Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, May 30, 2021

این آر سی کا پہلا پڑاؤ اور مسلمان؟* ‏



از/محمد وسیم غازی/صدائے وقت۔/30 مؠی 2021۔
+++++++++++++++++++++++++++++++++++
          متنازعہ شہریت ترمیمی قانون (CAA) پر ہنگامہ آرائی اور ملک گیر احتجاجی مظاہروں کے بعد اب تک اس کا اطلاق نہیں ہوپا یا ہے، تاہم 28/مئی 2021 کو وزارت داخلہ کی طرف سے ایک گزٹ نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے آئے ہوئے گجرات، راجستھان، ہریانہ، چھتیس گڑھ اور پنچاب میں مقیم ہندو، سکھ، جینی، بودھ، پارسی اور عیسائی سے شہریت کے لیے درخواستیں طلب کی گئی ہیں، گرچہ شہریت ترمیمی بل 2019 ہی میں قانون کا حصہ بن گیا تھا، لیکن ابھی تک اس کے قواعد تیار نہیں ہیں، لیکن ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک کو درپیش مسائل و مشکلات سے ذہن بھٹکانے کے لیے پہلے سے موجود قواعد 1955 اور 2009 کے تحت یہ نوٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے۔
         آپ اس فعل کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ کورونا وائرس کے دوران ہندوستان اور وزیراعظم کی گرتی ساکھ، طبی نظام کا کھوکھلا پن، بے روزگاری، کسانوں اور دانشور طبقے کی ناراضگی اور ہر محاذ پر حکومت کی ناکامی کو چھپانے کی کوشش ہے یا اترپردیش الیکشن کی تیاری ہے یا مسلمانوں سے انتقامی جذبہ کا نتیجہ ہے، بہرحال جو بھی معاملہ ہو وہ اپنے عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے ہر ممکن کوشش کررہے ہیں، ضروری ہے کہ پپو یادو اور ان کی ٹیم جس طرح بہار کے مختلف علاقوں کے سرکاری اسپتالوں کی خستہ حالی کو سوشل میڈیا کے توسط سے منظر عام پر لارہے ہیں، اس کی حوصلہ افزائی کی جائے، اور خاموشی کے ساتھ مکمل ڈیٹا کے ساتھ پورے ملک میں اس طرح کی مہم چلائی جائے، اسپتالوں اور اسکولوں کی خستہ حالت کو عام کیا جائے، اس کے علاوہ مسلمان اپنے آپ کو تعلیمی، سماجی اور معاشی میدان میں مضبوط کریں، اور اپنے معاشرہ کے ساتھ غیروں کے لیے بھی مفید بنیں۔
 
        افسوس کی بات ہے کہ مسلمانوں کے سامنے ہزاروں چیلنجز اور مسائل منہ کھولے کھڑے ہیں، لیکن نچلی سطح سے لے کر اوپری سطح تک کے مسلمان غیر ضروری مسائل میں اپنی طاقت صرف کر رہے ہیں، یا بے حسی کے شکار ہیں، طویل مدتی منصوبہ کسی کے پاس نہیں ہے، مسلمانوں کے رفاہی اور تنظیمی ادارے ایک دوسرے کے رفیق بن کر کام کرنے کے بجائے رقیب بن کر کام کر رہے ہیں، جبکہ سیاسی جماعتیں مسلمانوں کے خلاف یکساں سوچ کے ساتھ میدانِ عمل میں ہے، ابھی بھی وقت ہے کہ غیر ضروری باتیں اور اپنے اپنے آقاؤں کی بیجا مدح سرائی کرتے رہنے کے بجائے مضبوط، پائیدار اور ضروری اقدامات کیے جائیں۔