Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, May 16, 2021

اسرائیل کی حالیہ جارحیت اور ہماری ذمے داری. ‏. ‏

از/  ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی/صدائے وقت. 
==============================
گزشتہ چند ایام سے اسرائیل جس طرح مسجد اقصٰی پر حملہ کررہا ہے ، فلسطینی مسلمانوں پر ظلم و تشدّد کے پہاڑ توڑ رہا ہے اور غزّہ پر بم باری کررہا ہے اس نے اس کی خباثت اور انسانیت دشمنی کو طشت از بام کردیا ہے _ اس کی یہ جارحیت گزشتہ 7 دہائیوں سے جاری ہے _ عالمی ضمیر نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور اس کا ہاتھ پکڑنے اور مظالم سے باز رکھنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں ہورہی ہے ، بلکہ اس کے برعکس فلسطینیوں کی طرف سے جو معمولی مزاحمت ہورہی ہے اسی کی مذمّت کی جارہی ہے _
فلسطین میں بیسویں صدی کے اوائل تک یہودیوں کی آبادی انتہائی قلیل تھی ۔ ان کی تعداد کل آبادی کا پانچ فی صد بھی نہ تھی ۔ خلافتِ عثمانیہ کے آخری زمانے میں یہود نے سلطان عبدالحمید کے سامنے پیش کش کی تھی کہ انہیں فلسطین میں بسنے کی اجازت دی جائے ، اس کے بدلے وہ خلافتِ عثمانیہ کا تمام قرض اداکریں گے ، لیکن سلطان نے ان کی پیش کش کو حقارت کے ساتھ ٹھکرا دیاتھا اور کہا تھا کہ وہ فلسطین کی ایک انچ زمین بھی یہودیوں کو دینے کے روادار نہیں ہیں ۔ لیکن جنگ عظیم اول کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کرکے وہاں یہودیوں کو آباد ہونے کی اجازت دے دی ۔ 1917 ء میں جہاں یہودی آبادی صرف پچیس (25)ہزار تھی ، پانچ برس میں اڑتیس (38) ہزار ہوگئی، یہاں تک کہ 1939ء میں ان کی تعداد بڑھتے بڑھتے ساڑھے چار لاکھ تک پہنچ گئی ۔ جنگ عظیم دوم کے زمانے میں جرمنی میں ہٹلر کے مظالم سے بھاگنے والے یہودی بہت بڑی تعداد میں فلسطین میں آباد ہونے لگے ۔ 1948 ء میں اسرائیلی ریاست کے قیام کا باقاعدہ اعلان کردیا گیا ۔ اس وقت سے اسرائیل نے فلسطین کے اصل باشندوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم کررکھاہے ۔ ان پر ہر طرح کے مظالم ڈھائے جارہے ہیں ۔ انہیں ان کے گھر بار سے بے دخل کیا جارہاہے اور انھیں دوسرے ممالک میں مہاجرت کی زندگی بسرکرنے پر مجبور کیا جارہا ہے ۔ 1948ء میں پہلی عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں اسرائیل فلسطین کے اٹھتّر(78)فی صد حصے پر قابض ہوگیاتھا ، تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس اور غربِ اردن) کے علاقوں پر اردن کا قبضہ برقرارتھا ۔ لیکن 1967ء میں ہونے والی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی اپنا تسلط جمالیا ۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق مقبوضہ علاقوں میں کوئی تعمیرات نہیں کی جاسکتیں ، لیکن اسرائیل ان قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فلسطین کے تمام علاقوں میں مسلسل یہودی کا لونیاں بسارہاہے ۔
قرآن مجید میں یہود کا تذکرہ بہت تفصیل سے آیا ہے ۔ ان پر اللہ تعالی نے بے شمار انعامات و احسانات کیے ، انہیں دشمنوں کے مظالم سے نجات دی ، ان کے لیے آسائش و آرام کی سہولتیں فراہم کیں ، لیکن انہوں نے ہر موقع پر ناشکری کا مظاہرہ کیا ، انبیاء کی تعلیمات کا انکار کیا ، انہیں جھٹلایا اور ان کے قتل کے درپے ہوئے ، چنانچہ اللہ تعالی نے دنیا میں ان پر ذلّت و خواری مسلّط کردی ۔ قرآن کہتاہے:
 ضُرِبَتْ عَلَیْْہِمُ الذِّلَّۃُ أَیْْنَ مَا ثُقِفُواْ إِلاَّ بِحَبْلٍ مِّنْ اللّہِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَآؤُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللّہِ وَضُرِبَتْ عَلَیْْہِمُ الْمَسْکَنَۃُ (آل عمران:112)
 ”یہ جہاں بھی پائے گئے ان پر ذلت کی مار ہی پڑی ۔ کہیں اللہ کے ذمہ یا انسانوں کے ذمہ میں پناہ مل گئی تو اور بات ہے ۔ یہ اللہ کے غضب میں گھر چکے ہیں ۔ ان پر محتاجی اور مغلوبی مسلط کردی گئی ہے ۔“

یہود کی تاریخ قرآن مجید کے اس بیان پر مہرِ تصدیق ثبت کرتی ہے ۔ وہ جہاں بھی رہے وہاں انھوں نے فتنہ و فساد پھیلایا ، مال و دولت کی حرص میں مبتلا رہے ، مکر و فریب سے کام لیا اورظلم و ستم کا بازار گرم کیا ۔ چنانچہ مختلف حکم رانوں نے ان کی سرکوبی کی اور بڑے پیمانے پر ان کا قتلِ عام کیا۔ سورۂ بنی اسرائیل کی ابتدا میں واقعۂ اسراء کے ذکر کے بعد ہی یہود کی تاریخ کے دو واقعات کا بیان ہے ، جب ان کے فتنہ و فساد اور سرکشی کے نتیجے میں ان کا زبردست قتلِ عام ہوا تھا ۔ ایک واقعہ چھٹی صدی قبل مسیح کا ہے جب شاہِ بابل بخت نصر نے ہیکلِ سلیمانی کو پیوندِ خاک کر دیا تھا اور یہودیوں کا زبردست قتلِ عام کیا تھا اور ہزاروں کو جلا وطن کر دیا تھا ۔ دوسرا واقعہ 70ء کا ہے ، جب رومی جنرل ٹائٹس نے لاکھوں یہودیوں کو قتل کیا تھا اور اتنی ہی تعداد کو غلام بنا لیا تھا ۔

فلسطین کی تاریخ بتاتی ہے کہ جب بھی وہ مسلمانوں کے زیرِ حکومت رہا وہاں انھوں نے عدل و انصاف قائم کیا اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو ان کے مقدّس مقامات میں جانے اور وہاں عبادت کرنے میں کوئی روک ٹوک نہیں رکھی ، لیکن جب یہود نے اس پر قبضہ کیا تو انھوں نے مسلمانوں پر ظلم ڈھانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ۔ ارضِ مقدس فلسطین پر یہود کے حالیہ قبضے کو ستّر (70) برس سے زیادہ عرصہ ہو گیا ہے ۔ اس مدت میں ہر دن مسلمانوں کے لیے قیامت بن کر آیا ہے ، ہر صبح ظلم و ستم کی نئی داستان لے کر طلوع ہوئی ہے ۔ کون سا ظلم ہے جو ارضِ مقدس کے باسیوں پر روا نہیں رکھا گیا ہے ۔ دوسری طرف اسرائیل کو عالمی طاقتوں ، بالخصوص امریکہ کی پشت پناہی حاصل ہے ۔ انھوں نے اس کی بہت زیادہ مالی اور فوجی مدد کی ہے اور اسے ہر قسم کا تعاون اور تحفظ فراہم کیا ہے ۔ اسرائیل کے لیے امریکہ کی حمایت کوئی ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔ سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف منظور ہونے والی قراردادوں پر وہ ہمیشہ ویٹو کرتا رہا ہے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور یونیسکو میں فلسطین کی رکنیت کی مخالفت میں وہ پیش پیش رہا ہے ۔

مقامِ شکر ہے کہ فلسطین کے غیور مسلمانوں نے تہیہ کر لیا ہے کہ وہ اس ظلم ، غصب اور حق تلفی کو برداشت نہیں کریں گے اور ارضِ فلسطین کی آزادی کے لیے مسلسل اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے رہیں گے ۔ گزشتہ برسوں میں تحریکِ حماس نے فلسطینیوں کی ترجمانی کرتے ہوئے مزاحمت و مقابلہ اور شجاعت کی بے مثال داستانیں رقم کی ہیں ۔ انھوں نے عزم کر رکھا ہے کہ وہ ارضِ فلسطین کو صہیونیوں کے ناپاک قبضے سے آزاد کراکے ہی دم لیں گے ، چاہے اس راہ میں انہیں کتنی ہی جانوں کی قربانی پیش کرنی پڑے ۔

مسلم ممالک کے حکم رانوں کو اسرائیل کی جارحیت کے خلاف جس طرح متحد ہوکر آواز بلند کرنی چاہیے تھی اور جس طرح اہل فلسطین کی حمایت کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا ، افسوس کہ انھوں نے ایسا نہیں کیا _اللہ تعالیٰ انہیں اس کی توفیق عطا فرمائے _ اس موقع پر ہمیں اپنی ذمے داری ادا کرنی چاہیے اور جو کچھ کرسکتے ہیں اس میں دریغ نہیں کرنا چاہیے _

اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے : ” مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی سی ہے کہ اگر اس کے کسی عضو میں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو پورا جسم اس سے متاثر ہوتا ہے اور بخار اور بے خوابی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ “ (بخاری :6011 ، مسلم: 2586) اس لیے ہماری ذمے داری ہے کہ فلسطین کے اپنے مظلوم بھائیوں سے یک جہتی کا اظہار کریں ، ان کے درد کو محسوس کریں اور ان کے لیے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں صبر و استقامت بخشے ، ان کی قربانیوں اور شہادتوں کو قبول فرمائے _
 اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے :
 ” تم میں سے جو شخص کوئی ‘مُنکر’ (بُرا کام) ہوتا ہوا دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روک دے ، ایسا نہ کر سکے تو زبان سے ایسا کرے ، وہ بھی نہ کرسکے تو دل سے ایسا کرے _(ابوداؤد : 4340) ہم اسرائیل کی جارحیت کو ہاتھ سے روکنے پر قادر نہیں ہیں تو اپنی زبان و قلم کا استعمال تو کرسکتے ہیں _ سوشل میڈیا اپنی آواز کو بلند کرنے کا مؤثر ذریعہ ہے _ ہم اس کے ذریعے اسرائیل کی صہیونی حکومت کے مظالم کو نمایاں کریں اور اس کی غیر انسانی حرکتوں کی خوب مذمّت کریں _