری کرچکی ہیں اور ہر عدالت میں ایک ہی طرح کے فیصلے لکھے گئے ہیں ۔۔ مگر اس کے باوجود ملک کے دوسرے حصوں میں سینکڑوں تبلیغی افراد اب بھی مصائب وآلام جھیل رہے ہیں ۔۔۔ ان کے مقدمات  لڑنے کیلئے نہ کوئی مرکزی قانونی ٹیم کام کر رہی ہے اور نہ ہی تبلیغی جماعت کا ہیڈ کوارٹر ان کی کوئی رہنمائی کر رہا ہے۔۔۔
 پولیس اور افسروں سے تو اس سے بھی برے سلوک کا یقین رکھنا چاہئے لیکن یہ ہمیں کیا ہوگیا ہے۔۔۔ کیوں ہم نے نابالغ بچوں تک کو ظالموں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا ہے۔۔۔ سوچتا ہوں کہ اگر یہ صورت سکھوں کے ساتھ پیش آئی ہوتی تو اب تک پورے ملک میں ماخوذ ان کا ایک ایک فرد بعافیت گھر پہنچ چکا ہوتا اور جان بوجھ کر سخت دفعات میں پھنسانے والے افسران جیل کی سلاخوں کے پیچھے نہ سہی عدالتوں میں تو گھسیٹ ہی لئے گئے ہوتے۔۔ پھر بھی ہم اپنی تعریف کرتے نہیں تھکتے کہ کسانوں (سکھوں)  نے تو ہم سے سیکھا ہے۔۔۔ ٹھیک ہے تمہی سے سیکھا ہے۔۔۔ کچھ تم بھی تو ان سے سیکھ لو۔۔۔۔