Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, April 28, 2021

*'مولانا'وحیدالدین خان ، راحت اندوری اور آر ایس ایس*

                  تحریر 
غلام مصطفیٰ نعیم.. روشن مستقبل دہلی 
                   صدائے وقت. 
==============================
گذشتہ سال اگست 2020 میں مشہور شاعر راحت اندوری کا انتقال ہوا تھا۔تقریباً دس مہینے کے بعد 'مولانا' وحیدالدین خان بھی اس دار فانی سے رخصت ہوگئے۔دونوں ہی افراد بین الاقوامی سطح کی شہرت رکھتے تھے اور اپنے اپنے فیلڈ کے نامور شخص شمار کیے جاتے تھے۔اتنی یکسانیت کے باوجود دونوں میں خاصے تضادات بھی تھے، ظاہراً وحیدالدین خان صاحب ایک باشرع پابند صوم و صلوٰۃ مسلمان اور عالم دین کی شناخت رکھتے تھے تو راحت اندوری ایک بے ریش اور دنیا دار شاعر کے طور پر جانے جاتے تھے۔لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ آر ایس ایس کی نگاہ میں ایک بے ریش دنیا دار شاعر قابل تنقید تھا جبکہ ایک 'دین دار عالم' قابل تعریف تھا !!
                     مولانا وحید الدین خان 
---------------------------------------------------------
راحت صاحب کے انتقال کے بعد آر ایس ایس کی ہفتہ واری میگزین 'پانچ جنیہ' میں ڈاکٹر رام کشور اپادھیائے نے ایک تنقیدی مضمون لکھا تھا۔اپنے مضمون میں انہوں نے راحت صاحب کی شاعری پر نقد کرتے ہوئے کہا تھا:
"ان کی شاعری میں جہاں جہاں ہندوستان پر فخر کیا گیا وہ گاندھی کا ہندوستان نہ ہوکر مغلیہ ہندوستان ہے جس کے سلطان مسلمان ہیں۔وہ خود کو ہندوستانی اجداد کی جگہ مغلوں سے جوڑ کر اشعار لکھتے تھے۔"

مضمون نگار راحت صاحب کے خود کو مسلمان کہنے پر اس طرح تنقید کرتے ہیں:
وہ ایک مخصوص نظریے اور مخصوص مذہب کے حق میں رہے اور اسٹیج سے کھلے عام اعلان کرتے تھے کہ میں جتنا کٹّر ہندوستانی ہوں اتنا ہی کٹّر مسلمان ہوں۔"

2002 میں گجرات کے گودھرا حادثہ پر ان کا یہ قطعہ بہت مشہور ہوا تھا:
جن کا مسلک ہے روشنی کا سفر
وہ چراغوں کو کیوں بجھائیں گے
اپنے مردے بھی جو جلاتے نہیں
زندہ لوگوں کو کیوں جلائیں گے
                     راحت اندوری 
                 - - - - - - - - - - - - - - 
لیکن آر ایس ایس کی نگاہ میں یہ اشعار "اپنے مذہبی بھائیوں کا کھل کر بچاؤ کرنا" تھا۔

یہی نہیں بلکہ سوشل میڈیا پر بی جے پی کے آئی ٹی سیل نے راحت صاحب کے انتقال پر ٹوئٹر ٹرینڈ چلا کر خوشیوں کا اظہار کیا اور ان کے مشہور اشعار میں تحریف کرکے نہایت بدتمیزی کا مظاہرہ کیا گیا۔

اب ذرا تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھیں کہ ٹھیک دس مہینے کے وقفے پر وحیدالدین خان صاحب کا انتقال ہوا جن کی شہرت ایک "عالم دین" کی تھی۔جو ظاہراً ایک باشرع اور باعمل مسلمان نظر آتے تھے۔جیسے ہی ان کے انتقال کی خبر آئی تو آر ایس ایس کے کارگزار امیر "دتا ترے ہسابولے" اس طرح خراج عقیدت پیش کرتے ہیں:
"پدم بِبُھوشن مولانا وحیدالدین خان کے انتقال سے ملک نے اسلام کے ایک سچے عالم کو کھودیا ہے۔جو ہمیشہ مذہب کی صحیح تعبیر وتشریح کے ذریعے خیر سگالی اور اتحاد کا درس دیتے رہے۔آر ایس ایس ان کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتا ہے اور خدا سے دعا کرتا ہے کہ ان کی روح کو سکون ملے۔"

اس سے قبل خان صاحب کی "خدمات" سے خوش ہوکر بی جے پی حکومت نے سن 2000 میں انہیں ملک کے تیسرے بڑے خطاب "پدم بھوشن" سے نوازا تھا جبکہ کچھ وقت پہلے ہی مودی حکومت نے انہیں ملک کے دوسرے بڑے اوارڈ "پدم بِبُھوشن" سے نوازا۔اگر عمر وفا کرتی تو ان کی 'خدمات' کے عوض سب سے بڑا شہری اوراڈ "بھارت رتن" بھی مل سکتا تھا۔

یہ بات اپنے آپ میں کس قدر حیران کن ہے کہ آر ایس ایس جیسی تنظیم ایک بے عمل دنیا دار شاعر کے انتقال پر اس کی شاعری اور نظریات پر تنقید کرتی ہے۔اس کے کارکنان شاعر کی موت پر خوشیاں مناتے ہیں لیکن اسی تنظیم کا سربراہ ایک "دین دار عالم" کے انتقال پر رنج و غم کا اظہار کرتا ہے اور تنظیم کے کارکنان بھی مولانا کی وفات پر رنجیدہ نظر آتے ہیں۔

آخر کیا بات ہے کہ آر ایس ایس کو ایک دنیا دار شاعر میں "مسلمان" نظر آتا تھا۔

جبکہ ایک "دین دار عالم" میں اسے اپنا "ترجمان" نظر آتا تھا۔

سوچئے ، خوب سوچئے!

کیوں کہ یہ کہانی ان دو کرداروں پر ختم نہیں ہوئی۔ابھی داستان جاری ہے چہرے بدلیں گے ، کردار بدلیں گے مگر نظریات یہی رہیں گے۔

14 رمضان المبارک 1442ھ
27 اپریل 2021 بروز منگل