Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, December 27, 2020

مولانا ‏بدر ‏الدین ‏اجمل ‏کے ‏خلاف ‏شکنجہ ‏کسنے ‏کی ‏تیاری۔۔۔۔۔


ہندوستانی مسلمانوں کے مضبوط سیاسی رہنما مولانا بدرالدین اجمل کیوں نشانے پر ہیں؟ مولانا بدرالدین اجمل کے خلاف القاٸدہ سے پیسہ لینے کا الزام لگایا جارہا ہے۔
از/ سمیع اللہ خان / صداٸے وقت /27 دسمبر 2020.
==============================
 آج میں نے ہندو جاگرتی منچ کے آفیشل پر مولانا بدرالدین اجمل کےخلاف شائع ایک خبر پڑھی، ہندو جاگرتی کی سائٹ پر اس اشاعت کو دیکھ کر مجھے تشویش ہوئی کیونکہ یہ آر۔ایس۔ایس کے ہندوتوا آرگن میں سے ایک ہے، اگر ایسے لوگ کوئی خبر وغیرہ شائع کررہےہیں تو اس کا مطلب یہ ہیکہ حکومتی سسٹم اور ہندوتوا لیڈروں سے انہیں یہ ہدایات ملی ہیں، اس کے بعد سرچ کرنے پر دیکھا کہ بڑی تعداد میں بھارتیہ جنتا پارٹی، اس کا سَنگھی آئی۔ٹی سیل اور پرو۔ آر۔ایس۔ایس تنظیمیں، مولانا بدرالدین اجمل، ان کی سیاسی پارٹی AiUDF " آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ " اور ان کی تعلیمی و رفاہی تنظیم " اجمل فاؤنڈیشن " کےخلاف سنگین نوعیت کے الزامات عائد کرتے ہوئے کافی دنوں سے پروپیگنڈہ چلا رہےہیں _
 مولانا بدرالدین اجمل کے خلاف القاعدہ سے پیسے لینے کا الزام ہے، یہ الزام ہے کہ انہوں نے ترکی کی ایسی آرگنائزیشن سے پیسہ لیا ہے جو القاعدہ سے مربوط ہے
 بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈر ہیمنت بسوا نے الزام لگایاہے کہ " مولانا بدرالدین اجمل اور ان کی پارٹی کے حامیوں نے سِلچار ہوائی اڈے پر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے تھے " 
 مولانا بدرالدین اجمل کے خلاف سنگین دفعات کے تحت ایف۔آئی۔آر کر مقدمہ تک درج کیا جاچکا ہے 
 گواہاٹی کمشنر آف پولیس پرساد گپتا نے بتایاکہ: 
 بیرون ممالک سے مشتبہ انداز میں پیسے لاکر ان کا مشکوک استعمال کرنے کےمعاملے میں اجمل فاؤنڈیشن کے خلاف پولیس کیس درج کیاگیاہے، پولیس معاملے کی جانچ کررہی ہے، ان کےخلاف مزید سنگین الزامات عائد کیے جاسکتے ہیں_
 *مولانا بدرالدین اجمل بھارت کے موجودہ ہندوتوا استعمار اور آر۔ایس۔ایس کی نگاہ میں کیوں کھٹکنے لگے ہیں ؟* 
 مولانا اجمل صاحب دراصل ہندوستانی مسلمانوں کے مخلص اور ترقی پسند رہنماﺅں میں سے ایک ہیں، مولانا بدرالدین اجمل صاحب نے خوشبوؤں کی تجارت کے ذریعے پہلے تو اپنی زمین کو مضبوط کیا، پھر قومی کاز اور مسلمانوں کی خاطر وہ سیاست میں آئے، انہوں نے اپنی ریاست میں سیاست کی، اور مسلسل محنت کرتے ہوئے بالآخر صوبے میں مسلمانوں کے سیاسی نمائندہ بن کر ابھرے اور پارلیمنٹ میں نمائندگی بھی کرتے ہیں، آسام جیسے  پچھڑے اور پسماندہ مقام پر مسلسل زمینی جدوجہد کرتے ہوئے ایسے مقام پر پہنچنا بڑی زبردست کامیابی اور امید افزاء نظیر ہے، مشہور اور چکاچوند والے علاقوں میں ہر کوئی کام کرنا چاہتاہے لیکن اصل میں جدوجہد تو آسام جیسے علاقوں میں کام کرنا ہے، مولانا اجمل نے محنت کی اور کامیاب ہوئے، اور آہستگی کے ساتھ آگے بڑھتے رہے، ۲۰۰۵ میں انہوں نے سیاسی پارٹی بنائی، یہاں تک کہ اس کے بعد 2016 کے الیکشن میں ان کی پارٹی کو ریاست میں " کِنگ میکر " پارٹی کے طورپر دیکھا جارہاتھا، مولانا اجمل آسام کے " ڈھبری " سے تیسری دفعہ لوک سبھا الیکشن جیت کر پارلیمنٹ پہنچے ہیں، 2016 میں اجمل صاحب کی پارٹی نے چودہ سیٹوں پر زبردست جیت حاصل کی تھی، اس کے علاوہ اجمل فاونڈیشن کا تعلیمی کام کاج شاندارہے، تعمیری اور ترقیاتی ہے، اس فاؤنڈیشن کے ذریعے وہ اپنی قوم اور انسانی برادری کے غریب بچوں کو تعلیم دلوا رہےہیں، اس کےتحت اعلیٰ تعلیم کے مختلف پروجیکٹس ہیں، غریب و نادار بچوں کی کفالت کے سینٹرز ہیں، ان کا یہ فاونڈیشن مسلمانوں میں کیسا زبردست کام کررہاہے کہ حالیہ نیٹ انتخابات میں اجمل فاونڈیشن کے کئی بچوں نے کامیابی حاصل کی اور  ٹاپر شعیب آفتاب بھی اجمل فاونڈیشن کا طالبعلم رہا ہے، اس کے علاوہ مختلف شعبوں میں اجمل فاونڈیشن کے اسٹوڈنٹس پہنچ رہےہیں، ان کے علاوہ مولانا بدرالدین اجمل کی ذات اور شخصیت سے فایده اٹھانے والے ملّی کارکنان، اہل مدارس، اہلِ تعلیم و صحافتی برادری کے افراد کی بہت بڑی تعداد ہے
 *درج بالا تفصیل سے آپکو معلوم ہوا ہوگا کہ مولانا اجمل صاحب صرف ایک شخص نہیں شخصیت اور بااختیار صاحب حیثیت انسان ہونے کے ساتھ مؤثر سیاستدان ہیں، انہوں نے چیخ و پکار اور مذہبی استحصالی نام کی سیاست نہیں کی، انہوں نے پورے بھارت کے مسلمانوں میں خود کو بحیثیت مسلم لیڈر سب پر مسلط نہیں کیا بلکہ اپنی آسام جیسی ریاست میں ہی خود کو مضبوط کیا اور اس ریاست میں اب وہ بھاجپا کو روکنے کے لیے ایک پوزیشن پیدا کرچکے ہیں، اور آنے والے آسام الیکشن میں مولانا بدرالدین اجمل صاحب نے اپنی پارٹی کے ساتھ اپوزیشن پارٹی کانگریس سے اتحاد کرکے بھاجپا کو اقتدار سے بےدخل کرنے کا ارادہ کیا ہے، اور یہ بات بھارتیہ جنتا پارٹی کو کھٹک چکی ہے، کیونکہ ایسا کرنے سے ہندوستان میں اپوزیشن مضبوط ہوگی اور اگر اپوزیشن مضبوط ہوتی ہے تو بھاجپا کا بنتا ہوا ہندوتوائی کھیل بگڑنے لگےگا… اسلئے مولانا بدرالدین اجمل کےخلاف ظالم استعمار شکنجہ کسنا چاہتاہے "*
مولانا بدرالدین اجمل چاہتے تو وہ بھی آسام میں دو تین سیٹ جیت کر ملک بھر کی سیٹوں پر انتخاب لڑنے پہنچ جاتے، نفسیاتی طورپر بھاجپا کو فائدہ پہنچاتے، اور ملک میں مرکزي سرکار کے خلاف اپوزیشن کو کمزور کردیتے، لیکن وہ سمجھدار اور مخلص انسان ہیں، انہوں نے ایسا نہیں کیا، کیونکہ وہ جانتےہیں کہ ایک پورے ملک کا لیڈر بن جانے کا خواب دیکھنا اور اپنے اس خواب کے لیے قوم کو قربان کرنا، گناہ کا اور خیانت کا کام ہے، ایسا کرنے سے ہوسکتا ہے ملک کے ہر ہر صوبے سے پانچ۔دس۔پندرہ سیٹیں مل بھی جاتیں، لیکن وہ ایسی  پچاس سیٹیں بھی حاصل کرلیں تو بھی پارلیمنٹ میں اپوزیشن کےبغیر تنہا اُن پچاس کی کوئی آئینی اور فیصلہ کن حیثیت نہیں ہوتی،
*ہم نے بھرپور طریقے سے ہندوستان میں سیکولر سیاست کے نام پر مسلمانوں کے استحصال اور نام نہاد سیکولر جمن پارٹیوں کی مخالفت کی ہے لیکن اگر جمہوری ہندوستان میں رہنا ہے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ آپکو اپوزیشن کےساتھ ملکر سیاست میں اپنی حصے داری حاصل کرنی ہوگی، اپوزیشن سے کٹ کر آپ جمہوری ملکوں میں کچھ نہیں کرسکتے*
 جمہوریت کے سسٹم کے داؤ پیچ نہ سمجھنے والے مسلمان منقسم ہندوستان میں روز بیوقوف بنائے جاتےہیں، ان کو چیخنے چلانے اور ان کے دلوں میں موجود غصے اور بخار کی اسٹیج پر ترجمانی کرنے والا نیتا چاہیے، جس سے انہیں آئینی طورپر، سسٹم کی فیصلہ کن اسٹیج پر کچھ بھی فائدہ نہیں ہوناہے، اس کی چیخ و پکار سے آپکے خلاف کوئی ایک قانون رکنے والا نہیں کیونکہ وہاں آپکو ۲۵۰ سے زائد سیٹیں چاہیے ہوتی ہیں ۵ اور پچاس سے کچھ نہیں ہوگا کبھی بھی، اور مسلمان ۲۵۰ والے ٹارگٹ تک تبھی پہنچ سکتاہے جب وہ اپنی اپنی ریاستوں میں مضبوطی حاصل کرے، اپنی ریاست میں اپنی سیاسی نمائندگی اپنے ریاست کے مخلص مسلم لیڈروں کے حوالے کریں اور پھر ہر ریاست والے لوک سبھا میں فیصلہ کن مواقع پر اتحاد کریں، یہ کام مولانا بدرالدین اجمل اور ان کی پارٹی نے آسام میں کیا ہے، اسلیے وہ دشمن کو کھٹکنے لگے ہيں، یہی کام کیرالہ میں انڈین یونین مسلم لیگ نے کیا ہے اور وہ ہندوستان میں مسلمانوں کے کامیاب ترین سیاسی نمائندے ہیں، لیکن افسوسناک امر یہ ہیکہ زمینی سطح پر ہندوستانی مسلمانوں کے ایسے کامیاب، مخلص، فکرمند اور جدوجہد کرنے والے سیاسی لیڈران جوکہ پارلیمنٹ میں بھی ہمارے نمائندہ ہیں ان کو قوم یاد نہیں کرتی، لیکن دشمن انہیں ضرور گھیرتا رہتاہے کیونکہ وہ جانتاہے کہ اگر مسلمانوں میں ایسے لوگ زیادہ ہوگئےتو پھر اُن کے لیے مشکل ہوجائےگی 
 مولانا بدرالدین اجمل، AiUDF اور اجمل فاؤنڈیشن کے لیے دل سے دعائیں ہیں، نیک خواہشات اور سلامتی کی سوغات ہیں _

*سمیــع اللّٰہ خان*
27 دسمبر ۲۰۲۰ 
ksamikhann@gmail.com