Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, January 3, 2021

مولانا ‏سید ‏ابو ‏اختر ‏قاسمی۔۔۔حیات ‏و ‏خدمات ‏۔

حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی:حیات وخدمات _______ میرے مطالعہ کی روشنی میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عبد الرحیم برہولیاوی
استاد معہدالعلوم اسلامیہ چک چمیلی ویشالی (بہار)9308426298 
Abdurrahim.barhulia@gmail.com 
                صداٸے وقت  
=============================
ابھی میرے مطالعہ میں نوجوان قلم کار، کئی کتابوں کے مصنف و مولف، ای ٹی وی بھارت اردو ارریہ کے جواں سال صحافی جناب محمد عارف اقبال، محلہ کٹرہیا پوکھر، شہر دربھنگہ کی تازہ تصنیف ”حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی:حیات وخدمات“ً پر مشتمل ایک علمی و فکری کتاب ہے۔ 1960ء __ 2020ء تک دینی علمی اور اصلاحی خدمات انجام دینے والے ریاست بہار بالخصوص متھلانچل کےمشہور عالم دین حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی کی شخصیت پر لکھے گئے مضامین کو یکجا کرکے کتابی شکل دی گئی ہے۔
حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی صاحب نے متھلانچل میں چھ دہائیوں تک دینی،علمی، فکری اور دعوتی خدمات انجام دی ہیں، ضرورت تھی کہ حضرت مولانا کے خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے کوئی وقیع  کتاب منظر عام پر آتی، تاکہ حضرت مولانا کی خدمات کو محفوظ کرلیا جاتا، اللّٰہ نے اس کام کے لئے صحافی محترم عارف اقبال صاحب کو توفیق بخشی، انہوں نے اس اہم کام کا بوجھ اپنے کاندھوں پر لیا اور اس کام میں مصروف ہوگئے، عارف اقبال صاحب اس سے پہلے امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدین رحمۃ اللہ علیہ پر ان کی زندگی میں ہی ایک قیمتی علمی کتاب "باتیں میر کارواں کی" (سوانح حیات) پر کام کر چکے ہیں، کتاب بہت مقبول بھی ہوئی اور ہاتھوں ہاتھ لی گئی، حضرت امیر شریعت م سید نظام الدین صاحب کے انتقال کے بعد ایک دوسری کتاب "امیر شریعت سادس:نقوش و تاثرات" کےنام سے ترتیب دی، یہ کتاب بھی بہت مقبول ہوئی، راقم الحروف کا مضمون بھی اس کتاب میں شامل ہے۔
عارف اقبال صاحب کا پڑھنے لکھنے کا شوق زمانۂ طالب علمی ہی سے رہا ہے، آپ پہلے قومی تنظیم میں بچوں کے صفحہ کے لئے لکھنا شروع کیا اور یہ سلسلہ چلتا رہا اور آج اپنا نام قلم کاروں کی فہرست میں بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
عارف اقبال صاحب کی تعلیم مدرسہ امدادیہ دربھنگہ،مدرسہ اسلامیہ جامع العلوم مظفرپور، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی، دہلی یونیورسٹی دہلی، پٹنہ یونیورسٹی اور الفلاح یونیورسٹی ہریانہ میں ہوئی، گویا کہ عارف اقبال نےاپنی تعلیم مدرسہ اور یونورسیٹی دونوں جگہ حاصل کی ہے اور دونوں جگہ کے ماحول سے فائدہ اٹھا یا ہے اور بزرگوں کی خدمت میں بھی رہے ہیں۔
ہمارے یہاں اکابرعلماء اور بزرگوں کی خدمات کا اعتراف عام طور پر انکے مرنے کے بعد ہی کیا جاتا ہے، اس روایت کو عارف اقبال نے توڑا ہے، 478/صفحات پر مشتمل اس کتاب کی اشاعت  کا کام کریٹیو اسٹار پبلی کیشنز، جامعہ نگر دہلی سے کرایا ہے، اس کتاب کی قیمت =/500 روپے ہے، آپ بھی اس کتاب کو نویلٹی بکس، قلعہ گھاٹ دربھنگہ، بک امپو ریم، سبزی باغ پٹنہ، مکتبہ النور دارالعلوم دیوبند، مدرسہ اسلامیہ جھگڑوا دربھنگہ سے حاصل کر سکتے ہیں۔
مرتب کتاب نے کتاب کا انتساب اپنے اساتذہ، بزرگوں، قدردانوں اور دوستوں کے نام، پھر اپنے والدین کے ‌نام کیا ہے، یہ کتاب سات ابواب پر مشتمل ہے، پہلے باب میں فہرست مضامین اور عناوین درج ہیں، جس میں عکس تحریر (مکتوب) حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی صفحہ15 پر درج ہے۔
اس باب میں مکتوب بنام مرتب کتاب، امیر شریعت حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب صفحہ22 تا 24 پر درج ہے، جو ‌نہایت ہی اہم اور حوصلہ افزا کلمات کے ساتھ مرتب کتاب عارف اقبال کو حضرت امیر شریعت نے لکھا ہے، دعائیہ کلمات حضرت مولانا اشتیاق احمد صاحب نے لکھا ہے، مقدمہ عارف اقبال، مرتب کتاب ‌نے صفحہ29 تا 40 بہت تفصیل سے لکھا ہے، جو پڑھنے کے لائق ہے۔ حرف تحسین کے عنوان سے حضرت مولانا بدر الحسن قاسمی کویت نے لکھا ہے، پیش لفظ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کا تحریر کردہ ہے، اظہار خیال کے عنوان سے حضرت مولانا محمد قاسم مظفر پور ی نوراللہ مرقدہ نے لکھا ہے، تقریظ حضرت مولانا انیس الرحمان قاسمی صاحب کی ہے، قلبی تاثرات سابق مرکزی وزیر ڈاکٹر شکیل احمد ‌نے لکھا ہے، اس کو پڑھ کر ڈاکر شکیل احمد صاحب کا اردو سے دلی لگاؤ اور بزرگوں سے قلبی محبت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، حرف محبت کے عنوان سے معروف نقادجناب حقانی القاسمی صاحب نے لکھا ہےجس سے کتاب کی جامعیت کا پتا چلتا ہے ۔
دوسرا باب: "نقوشِ حیات" کے عنوان سے صفحہ 65 تا 133 ہے، اس باب میں پہلا مضمون دارالعلوم دیوبند وقف دیوبند کے استاذ حدیث مولانا شمشاد رحمانی قاسمی صاحب کا "حضرت مولانا سید ابو اختر: ایک اثر انگیز شخصیت" درج ہے، اسی باب میں شاعر و ادیب فضیل احمد ناصری قاسمی صاحب کا مضمون بھی صفحہ 79 تا 85 پر موجود ہے، جس کا عنوان ہے "وہ اختر جو بہار کے افق پر آج بھی روشن ہے"، مولانا فضیل احمد ناصری قاسمی نے خوب ڈوب کر لکھا ہے، صفحہ 86 تا 99 پر انجینئر عادل اختر عادل کا مضمون "میرے ابو جان" کے عنوان سے درج ہے، جو حضرت مولانا کے صاحب زادے ہیں، انہوں نے بھی اچھا لکھنے کی کوشش کی ہے، اس باب میں مولانا اشرف عباس قاسمی، مولانا خالد نیموی قاسمی، مفتی آفتاب غازی، سید گلفشاں بانو، حذیفہ حسن اور قاری نسیم اختر قاسمی کے مضامین شامل ہیں۔
کتاب کا تیسرا باب "مشاہدات و تاثرات" کے عنوان سے صفحہ 149 سے شروع ہو تا ہے، اس باب میں پہلا مضمون مولانا ابوالکلام قاسمی شمسی صاحب کا "حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی: مصلح قوم و ملت" درج ہے، وہ لکھتے ہیں کہ: مولانا سید ابو اختر قاسمی با صلاحیت استاد، مشہور خطیب اور نامور عالم دین ہیں، یہ خطابت اور اصلاحی تقریروں سے زیادہ جانے پہچانے جاتے ہیں، مولانا کا نام ہی دینی جلسوں کی کامیابی کے ضمانت دیتا ہے، صفحہ 154 پر مشہور صاحب قلم ادیب، مدیر ہفتہ وار نقیب، و رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، و نائب ناظم امارت شرعیہ مفتی محمد ثناء الھدیٰ قاسمی کا مضمون بھی شامل باب ہے، مولانا ‌نے حضرت مولانا ابو اختر قاسمی اور ان کا درس حدیث کے عنوان سے بہت کھل کر تفصیل سے لکھا ہے، مفتی صاحب لکھتے ہیں کہ مولانا کے حوالے سے جو کام کر نے کا ہے، وہ ان کے علمی افادات کو یکجا کر کے شائع کر نا ہے، ان افادات میں سب سے اہم کام ان کا "درس حدیث" ہے، مفتی صاحب کا مضمون صفحہ 159 پر ختم ہو تا ہے۔ اس کے بعد "جہد مسلسل کا ایک معتبر نام: مولانا سید ابو اختر قاسمی" کے عنوان سے پروفیسر شکیل احمد قاسمی، اورینٹل کا لج پٹنہ سٹی کا مضمون بھی شامل ہے، امارت شرعیہ کے قائم مقام ناظم حضرت مولانا محمد شبلی القاسمی صاحب کا مضمون "حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی: ایک تاثر" بھی درج ہے، صفحہ 169 تا 179 پر مشہور صحافی کالم نگار صفی اختر صاحب کا طویل اور تفصیلی مضمون "عندلیب شہر: حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی" درج ہے، صفی اختر صاحب لکھتے ہیں کہ "مولانا محترم کے اندر شاعری کا بھی پا کیزہ ذوق ہے، انہوں نے وقت اور زمانہ کے مزاج کو سمجھتے ہوئے انہی خطوط پر اپنی نا فعیت کے ساتھ عوام و خواص کے درمیان پتے کی باتیں کی اور کا میاب رہے"، آگے لکھتے ہیں: "ہماری خوش قسمتی ہے کہ وہ میرے استاد بھی تھے، یہی میرے لئے باعث افتخار ہے"، اس باب میں مفتی احمد نادر القاسمی، پروفیسر مولانا اعجاز احمد، مفتی عبدالسلام قاسمی، ڈاکٹر مشتاق احمد، مولانا عبدالکریم قاسمی، پروفیسر ایم کمال الدین، پروفیسر شمیم باروی، آچاریہ شوکت خلیل، ڈاکٹر عطا عابدی، ڈاکٹر منظر سلیمان، غفران ساجد قاسمی، ڈاکٹر ایوب راعین، ڈاکٹر منصور خوشتر، مولانا ارشد فیضی، سیف اسلام قاسمی، مولانا احمد حسین قاسمی، ڈاکٹر احسان عالم، قاری فرید عالم صدیقی، مولانا خالد سیف اللہ ندوی، حافظ صلاح الدین المفتاحی کے مضامین بھی شامل ہیں۔
چوتھا باب: "تعلیمی و تنظیمی خدمات" کے عنوان سے صفحہ 277 تا 299 ہے، اس باب میں ڈاکٹر عبد المتین قاسمی، محمد عمر انصاری، قاضی ارشد رحمانی، محمد قمر عالم فخری کی مضامین درج ہیں۔
اس کتاب کا پانچواں باب: "خطابت و ظرافت" کے عنوان سے صفحہ 305 سے شروع ہوتا ہے۔ اس باب میں پہلا مضمون ڈاکٹر عبد الودود قاسمی صاحب کا ہے، جو حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی کی تمثیلی خطابت سے شروع ہوتا ہے، ڈاکٹر عبد الودود قاسمی لکھتے ہیں کہ "مولانا ابو اختر قاسمی کاش اگر تخلیقی پہلو پر بھی تھوڑا وقت صرف کیے ہوتے، تو آج ان کا شمار ان کی بہترین تمثیل بیانی مرقع کشی اور طنز و مزاحیہ انداز بیان کی وجہ سے اردو مزاح کے ایک بلند پایہ ادیب و انشائیہ نگار میں ہوتا؛ کیوں کہ مولانا کہ پاس ذخیرۂ الفاظ کے ساتھ بر محل اشعار، چست درست فقرے، زبان پر دسترس اور قدرت کاملہ حاصل ہے ،،۔ صفحہ 318 پر محترم نور السلام ندوی صاحب کا مضمون "حضرت مولانا سید ابو اختر قاسمی،خطابت و ظرافت کے آئینے میں" وہ لکھتے ہیں کہ "مولانا ابو اختر صاحب متنوع خصوصیات اور جامع کمالات کے مالک ہیں، شفیق مربی، بہترین استاد، ذی استعداد عالم دین، شعلہ بیان مقرر، کامیاب منتظم، بذلہ سنج اور زندہ دل انسان ہیں"، اس باب میں مزید مولانا عرفان سلفی، رضوان‌احمد ندوی، ڈاکٹر عبد الودود قاسمی، مولانا محمد عالم قاسمی، مفتی عین الحق امینی‌قاسمی، مفتی محمد نافع عارفی کے مضامین شامل ہیں، اس باب کا اختتام صفحہ365 پر ہوتاہے۔
کتاب کا چھٹا باب بھی بہت اہم ہے "شاگردوں کی نظر میں" یہ باب صفحہ371سے شروع ہوتاہے، اس باب میں مولانا وصی احمد صدیقی قاسمی نوراللہ مرقدہ، فضل رحمانی، اے این شبلی، سہیل احمد رحمانی، قاری افضل امام فاروقی، مولانا نوشاد احمد قاسمی، فاتح اقبال ندوی قاسمی، ڈاکٹر سرفراز عالم، شاہنواز بدر قاسمی، ڈاکٹر محمد وجیہ الحق، محمد عاصم بدر کے مضامین شامل ہیں، جو کہ صفحہ 423 تک ہے۔ ان لوگوں نے مولانا ابو اختر قاسمی صاحب کو جیسا دیکھا اور پایا، جو چیزیں مولانا سے حاصل کی ہیں، ان سب کو بڑے تفصیل اور سلیقہ سے پیش کیا ہے، ان کو پڑھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ مولانا کی مقبولیت اپنے شاگردوں میں بھی بہت خاص تھی، مولانا کا اندازِ تربیت منفرد اور نرالا تھا، اپنے شاگردوں میں بھی اپنی الگ خاص شناخت رکھتے تھے۔
اس کتاب کا ساتواں اور آخری باب صفحہ 433 سے شروع ہوتا ہے، جس کا آغاز منظوم تاثرات سے ہوتا ہے، ذماں برداہوی صاحب نے پہلا منظوم کلام "نذرانۂ عقیدت" پیش کیا ہے،اس کے بعد "میرے سمدھی" کے عنوان سے صفحہ 435 پر پروفیسر خلیل الرحمٰن سلفی نے‌ اپنا منظوم تاثرات پیش کیا ہے، اس کے بعد ڈاکٹر امام اعظم صاحب نے صفحہ 435 تا 436 پر "رئیس علم‌:حضرت مولانا ابو اختر قاسمی" کے عنوان سے دو صفحات پر مشتمل معیاری منظوم تاثرات پیش کیے ہیں، اخیر کے اشعار دیکھیں،
امام بھی ہیں، مدرس بھی اور خطیب بھی ہیں
نظام دین سے بالواسطہ قریب بھی ہیں
تمام درجے ہیں ان کے بلند اے اعظم
کہ خوش خیال بھی ہیں آپ، خوش نصیب بھی ہیں
اس باب میں عر فان احمد پیدل، منور عالم راہی، امان ذخیروی، مفتی اشتیاق احمد قاسمی، ابو نصر فارہق صارم، مظہر مجاہدی بھاگلپور ی، عادل اختر عادل کا بھی منظوم تاثرات شامل ہے، 452 صفحہ پر یہ باب ختم ہوتا ہے۔
صفحہ 456 پر عبادہ صفی متعلم جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کا انگریزی زبان میں مضمون شامل ہے ،صفحہ 458 پر قمر اشرف سینیر جر نلسٹ ہندوستان ٹائمز کا مضمون بھی شامل ہے۔ 
آخری 16صفحات میں مولانا ابو اختر قاسمی صاحب کی چند یاد گار نایاب تصاویر کو جگہ دی گئی ہے، ایک صفحہ پر دار العلوم دیوبند کی سند فضیلت کو لگایا گیا ہے، اس ضخیم کتاب کے مطالعہ کے لئے کافی وقت در کار ہے، کتاب کی ترتیب بھی سلیقے مندی سے کی گئی ہے، تصاویر بھی درج کرکے یاد داشت محفوظ کر لی گئی ہے۔
کتاب کی طباعت بھی عمدہ ہے، 
بیک کو ر پر ڈاکٹر ابو بکر عباد، شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی، دہلی کا کتاب اور مرتب کتاب پر ایک جامع مضمون موجود ہے، جو کتاب کے حسن میں اضافہ کرتا ہے، ڈاکٹر ابو بکر عباد صاحب لکھتے ہیں کہ
 "مولانا ابو اختر قاسمی اسلاف کی یادگار، طالب علموں کے لئے روشنی کا مینار اور نئی نسل کے لیے قابل تقلید ‌نمونہ ہیں، اشد ضرورت تھی کہ ان کی شخصیت اور کارناموں کو مبسوط شکل میں وسیع پیمانے پر عوام کے سامنے پیش کیا جائے؛ تاکہ ہماری علمی، تہذیبی اور سوانحی روایت کی اشاعت اور تحفظ کا کام تعطل کا شکار نہ ہو۔میں عارف اقبال صاحب کو اس علمی کام پر پُر زور مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ تصنیف و تالیف کا یہ سلسلہ یوں ہی رواں دواں رہے گا اور دستاویزی حیثیت کی یہ کتاب اہل علم کہ حلقہ میں مقبول ہوگی۔“