Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, April 22, 2021

ڈاکٹر ابو الحسن اشرف بھی رخت سفر باندھ چلے. ‏

                                از
          حکیم فخر عالم- علی گڑھ/
                               صدائے وقت
++++++++++++++++++++++++++++++              
      مسلسل موت کی خبروں سے اب تو ذہن و دماغ بھی شل ہوئے جارہے ہیں۔ سوشل میڈیا کا ہر پلیٹ فارم موت کی خبروں سے پٹا پڑا ہے۔کس کس کو روئے آدمی! ۔ہر طرف پھیلے خوف و ہراس کے ماحول نے طبیعت میں افسردگی سی پیدا کررکھی ہے- وفیات کی خبروں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے۔ آج بھی موت کی دسیوں خبریں ملیں ،کچھ اپنے شہر کی تو کچھ عزیزوں اور دوستوں کی۔ان میں ایک نام ڈاکٹر ابو الحسن اشرف کا بھی نظر آیا،اللہ ! ابھی تو وہ بانکا جوان تھا، مگر موت بوڑھا ،جوان اور بچہ کب دیکھتی ہے،اس کے لیے تو سب لقمہ تر ہیں،وہ بھی کورونا کی اس مہاماری میں کہ جیسے موت کی آندھی چل رہی ہو اور سب لاشیں بن کر سوکھے پتے کی طرح گرے جارہے ہیں، ایسی حالت میں جب کہ پوری دنیامبتلائے آفت ہوتو کوئی خود کیسے مامون سمجھے۔اس طوفان بلا خیز میں ہرشخص موت کو اپنے ہی سامنے محسوس کررہا ہے۔
ڈاکٹر ابو الحسن اشرف (دائیں سے دوسرے نمبر پر)
       موت سے کس کو رستگاری ہے،مگر بعض ایسے ہوتے ہیں جنہیں بھولا نہیں جاسکتا۔ڈاکٹر ابو الحسن اشرف کی شخصیت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔ان کا وجود یونانی طب کے ایک تابناک ستارے جیسا تھا ،ایک ایسا ستارہ جس کی تابندگی سے ایک جہان روشن تھا۔ آج اس کے غروب ہونے سے ایک مغموم اندھیرا سا لگ رہا ہے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ ڈاکٹر ابو الحسن اشرف کی رحلت سے طبیعت بڑی سوگوار ہے، میری طرح طب کے سیکڑوں لوگوں کو ان کی موت کا صدمہ ہے۔
     ابو الحسن اشرف یونانی طب کے قائدین میں تھے،وہ تلنگانہ اسٹیٹ سے سنٹرل کونسل فار انڈین میڈیسن(CCIM) کے رکن رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ گورنمنٹ نظامیہ طبی کالج حیدرآباد اور گورنمنٹ نظامیہ جنرل ہاسپیٹل کمیٹی کے ممبر تھے، ان مناصب سے قطع نظر تلنگانہ میں یونانی طب کے فروغ سے جڑے ہر کام میں وہ پہلی صف میں نظر آتے تھے۔ڈاکٹر ابو الحسن اشرف نظامیہ طبی کالج حیدرآباد کے فارغین میں تھے۔
       حیدرآباد میں' عوامی دواخانہ' ہمیشہ ان کی یاد دلاتا رہے گا۔اسے ان کے والد حکیم محمد اشرف فرحت نے 1957 میں قائم کیا تھا،ابو الحسن اشرف کا بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے اسے ' اشرف میموریل یونانی اسپیشلٹی ٹریٹمنٹ سنٹر فار پیرا لیسس' کے نام سے معالجاتی تحقیق خصوصاً علاج بالتدبیر کا ایک بڑا مرکز بنا دیا تھا۔' عوامی دواخانہ' سے ملحق ایک بڑے قطعہ اراضی پر" نیر طب حکیم احمد اشرف اکیڈمی فار پبلک ہیلتھ اینڈ میڈیکل ہیریٹیج" کے نام سے 28 نومبر 2019 کو انہوں نے ایک بڑے ادارے کا سنگ بنیاد رکھا تھا، اس موقع پر ایک عالمی سیمینار بھی منعقد کیا تھا، بڑا کامیاب سیمینار تھا،اس میں ملک بھر سے مقتدر طبی شخصیتیں شامل ہوئی تھیں۔ابو الحسن اشرف کے کاموں میں ان کی اہلیہ شانہ بہ شانہ رہتی تھیں، اب تمام کاموں کی ذمہ داری انہیں کے دوش ناتواں پر ہے۔اللہ انہیں حوصلہ بخشے!
       ابو الحسن اشرف ایک ادارہ ساز شخصیت تھے،اتنی کم عمری میں جتنے بڑے ادارے انہوں نے کھڑے کیے ہیں،وہ ان کے بے پناہ حوصلے کے گواہ ہیں۔ان کے جانے سے نہ صرف یہ ادارے بے سہارا ہوگئے، بلکہ کئی ایسے ادارے معرضِ وجود میں آئے سے محروم ہو گئے جن کے قیام کی ان سے توقع تھی ۔
       ابو الحسن اشرف بڑے علم دوست اور اصحابِ علم کے قدر دان تھے۔ وہ میرے بڑے مداحوں میں تھے۔دوستی نبھانے کا انہیں بڑا اچھا سلیقہ آتا تھا، ان سے میرے تعلقات پچھلے دس برسوں سے تھے، ہمیشہ فون پر بات کرتے ہوئے تصنیفی مصروفیات کے بارےمیں ضرور معلوم کرتے اور خواہش رکھتے کہ کوئی بھی تحریر آئے تو فوراً ان کے پاس پہنچے۔ حیرت ہوتی ہے کہ مطب و معالجہ اور ادارہ جاتی نظم و نسق کی مصروفیات کے باوجود وہ مطالعہ کے لیے اتنا وقت کیسے نکالتے تھے کہ چند روز میں پوری پوری کتاب پڑھ ڈالتے اور فون کرکے اپنے تاثرات بیان کرتے۔ابو الحسن اشرف مطالعہ کے بڑے شوقین تھے،ان کے پاس کتابوں کا وسیع ذخیرہ تھا،اس کا کچھ حصہ تو انہیں والد سے ملا تھا اور معتد بہ حصہ انہوں نے اپنے شوق سے جمع کیا تھا۔علم کے ایسے شیدا اب کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ابو الحسن اشرف کی وفات سے یہ تعداد اور بھی کم ہوگئی ہے۔دس روز سے ابو الحسن اشرف اور ان کی اہلیہ کورونا میں مبتلا تھے،اہلیہ بحمد اللہ بہتر ہیں۔مگر ابو الحسن اشرف طبیعت بگڑنے کے بعد کامنینی ہاسپیٹل کنگ کوٹھی میں زیر علاج تھے، لیکن جانبر نہ ہوسکے اور ہزاروں کو سوگوار کرکے صبح ساڑھے آٹھ بجے بروزِ چہار شنبہ مورخہ21 اپریل 2021 مطابق 8 رمضان المبارک 1442ھ کو داعئ اجل کے بلاوے پر چلے گئے۔ حیدرآباد کی رحمانیہ مسجد میں ان کی نماز جنازہ ادا گئی اور آبائی قبرستان میں بزرگوں کے پہلو میں مدفون کر دیےگیے۔ اللہ انہیں غریق رحمت کرے اور ان کے درجات بلند تر فرمائے . آمین!