Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, April 21, 2021

کووڈ سچویشن ‏ اور ‏ ہمارے ‏ کرنے ‏کا ‏ کام ‏. ‏. ‏. ‏. ‏. ‏


از/سید سعادت اللہ حسینی
امیر جماعت، جماعت اسلامی ہند
                            صدائے وقت 
++++++++++++++++++++++++++++++
محترم رفقاء بھائیو اور بہنو۔۔!!
کووڈ-۱۹ کی وبا کی صورتحال اب پورے ملک میں گھمبیر ہو چکی ہے۔ جس طرح کی خبریں پورے ملک سے اور ملک کی مختلف ریاستوں سے آرہی ہیں وہ نہایت تشویشناک ہیں۔ ان حالات میں ہمیں یعنی تحریک اسلامی کے کارکنوں کو اپنی ذمہ داریوں کو بھرپور انداز میں کرنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت ہمیں تین کام کرنے ہیں:
۱۔ عوام میں شعور کو بیدار کرنے کا کام 
۲۔ متاثر لوگوں کی امداد کا کام 
۳۔انسانوں کو اپنے پیدا کرنے والے اور خالق و مالک کی طرف متوجہ کرنے اور اس وبا سے روحانی و اخلاقی سبق حاصل کرنے کا کام۔
الحمدللہ! ہمارے کئی حلقے اور مقامی جماعتیں ان کاموں کی طرف متوجہ ہیں لیکن اور بھی بقیا جماعتوں اور تمام ارکان و کارکنوں کو بھی اس پر بھر پور توجہ دینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ 

محترم دوستو۔۔۔! 
"کرونا معمولی کھانسی بخار ہے، مرنےوالے محض خوف سے مر رہے ہیں۔" یا
"ہسپتالوں میں انہیں مارا جارہا ہے۔" 
"احتیاطی تدابیر کی ضرورت نہیں ہے۔"
"ماسک فائدہ مند نہیں بلکہ نقصاندہ ہے۔"
اس طرح کی باتیں نا معقول باتیں ہیں۔ 

میں نے اپنی ایک تفصیلی تحریر میں واضح کیا ہیکہ پوری دنیا میں کوئی سمجھدار آدمی، کوئی معتبر عالم دین، کوئی اہم دینی راہنما، کوئی قابل ذکر سائنسداں یا ڈاکٹر ایسا نہیں ہے جو ان باتوں کی معمولی تائید کرسکتا ہو۔ یہ سب باتیں نیم خواندہ صحافیوں، یا سوشل میڈیا لکھاریوں کی باتیں ہیں جنہیں واٹس اپ یا سوشل میڈیا کے ذریعہ پھیلا یاجارہاہے۔ اور اب یہ نا معقول باتیں قیمتی انسانی جانوں کے زیاں کا سبب بن رہی ہیں۔ اس لئے معتبر ذرائع سے جو ٹھوس سائنسی معلومات ہمیں مل رہی ہیں۔ ان کو بنیاد بنا کر عوام میں بیداری لانے کا کام بڑے پیمانے پر کرنے کی ضرورت ہے۔ 

'موت کا خوف نہیں ہو نا چاہئے' اور 'اللہ پر بھروسہ ہونا چاہئے' اس بات سے زیادہ سچی بات اور کیا ہوسکتی ہے لیکن اس بات کو جس طرح کے رویوں کی تائید میں دلیل بنایا جارہا ہے اسکا اسلام اور اسکے معتقدات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے بلکہ یہ فلسفہ توکل کی نہایت غلط تشریح، الٹی تعبیر اور اسلام کی معکوس شہادت ہے۔

ایمان بے شک بہادری پیدا کرتا ہے لیکن وسائل اور اسباب کا انکار نہیں سکھاتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علاج بھی کرایا ہے اور احتیاطیں بھی کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں اس بات سے منع فرما یا ہیکہ ہم اپنی جانوں کو ہلاکت میں ڈالیں{وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَةِ: اور اپنے ہاتھوں خودکو ہلاکت میں نہ ڈالو۔البقرہ : ۱۹۵}

توکل کیا ہے؟
شدید مصیبت، بیماری یا تکلیف کے دوران موت کے اندیشوں کے دوران نفسیاتی اطمنان و سکون توکل ہے۔ کسی بڑےمقصد کی خاطر جان کا رسک لینا توکل ہے۔ انسانی جان بچانے کیلئے یا کسی بڑے مقصد کی خاطر اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنا موت سے بے خوف ہوکر اپنا معاملہ اللہ کے حوالے کرنا یہ توکل ہے۔

گلی کوچوں میں بے مقصد بغیر ماسک کے گھومنا مسجدوں میں صفوں کے درمیان بغیر ماسک کے ٹہر کر چھینکنا اور کھانسنا اور غیر ضروری مجلسیں سجانا یہ شجاعت توکل یا بےخوفی کی نہیں بلکہ نادانی جہالت اور حماقت کی علامتیں ہیں اور اگر سب کچھ جان کر سمجھ کر ہم یہ حرکتیں کریں تو یہ سفاکانہ بے حسی اور مجرمانہ انسان دشمنی کی علامتیں ہیں۔ 

دوستو۔۔!! 
ان سب حوالوں سے عوام کے اندر بیداری لانے کی ضرورت ہے لوگوں کو ماسک، سماجی دوری اور ہاتھوں کی صفائی کامقصد سمجھانا چاہئے۔ ماسک کا مقصد اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب ماسک سے منہ اور ناک اچھی طرح ڈھکے رہیں، ماسک ناک کے نیچے ٹکا ہوا ہے یا تھوڑی پر لٹکا ہوا رہے تو ایسے ماسک کا کوئی فائدہ نہیں ہے وہ صرف بنیادی سائنس سے ہماری ناواقفیت کا پردہ فاش کرتا ہے۔ سڑک پر ماسک پہن کر چلنا اور لوگوں کے درمیاں آتے ہی نکال دینا اسی طرح جب خاموش بیٹھے ہوں تو ماسک لگانا اور بولنا شروع کرتے ہی ماسک نکال دینا یہ سب نادانی کی علامت ہے۔ بولتے ہوئے منہ سے زیادہ ہوا نکلتی ہے اس وقت ماسک کی زیادہ ضرورت ہے۔ ماسک کی کئی قسمیں موجود ہیں جس ماسک میں ہم آرام محسوس کریں وہ منتخب کریں۔ ماسک سے ہرگز دم نہیں گھٹتا ہماری خواتین صدیوں سے اپنا چہرہ کپڑے سے ڈھانپتی رہی ہیں۔ 

اس لہر میں وائرس بچوں کے ذریعہ بھی پھیل رہا ہے۔ تو بچوں کو بھی احتیاطی تدابیر کی تربیت دینا ضروری ہے۔ جان کا تحفظ اسلامی شریعت کے مقاصد میں شامل ہے یہ انتہائی درجہ کی ناشائستگی اور بداخلاقی ہے کہ ہم اپنے نا معقول رویوں سے دوسروں کی جانوں کیلئے خطرہ پیدا کریں۔ 

اس وقت رمضان میں خاص طور پر مسجدوں میں نماز کے دوران بھرپور احتیاط کی ضرورت ہے۔ صف بندی کووڈ کے فتووں کے مطابق فاصلوں کے ساتھ ہو ہر نمازی لازما ماسک پہنے، بغیر ماسک کے مسجد میں انٹری نا ہو سینیٹائز کرنے کا انتظام ہو کوشش ہونی چاہئے کہ ہماری مسجدیں انسان دوستی اور صحت و صفائی سے متعلق ڈسپلین کی عملی تصویر پیش کریں۔ 

جن لوگوں میں کوئی علامت ہو بخار کھانسی وغیرہ انہیں لازما خود ہی لوگوں سے دوری بنائے رکھنی چاہئے۔ کووڈ کے زمانے میں بغیر ٹیسٹ کے اور بغیر میڈیکل مشورے کے یہ دعوی کرنا کہ میری چھینک اور میری کھانسی و زکام بخار محض موسمی ہے اور مجھے لوگوں سے دور رہنے کی ضرورت نہیں ہے یہ بے حسی، بداخلاقی کی علامت ہے۔ اس وقت سچویشن یہ ہیکہ ہر آدمی پوٹینشیل کووڈ پازیٹیو ہے۔ تمام احتیاطوں کے باوجود ہم بیمار ہوسکتے ہیں۔ تمام احتیاطوں کے باوجود موت آسکتی ہے، بیماری و شفا موت و زندگی اللہ کے ہاتھ میں ہے ہمارا کام صرف اسلامی تعلیمات کے مطابق عمل کرنا اور اسکے بعد معاملے کو اللہ پر چھوڑنا ہے۔ لیکن اس بات سے ہم کو اللہ کی پناہ مانگنی چاہئے کہ ہم اللہ کے حضور اس حال میں پہنچیں کہ دیگر انسانوں کی قیمتی جانوں کا اتلاف ہماری لاپرواہی کی وجہ سے ہماری گردن پر ہو۔ 

جو لوگ بیمار ہورہے ہیں انکا فوری علاج شروع کرانا چاہئے تجربات سے معلوم ہوتا ہیکہ جن مریضوں کا بروقت علاج شروع ہوا اور جنہوں نے ڈاکٹروں کی ہدایات پر سختی سے عمل کیا وہ آسانی سے صحت یاب ہوگئے علاج میں لاپرواہی اسے خاطر میں نا لانا بے بنیاد واٹس اپ پیغامات کی بنیاد پر غیر مصدقہ گھریلو ٹونٹکوں کو یا اَن آتھینٹک طریقوں میں وقت ضائع کرنا، ان رویوں سے اکثر پیچیدگیاں پیدا ہورہی ہیں۔ علاج معالجے کی آخری کوشش اور اسکے ساتھ اللہ سے دعا اور استعانت یہی مطلوب مومنانہ رویہ ہے۔ 

ان سب حوالوں سے، سب سے پہلے ارکان و کارکنان کو مثالی کردار مثالی رویہ پیش کرنا چاہئے۔ اور پوری سوسائٹی میں اس حوالے سے بیداری لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ دوسری بات یہ کہ یہ احتیاطیں ہم ضرور کریں لیکن احتیاط ہم کو اپنی انسانی ذمہ داری سے نا روکے اس کا خیال ہمیں ضرور رکھنا چاہئے۔ غیر ضروری جان کا رسک لینا حماقت ہے لیکن اپنی جان کے خوف سے دیگر انسانوں کی جانیں بچانے کی کوشش نا کرنا یا دیگر انسانوں کو مدد کی ضرورت ہے اس وقت مدد کیلئے آگے نا آنا یہ توکل کے فلسفہ کے خلاف ہے۔ 
ہمیں تمام ممکنہ احتیاطی تدابیر کے ساتھ پریشان حال لوگوں اور مریضوں کی مدد کیلئے آگے آنا چاہئے۔ان شاء اللہ اس کام میں اللہ کی مدد و نصرت شامل حال رہیگی۔ اللہ ہماری حفاظت کرے گا اور انسانوں کی خدمت کرتے ہوئے موت آجائے تو ان شاء اللہ یہ موت شہادت کی موت ہوگی۔ 

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے گویا ساری انسانیت کی جان بچائی۔ (وَ مَنْ اَحْیَاهَا فَكَاَنَّمَاۤ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- المائدہ:32)

ہم سب کو یہ موقع حاصل ہیکہ ہم انسانیت کو بچانے کی سعادت حاصل کریں۔ تمام احتیاطوں کے ساتھ مریضوں کی خبر گیری کیجئے۔ انہیں اکیلا نا چھوڑیئے۔ ان کو اسپتال پہنچانے اور علاج کی بروقت سہولت فراہم کرنے کی کوشش کیجئے۔ آکسیجن کی فراہمی میں مدد کیجئے جہاں ممکن ہو عارضی اسپتال قائم کیجئے۔ اپنی گاڑیوں کو عارضی ایمبولینس بنادیجئے اگر مریضوں کو معاشی مشکلات درپیش ہوں تو انکو حل کرنے کی ممکن کوشش کیجئے۔ ناگپور کی جماعت نے جس طرح کی کوشش کی ہے وہ ایک مثالی کوشش ہے ایسے کام زیادہ سے زیادہ مقامات پر ہوں اس کی کوشش ہونی چاہئے۔ کسی انسان کا آکسیجن کی خاطر تڑپ تڑپ کر مرنا یہ پوری انسانیت کی توہین ہے۔ ہم سب کی ذمہ داری ہیکہ ایسا ہونے نا دیں۔

ہماری خدمات بلا لحاظ مذہب و ملت فرقہ و ذات تمام انسانوں کیلیے ہونی چاہیے۔ہمارے ڈاکٹر پیرامیڈیکل اسٹاف وغیرہ اصل ہیرو ہیں انہیں خود بھی پوری بہادری کے ساتھ انسانیت کو بچانے کیلئے آگے آنا چاہئے۔ اور ہم سب کو، پوری سوسائٹی کو، انکی طرف دست تعاون دراز کرنا چاہئے انکی ہرممکن مدد کرنی چاہئے۔ وہ ہمارے محسنین ہیں۔ ہمارے عام نوجوان بھی ڈاکٹروں کے مشورے سے اور انکی رہنمائی میں ضروری ٹریننگ لے کر جو کچھ کرسکتے ہیں کرنے کیلئے آگے آئیں۔ غریب مریضوں کے گھروں کی خبر گیری کریں۔ مریضوں کے علاوہ حالات سے پریشان غریب مزدوروں اور پریشان حال لوگوں کا سہارا بنیں۔ 

لوگوں کا مورال بلند رکھیں۔ بے جا خوف اور نفسیاتی اضمحلال کا شکار ہونے نا دیں۔ یہ ایک آزمائش اور امتحان ہے اللہ تعالیٰ پر بھر پور بھروسہ رکھتے ہوئے، تو کل رکھتے ہوئے اللہ کے احکام کے مطانق اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے مطابق ہمیں ان حالات کا مقابلہ کرنا ہے۔ 
تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنی ہیں کہ یہ اللہ کا حکم ہے اور علاج اور مریضوں کی ہرممکن مدد کی بھی کوشش کرنی ہیکہ یہ اسلام کی تعلیمات کا تقاضہ ہے۔ اسکے بعد اللہ کی جو مرضی ہو اس پر راضی و مطمئین رہنا کہ یہی تو کل ہے۔ 

تیسری بات یہ موقع ہیکہ ہم اسلام کے پیغام رحمت ہونے کی عملی شہادت پیش کریں۔۔احتیاط علاج اور اسکے ساتھ موت سے بے خوفی اور اللہ پر تو کل اور اللہ بھروسہ کرتے ہوئے انسانوں کی بے لوٹ خدمات یہی اسلامی کردار ہے۔ اور اس کردار کا عملی نمونہ ہمیں پیش کرنا ہے۔ 

اس عملی شہادت کے ساتھ ہمیں اپنا وہ اصل کام بھی پوری استقامت کے ساتھ کرتے رہنا ہے جسکی طرف اس دوران میں نے بار بار توجہ دلانے کی کوشش کی ہے۔ یعنی انسانوں کو اپنے پیدا کرنے والے اپنے خالق و مالک کی جانب متوجہ کرنے کا کام۔۔! 

حالات نے انسانوں کے دل نرم کردئیے ہیں۔ ان دلوں میں اپنے احتساب اور خدا کی طرف پلٹنے کے جذبات کو پروان چڑھانا ۔ معاشرے کو اپنے اجتماعی گناہوں کے احتساب کی طرف متوجہ کرنا افراد کو اپنی انفرادی غلطیوں کے جائزے کیلئے آمادہ کرنا، یہ کام ہمیں اہل ایمان کے درمیان بھی کرنا ہے اور اللہ کے ان بندوں کے درمیان بھی کرنا ہے، جو خدا سے غافل ہیں۔ مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ۖ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ ۚ (النساء:79) اے انسان تجھے جو بھلائی بھی حاصل ہوتی ہے اللہ کی عنایت سے ہوتی ہے اور جو مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ تیرے اپنے کسب و عمل کی بنیاد پر آتی ہے۔ 

انبیاء علیھم السلام نے واقعات اور سانحات کو اس مقصد کیلئے استعمال کیا کہ لوگوں کو خدا پر ایمان لانے کی اس کی طرف پلٹنے کی، اور اسکی نشانیوں کو اسکی وارننگس کو سمجھنے کی دعوت دی جائے 
اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَذِكْرٰى لِمَنْ كَانَ لَهٗ قَلْبٌ اَوْ اَلْقَى السَّمْعَ وَ هُوَ شَهِیْدٌ(سورہ ق:37) کہ اس میں عبرت کا سبق ہے ہر اس شخص کیلئے جو دل رکھتا ہو یا جو توجہ سے بات کو سنے۔ 

آج ہمیں بھی یہ فریضہ ہر سطح پر اور ہر موقع کو استعمال کرکے انجام دینا ہے۔ رمضان کی مبارک ساعتوں میں ہم سب اپنے لئے اپنے عزیزوں کیلئے اور ساری انسانیت کیلئے دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ جلد از جلد اس آفت سے اس عالمی وبا سے ہم سب کو ساری انسانیت کو نجات عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے گناہوں کو معاف فرمائے۔ ہماری لغزشوں کو درگزر فرمائے اور ہم پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے۔ آمین!