Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, April 18, 2021

*یہ مباہلہ ہے ہی نہیں*



از/سید فضیل احمد ناصری
آل الشیخ السید شہاب الدین کبیر زاہدیؒ، سابق امامِ کعبہ۔
                     صدائے وقت
=============================
بدشکل، بدبودار، بدسخن، بدفطرت یتی نرسمہانند نے پاک سیرت، پاک نہاد، پاک سخن، حسین صورت پیغمبرﷺ کی شان میں جس طرح گستاخیاں کی ہیں، ان سے ہر مسلمان کے دل چھلنی ہیں۔ اور طبیعت افسردہ۔ سچ یہ ہے کہ اہلِ ایمان عجیب قسم کی بے چینی میں زندگی کی سانس لے رہے ہیں۔ گویم مشکل، وگر نگویم مشکل۔ ایک طرف کورونا کے عنوان سے زندگی تنگ ہے اور دوسری طرف اس انسان نما خنزیر کی طرف سے تکلیف دہ باتوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ۔ مسلمان کرے بھی تو کیا، اور جائے بھی تو کہاں! امانت اللہ خان نے ٹوئیٹ کیا تو پورا حزب الشیطان ہم آواز ہو گیا۔ اس وقت کا قومی میڈیا بھی حزب الشیطان کا ہی اہم حصہ ہے۔ سچ کہیے تو موجودہ دور حزب اللہ اور حزب الشیطان سے کڑے مقابلے کا دور ہے، بس غم اس کا ہے کہ حزب اللہ ٹکڑوں میں منقسم ہے اور حزب الشیطان بنیان مرصوص بنا ہوا۔ حضورﷺ کے عہد کے عباد اللات و العزیٰ کے بارے میں اللہ نے کہا تھا: تحسبہم جمیعاً و قلوبہم شتیٰ۔ بظاہر متحد ہیں اور در پردہ منتشر، لیکن ہمارے دور کا حزب الشیطان بظاہر منتشر ہے اور بباطن متحد۔ یہی وجہ ہے کہ نرسمہا نند جیسا خبیث ابھی تک آزاد گھوم رہا ہے اور نبیﷺ کے طفیل میں سانس لینے والا محسنِ کائناتﷺ کے خلاف ہی زہر اگل رہا ہے۔ 

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کی موجودہ صورتِ حال میں ایسے گستاخ کے خلاف کیا تدبیر ہو سکتی ہے؟

 میرا خیال یہ ہے کہ اگر کچھ کرنے کی ہمت نہیں ہے تو مسلمان اس کا تذکرہ ہی نہ کریں، اپنے سوشل میڈیا پر اس کا حوالہ ہی نہ دیں، ہم جتنی بار اس کا ذکر کریں گے اسے ٹانک ملے گا۔ کتا بھونکنے لگے تو جواب میں ہم دامن بچا کے گزر جاتے ہیں یا اسے لٹھیا ڈالتے ہیں۔ لیکن ہم سے یہی نہیں ہوتا، ہر آدمی یوٹیوب پر ایک چینل کھولے ہوا ہے اور اس کی توسیع و ترویج کی فکر میں ایسی خبیث ترین چیزوں کو جگہ دے رہا ہے۔ حالانکہ زمانۂ نبویﷺ میں پیغمبرِ صادق کو کیا کیا گالیاں نہ دی گئیں، لیکن ہمارا ذخیرۂ علمی ان کے ذکر سے خالی ہے۔ کسی چیز کو چھیڑنا اس کی زندگی ہے اور اس کا ذکر نہ کرنا اس شر کو ختم کر دینا ہے۔ افسوس کہ یہ فلسفہ ہمیں آیا ہی نہیں۔ غیروں کی فتنہ انگیزیاں ہمارے خونِ جگر سے جلا پاتی ہیں۔
اور اگر کچھ کرنے کی ہمت ہے تو احتجاج کا راستہ اختیار کیا جائے۔ جب کسان چند گز زمینوں پر اپنا اختیار چھن جانے سے اپنی تحریک چھیڑ سکتے ہیں اور حکومت کو ناک رگڑنے پر مجبور کر سکتے ہیں تو حرمتِ رسولﷺ کے نام پر ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟ لیکن یہ ہم سے نہیں ہوگا، اس میں بھوک پیاس کی شدت ہے، حکومتی کار روائیوں کی دہشت ہے۔ ہم آرام کے شیدائیوں میں ان کی سکت کہاں! یہاں تو عالم یہ ہے کہ: 

کس کس کو یاد کیجیے، کس کس کو روئیے
آرام بڑی چیز ہے، منہ ڈھک کے سوئیے

ستم بالائے ستم یہ کہ ہماری صفوں میں خطرناک حد تک انتشار ہے۔ پچاس فرقے ہیں اور اکثر ایک دوسرے کی نظر میں کافر۔ دیوبندی کسی تحریک کو برپا کرتا ہے تو بریلوی اور دوسرے گروہ پلہ جھاڑ لیتے ہیں۔ بریلوی کوئی صدا لگاتا ہے تو اکثر جماعتیں اسے لامساسی بنا ڈالتی ہیں۔ جب تک ہماری صف میں یہ طاعون رہے گا، ہماری جان لیتا رہے گا۔

جمہوری ملک میں ہمارے پاس اظہارِ ناراضگی کے بس یہی دو راستے ہیں۔ ایک راستہ دعوت والا ہے، اسے ہم نے اپنی کاہلی سے طاقِ نسیاں کی یادگار بنا رکھا ہے۔ مناظرے کا اسٹیج بھی ہے، مگر یہ کتنا سود مند ہے، ساری دنیا جانتی ہے۔ ایک فریق پہلے ہی سے فتحِ مبین کا قدِ آدم اشتہار چھپوا لیتا ہے اور انعقادِ مناظرہ سے پیش تر ہی رونقِ دیوار بنا دیتا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ راہ بھی مفید نہیں۔ 

جہاں تک مباہلہ کا معاملہ ہے تو اس کی گنجائش موجود ہے، مگر افہام و تفہیم کے بعد۔ دارالعلوم دیوبند نے لکھا ہے کہ: 

*مباہلہ کہتے ہیں اگر کسی امر حق وباطل میں فریقین میں نزاع ہوجائے اور دلائل سے نزاع ختم نہ ہو تو پھر ان کو یہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ سب مل کر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ جو اس امر میں باطل پر ہو اس پر خدا کی طرف سے وبال اورہلاکت پڑے سو جو شخص جھوٹا ہوگا وہ اس کا خمیازہ بھگتے گا اس طور پر دعا کرنے کو مباہلہ کہتے ہیں اور یہ ضرورت کے وقت جائز ہے۔*

یہاں ایک غلط فہمی بھی دور کر دینا ضروری ہے، ایک طبقے کا خیال ہے کہ مباہلہ کا تعلق نبی کی ذات تک محدود ہے اور ان کے بعد منسوخ۔ یہ نظریہ صحیح نہیں ہے۔ جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن نے متعدد حوالوں سے یہ بات لکھی ہے کہ: 

*ہر ایسا معاملہ خواہ دینی ہو یا دنیاوی جس کا حق ہونا دلائلِ حقہ سے واضح ہوچکا ہو، اس کے باوجود مدِّ مقابل اسے تسلیم کرنے پر تیار نہ ہو، اور صاحبِ حق اپنی سچائی، یا دعوے کی سچائی ثابت کرنے کے لیے مباہلہ کرنا چاہے تو شرعًا اس کی اجازت ہے؛ کیوں کہ مباہلہ  رسول کریم صلی اللہ  علیہ وسلم کے ساتھ خاص نہ تھا، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرماجانے کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور ان کے بعد  کے زمانوں میں بھی مباہلہ کرنا ثابت ہے،  لہذا آج بھی اگر کوئی مباہلہ کرنا چاہے، تو کر سکتا ہے،  تاہم کسی جھوٹے معاملہ میں دھوکا دینے کے لیے ہر گز مباہلہ نہیں کرنا چاہیے، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے مباہلہ کے حوالہ سے تجربہ نقل کیا ہے کہ ناحق مباہلہ کرنے والے کو مباہلہ  کے بعد سال بھر بھی جینا نصیب نہیں ہوتا، یعنی سال مکمل ہونے سے قبل ہی وہ اللہ کی پکڑ کی لپیٹ میں  آجاتا ہے*

اب آتے ہیں مفتی سلمان ازہری کی دعوتِ آتش افروزی کی جانب۔ تو عرض ہے کہ شرعی معیار پر ناکامی کی وجہ سے اسے مباہلہ ہی نہیں کہیں گے، بلکہ زیادہ سے زیادہ اسے چیلنج کہیں گے۔ مباہلہ کا شرعی طریقہ اوپر لکھ دیا گیا ہے۔ سیدنا و سندنا حضورﷺ کا طرزِ مباہلہ بھی یہی تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں یا نہیں، کے عنوان سے نجران کے وفد سے بحث و مباحثہ ناکام ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے آیتِ مباہلہ نازل فرمائی، جس کا خلاصہ یہ ہے دونوں فریق اپنے گھریلو افراد کے ساتھ کسی میدان میں اکٹھے ہو جائیں اور ہر فریق نہایت تذلل و تضرع کے ساتھ کہے کہ اے اللہ! ہم میں جو جھوٹا ہے، اس پر لعنت برسائیے!! سیرت میں آتا ہے کہ آپ ﷺ حضراتِ حسنین، فاطمہ اور حضرت علیؓ کو لے کر میدان کی طرف بڑھے، عیسائیوں نے پہلے ہی شکست تسلیم کر لی اور مباہلہ نہیں ہو سکا۔

تاریخ میں ایسے واقعات بہ کثرت موجود ہیں کہ اللہ والوں کو آگ نے کوئی نقصان نہیں پہونچایا۔ سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں، مشہور تابعی حضرت ابومسلم خولانی ہیں۔ سیدنا حضرت خالد بن ولیدؓ زہر کا پیالہ پی گئے اور انہیں کچھ نہیں ہوا، مگر یہ سب بطور مباہلہ نہیں تھا۔ اول الذکر دو شخصیات کو زبردستی جھونکا گیا تھا، رہا خالد بن ولیدؓ جیسے جلیل القدر صحابی کا معاملہ، تو وہ اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے تھا کہ زہر فی نفسہ قاتل ہوتا ہے اور ارادۂ خداوندی کو کوئی دخل نہیں۔ کچھ لوگ جارج کے ساتھ ان کے مباہلے کی بات کہتے ہیں، یہ خالص افسانہ ہے۔

ہاں! شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کے آگ میں کودنے کی دعوت دینے والی بات درست ہے۔ مشہورِ زمانہ پادری فنڈر نے مسلمانوں کو چیلنج کیا کہ اگر تم سچے ہو تو قرآن لے کر آؤ، میں انجیل اور بائبل لے کر آتا ہوں۔ تم اپنا قرآن آگ میں ڈالو، میں اپنی کتابیں نذرِ آتش کرتا ہوں۔ جس کی کتاب جل گئی، اس کا دین سچا ہے۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ نے فرمایا: ایسا نہیں، یوں کر لو! تم اپنی کتابیں لے کر آگ میں کودو اور میں اپنا قرآن لے کر آگ میں گھستا ہوں۔ جو زندہ بچ گیا، وہ برحق ہے۔ وہ گھبرا کر بھاگنے لگا، لوگوں نے پکڑا اور وجہ پوچھی، تو کہنے لگا: انجیل پر تو مسالہ لگا لیا تھا تاکہ آگ نہ جلائے، اپنے جسم پر نہیں۔

اللہ جانے یہ واقعہ سچا ہے بھی یا نہیں، اگر سچ بھی ہو تو ہمارے لیے معیار قرآن و سنت ہے، اور قرآن و سنت میں مباہلہ کا طریقہ کیا ہے، وہ آپ پڑھ چکے۔

مفتی سلمان ازہری کی دعوتِ آتش افروزی پر بریلوی طبقے نے سوالات کھڑے کیے ہیں، انہیں بھی پڑھ لینا چاہیے: 

*دعوت مباہلہ دینے والے علما سے*
۔۔۔۔۔ *چند باادب سوالات*۔۔۔۔۔
(۱) مباہلے میں آپکا دعوی کیا ہے؟اور آپ کے مخالف کا دعوی کیا؟
(۲)آپ کا دعوی جو بھی ہو اسکی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے شریعت کیا آگ میں کود نے کی اجازت دیتی ہے؟
اگر ہاں ؟ تو اسکا ثبوت شرعی درکار، 
(۳)کیا ایمان کا معیار آگ میں کودنا اور آگ کا نہ جلانا ہے؟ اگر ایسا ہے تو اس کو دلائل شرعیہ سے مبرہن کیجئے
(۴)اس طرح کی دعوت مباہلہ دینے کے لئے شرعا کیا کوئی شرط بھی ہے؟ 
اگر جواب اثبات میں ہو تو وہ شرطیں کیا ہیں ؟
(۵)اس قسم کی دعوت مباہلہ ہر کلمہ گو جو ضروریات دین کا منکر نہیں ، کیا وہ دے سکتا ہے؟
(۶) دعوت مباہلہ دینے والے کا ایمان و عمل کس معیار کا ہونا چاہئے؟
(۷)آگ کی خاصیت جلانا ہے ، اس وجہ سے اگر کود نے والا جل گیاتو کیا اس بنیاد پر اسلام کو ناحق سمجھنا اور اس سے برگشتہ ہونا لازمی ہے؟
اگر ہاں ؟ تو ثبوت؟اور اگر نہیں تو مباہلہ “چہ معنی دارد”
(۸)اس ترقی یافتہ اور خطرناک ترین دور میں کوئی ایساکیمیکل جس کے لگا لینے سے اس پر آگ کا اثر نہیں ہوتا اگر غیر مسلم اس کا استعمال کرے اور اس بنیاد پر وہ جلنے سے بچ جائے تو کیا اس کو حق اور معاذ اللہ اسلام کو باطل قرار دیا جاسکتا ہے؟
(۹) آپ کو اس دعوت مباہلہ کا اہل کسی نے بنایا ہے ؟ یا آپ از خود بن گئےہیں ؟
(۱۰) آپ کی ذات کیا معیار حق ہے؟ اگر ہاں تو اس کی دلیل؟
*واضح ہو کہ آپ اگر جل بھی گئے تو اسلام کا کچھ نہیں بگڑیگا اور نہ پختہ ایمان والے کبھی برگشتہ ہونگے،البتہ ان پڑھ مسلمان بے دین ہوسکتے ہیں* 
اخیر اس کا ذمہ دار کون ہوگا؟
براہ کرم برا نہ مانیں اور ان کا شافی جواب عطا فرماکر ہمیں مطمئن کریں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ *مخلص*۔۔۔۔۔۔۔۔ 
۔۔۔۔*سید آل رسول حبیبی ہاشمی*۔۔۔
۔۔۔۔۔۔*سجادہ نشین*۔۔۔۔۔۔۔۔
*خانقاہ قدوسیہ،بھدرک شریف،اڈیشا ، انڈیا*

باتیں بہت سی ہیں، خلاصہ یہ کہ مفتی سلمان ازہری کا عمل مباہلہ نہیں کہا جا سکتا۔ اگر چیلنج کا مسنون طریقہ اپناتے تو بے تکلف تائید کے بارے میں سوچا جا سکتا تھا، لیکن بحالتِ موجودہ تائید کی کوئی صورت نہیں۔ مفتی صاحب کی دعوتِ آتش افروزی نے سیاہ باطن ہندؤوں کو اور بھی بھڑکا دیا ہے۔ پہلے ایک نرسمہانند مکروہ شکل لے کر سامنے آیا تھا، اب ہزاروں نرسمہانند تیار ہو چکے ہیں۔ ہمیں جوش میں ہوش کبھی نہیں کھونا چاہیے۔