Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, February 7, 2021

اسلامی قانونِ وراثت کے امتیازات*



از/ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی/صدائے وقت
۔۔۔۔۔۔ُُُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ُُُ۔۔۔۔۔

           جماعت اسلامی ہند ، حلقۂ اترپردیش (مغرب) نے وراثت کے موضوع پر ایک ہفتہ (19 تا 26 فروری 2021) مہم منانے کا فیصلہ کیا ہے ، جس میں مختلف پروگراموں ، عوامی اجتماعات ، کارنر میٹنگس ، پریس کانفرنس ، خواتین کے خصوصی اجتماعات وغیرہ کے ذریعے تقسیمِ وراثت کے بارے میں مسلم معاشرہ میں بیداری لانے کی کوشش کی جائے گی _ آج بعد نمازِ عشاء اس کا ایک تفہیمی پروگرام منعقد ہوا ، جس میں نظمائے علاقہ جات ، نظمائے اضلاع ، امرائے مقامی اور منتخب ارکان (مرد و خواتین) شریک ہوئے _ شرکاء کی تعداد دو سو (200) سے زائد تھی _ اس میں مرکز اور حلقہ کے متعدد ذمے داروں نے اظہارِ خیال کیا اور مہم کی تفصیلات سے شرکاء کو آگاہ کیا _ مجھ سے خواہش کی گئی کہ میں اسلامی قانونِ وراثت کا تعارف کرادوں _ میں نے جو گفتگو کی اس کا خلاصہ درج ذیل نکات کی شکل میں پیش خدمت ہے :

(1) اسلام چاہتا ہے کہ کسی شخص کے مرنے کے بعد اس کی مملوکہ چیزیں اس کے قریبی اعزا میں تقسیم ہوں _ اس طرح مال کچھ لوگوں کے قبضے میں محصور ہو کر نہیں رہ جاتا ، بلکہ مختلف لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچتا ہے _

(2) دیگر مذاہب اور تہذیبوں میں خواتین کو وراثت کا مستحق نہیں سمجھا گیا ہے _ اسلام نے اس میں خواتین کا بھی حصہ مقرر کیا اور انہیں ادائیگی کی تاکید کی _ (النساء :7)

(3) مالِ وراثت چاہے جتنا کم ہو یا چاہے جتنا زیادہ اور جیسا بھی مال ہو اس کی تقسیم ضروری قرار دی گئی _ یہاں تک کہ اگر کوئی ایسا مال ہو جو عورتوں کے کام آنے والا نہ ہو پھر بھی اسے تمام مستحقین کے درمیان تقسیم کرنا ضروری قرار دیا گیا _ (النساء :7)

(4) وراثت کی تقسیم اختیاری (Optional) نہیں رکھی گئی کہ تقسیم ہو تو بہتر ہے ، نہ ہو تو بھی کوئی بات نہیں ، بلکہ اسے لازمی (Compulsory) قرار دیا گیا _ (النساء :7)

(5) تقسیمِ وراثت اسلام میں اسی طرح فرض ہے ، جس طرح نماز ، روزہ زکوٰۃ ، حج ، وغیرہ  _ (النساء :7)

(6) تقسیمِ وراثت کی بنیاد فقر اور ضرورت پر نہیں ہے کہ جو رشتے دار زیادہ غریب اور ضرورت ہو اسے زیادہ دے دیا جائے اور جو صاحبِ حیثیت ہو اسے کم دیا جائے ، بلکہ اس کی بنیاد رشتے پر ہے _ قریب ترین رشتے داروں کی موجودگی میں دور کے رشتے دار محروم ہوں گے _ ماں ، باپ ، شوہر یا بیوی ، بیٹا ، بیٹی کو ہر حال میں ملے گا _ اولاد نہ ہو تو بھائی بہن کو ملے گا _ وہ نہ ہوں تو بھتیجوں کو ملے گا _  بیٹے ہوں تو پوتے محروم ہوں گے ، وغیرہ _

(7) احکامِ دین کے بارے میں عموماً صرف اصولی باتیں قرآن مجید میں بیان کی گئی ہیں ، تفصیلات و جزئیات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہیں ، لیکن وراثت کی تمام جزئیات قرآن مجید ہی میں بیان کردی گئی ہیں _ اللہ تعالیٰ نے احکامِ وراثت کی توضیح و تشریح کا کام اپنے پیغمبر پر نہیں چھوڑا ہے _ وہ بھی سورۂ النساء کی صرف چند آیات میں _ وہ ہیں : 7 تا 14 اور 176 _

(8) وراثت کے حصے سورۂ النساء کی صرف تین آیات میں مذکور ہیں : 11، 12 اور 176 _

(9) تقسیمِ وراثت کو 'اللہ کی حدود' سے تعبیر کیا گیا ہے ، جن کی پامالی اللہ کی ناراضی کو دعوت دیتی ہے اور اس کا غضب بڑھاتی ہے _(النساء :13)

(10) تقسیمِ وراثت پر جذباتی انداز میں ابھارا گیا ہے  _ کہا گیا ہے کہ اگر تمھارے انتقال کے بعد کوئی تمھارے مال پر قبضہ کرلے اور تمھارے بچوں کو محروم کردے تو تمھیں کتنا بُرا لگے گا _اسی طرح تمہیں اس وقت بھی سوچنا چاہیے جب تم مالِ وراثت پر قبضہ کرلو اور مستحقین کو نہ دو _ (النساء :9)

(11) کہا گیا کہ جو لوگ اللہ اور رسول کے احکام کی اطاعت کرتے ہوئے وراثت تقسیم کریں گے انہیں اللہ جنت میں داخل کرے گا جس کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے _ ایسے لوگ عظیم کام یابی سے ہم کنار ہوں گے _ (النساء :  13)

(12) وراثت کی تقسیم نہ کرنے پر بہت سخت الفاظ میں دھمکی دی گئی _ کہا گیا کہ جو لوگ یتیموں کا مال کھالیتے ہیں وہ حقیقت میں اپنے پیٹ آگ کے انگاروں سے بھرتے ہیں اور وہ بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈالے جائیں گے _( النساء : 10) مزید کہا گیا کہ جو لوگ اللہ اور رسول کی نافرمانی کرتے ہوئے مستحقین کو وراثت سے محروم کریں گے انہیں اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ میں جھونک دے گا ، جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے _(النساء :  14)

(13) مسلم سماج میں تقسیمِ وراثت کے معاملے میں بہت زیادہ غفلت پائی جاتی _ عموماً عورتوں کو وراثت سے محروم رکھا جاتا ہے _ جہیز کا چلن عام ہوگیا ہے ، جس کی بنا پر سمجھ لیا گیا ہے کہ چوں کہ لڑکی کو بہت کچھ جہیز دے دیا گیا ہے ، اس لیے وراثت میں اب اس کا کچھ حصہ نہیں _ جہیز دینے والے اور اس کی بنا پر وراثت نہ دینے والے دوہرا غلط کام کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی دو نافرمانیاں کرتے ہیں _ جس عمل کی کوئی شرعی حیثیت نہیں (جہیز) اسے خوب اہتمام سے کرتے ہیں اور جس کی بہت تاکید کی گئی ہے (تقسیمِ وراثت) اسے انجام نہیں دیتے _ ایسے لوگ دہری سزا کے مستحق ہوں گے _

(14) کوئی مسلمان نماز نہ پڑھے ، صحت مند ہونے کے باوجود روزہ نہ رکھے ، مال دار ہونے کے باوجود زکوٰۃ نہ نکالے تو اسے بے دین سمجھا جاتا ہے ، لیکن اگر کوئی مسلمان مالِ وراثت پر قبضہ کرلے اور دوسرے مستحقین کو نہ دے تو اس کی دین داری پر کوئی آنچ نہیں آتی اور وہ پوری طرح محفوظ رہتی ہے _ علماء کی جانب سے تقسیمِ وراثت کی اہمیت نہیں بیان کی جاتی _ جمعہ کے خطبوں میں اسے موضوع نہیں بنایا جاتا _ عوامی مجلسوں پر اس پر وعظ نہیں کہے جاتے _

( 15) ضرورت ہے کہ تقسیمِ وراثت کو عوامی گفتگو کا موضوع بنایا جائے ، اس کے بارے میں بیداری لائے جائے اور خوش دلی کے ساتھ اس پر عمل کرنے کی آمادگی پیدا کی جائے _