Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, June 28, 2021

آج ادب اسلامی کے ممتاز شاعر ابو المجاہد زاہد کا یومِ پیدائش ہے۔

از/عدیل الرحمان /صدائے وقت /28 جون 2021 
===============================
ابو المجاہد زاہد صاحب کی پیدائش 28؍جون 1928ء میں اترپردیش کے ضلع لکھیم پور کھیری میں ہوئی۔ مدرسہ عالیہ رام پور میں فارسی و عربی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ 1942ء سے شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ 1943ء میں علامہ سیماب اکبر آبادی مرحوم کی شاگردی اختیار کی اور 1945ء میں فارغ الاصلاح قرار دئے گئے۔ 1944ء ہی سے اردو کے ایک قدیم ترین ہفت روزہ ’’دبدبۂ سکندری‘‘ میں نائب مدیر کی حیثیت سے کام کیا۔ 1954ء سے 1959ء تک لکھنؤ کے معروف ادبی ماہنامہ ’’نئی نسلیں‘‘ کی ترتیب کا کام انجام دیا۔ 1969ء سے 1988ء تک مرکزی درسگاہ اسلامی رام پور میں ، پھر 1994ء تک جامعۃ الصالحات رام پور میں تدریس کے فرائض انجام دیے۔ اب عمر کے آخری مرحلے میں مرکز جماعت اسلامی ہند ، نئی دہلی کے شعبۂ تعلیمات سے وابستہ ہیں اور مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی کی جانب سے شائع ہونے والی نصابی کتب کی ترتیب و تدوینِ جدید میں معاونت کررہے ہیں۔
زاہد صاحب ادارۂ ادب اسلامی کے سالارانِ کارواں میں سے ہیں۔ ادب میں مقصدیت کے نقطۂ نظر کے حامل ہیں۔ ان کا کلام اسلامی اقدار و روایات کی ترجمانی کرتا ہے۔ اب تک تقریباً دو سو نظمیں، دو سو غزلیں اور ڈیڑھ سو نعتیں کہہ چکے ہیں۔ کلام کا بیش تر حصہ ادبی رسائل و جرائد میں شائع ہوچکا ہے۔ ایک شعری مجموعہ ’’تگ و تاز‘‘ بہت پہلے 1957ء میں منظرِ عام پر آیا تھا۔ دوسرا مجموعہ ’’یدِ بیضا‘‘ کے نام سے ابھی چند سال قبل 1998ء میں شائع ہوا ہے۔ مشہور نقّادانِ فن مثلاً ماہر القادری، انور صدیقی، مولانا عبدالماجد دریابادی، رشید کوثر فاروقی اور شبنم سبحانی وغیرہ نے ان کی شاعری پر گراں قدر تبصرے کیے ہیں اور ان کے فکر و فن کو سراہا ہے۔
زاہد صاحب کی شاعری کا ایک اہم حصہ وہ ہے جو بچوں کے لیے ہے۔ بچوں کے لیے ان کی نظموں کا مجموعہ ’’کھلتی کلیاں‘‘ کے نام سے اکتوبر 1957ء میں ہونہار کتاب گھر دہلی سے شائع ہوا۔ ڈھائی سال کے بعد اس کا دوسرا ایڈیشن جون 1960ء میں نکلا۔ دو اور مجموعے ’’مہکتی کلیاں‘‘ اور ’’مسکراتی کلیاں‘‘ کے نام سے تیار ہیں اور اشاعت کے منتظر ہیں۔ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی، کریسنٹ پبلشنگ کمپنی دہلی، شیلا پرکاشن دہلی، النصر اکادمی بجنور، دانش بکڈپو ٹانڈہ، جنت نشاں اکیڈمی مرادآباد اور بعض دوسرے اداروں نے اردو کی جو نصابی اور درسی کتب تیار کی ہیں ان میں ان کی نظمیں شامل ہیں۔ مشہور نقاد ڈاکٹر ابن فرید نے گواہی دی ہے کہ ان کی نظمیں بچوں کے مزاج اور نفسیات سے قریب تر ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’مرکزی درسگاہ جماعت اسلامی رام پور کے ناظم افضل حسین خاں صاحب نے ’ہماری کتاب‘ کا پورا سیٹ نظر ثانی کے لیے میرے سپرد کردیا… انھوں نے کچھ رہنما خطوط بھی بتائے تھے جن کی روشنی میں میں نے اللہ کا نام لے کر (پانچویں حصے کے علاوہ) پورا سیٹ مرتب کرڈالا۔ اس مہم جوئی میں مجھے بہت سے شاعروں سے مطلوبہ موضوعات پر نظمیں بھی لکھوانی پڑیں۔ زیادہ تر جن استاد شاعروں نے فکرِ سخن فرمائی وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہے کہ بچوں کا ادب کیا ہوتا ہے۔ چنانچہ زیادہ تر نظمیں موضوع کے لحاظ سے بچوں کے لیے ضرور لکھی گئیں لیکن زبان، تکنیک اور لفظیات کے اعتبار سے نہ صرف غیر فنی تھیں، بلکہ فطری روانی اور شعری آہنگ سے بھی محروم تھیں۔ میری نظر میں صرف ایک شاعر نصابی مطالبات کو سمجھ سکا تھا اور بے حد مترنم نظمیں کہہ سکا تھا۔ ان نظموں کو پڑھنے کے بعد دل چاہنے لگا کہ اس شاعر سے پورے سیٹ کی تمام ہی نظمیں لکھوالی جائیں تاکہ واقعتاً بچوں کا ادب وجود میں آجائے۔ (یہ شاعر ابوالمجاہد زاہد تھے۔)

( پیش لفظ،ید بیضاء ڈاکٹر ابن فرید، ص:۹، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی، 1998)

’’ننھا نمازی‘‘ کے چند بند ملاحظہ کیجیے:

وہ ہو چلا سویرا وہ رات جارہی ہے
وہ صبح کی اذاں کی آواز آرہی ہے
امی! اٹھو سفیدی ہر سمت چھا رہی ہے
اے میری اچھی امی! اے میری پیاری امی!
ابو کے ساتھ مسجد جاؤں گا آج میں بھی

الحمد، قل ہو اللہ فر فر کہو سنادوں
سبحانک اللہم لکھ کر کہو دکھادوں
کَے فرض ہیں وضو میں یہ بھی کہو بتادوں
کرلوں گا یاد اسے بھی جو کچھ رہا ہے باقی
ابو کے ساتھ مسجد جاؤں گا آج میں بھی

جب فرض با جماعت میں پڑھ چکوں گا امی
پھر دونوں ہاتھ اٹھا کر مانگوں گا میں دعا بھی
ساری برائیوں سے مجھ کو بچا الٰہی
بن جاؤں میں نمازی، بن جائیں سب نمازی
ابو کے ساتھ مسجد جاؤں گا آج میں بھی

’’کھلتی کلیاں‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے جناب شبنم سبحانی صاحب نے بھی ان کی اس خصوصیت کو نمایاں کیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے:
’’یہ ابوالمجاہد زاہد صاحب کی ان نظموں کا مجموعہ ہے جو انھوں نے بچوں کے لیے لکھی ہیں۔ موصوف بڑوں کے بھی شاعر ہیں اور بچوں کے بھی، حالانکہ ان دونوں میدانوں میں ساتھ ساتھ قدم اٹھانا بڑا دشوار گزار اور نازک کام ہے۔ آپ نے بڑے پیارے اور نفسیاتی انداز سے ننھے منوں کی زبان میں انھیں اچھی اور نصیحت آموز باتیں بتائی ہیں۔ ہنسا ہنسا کر سوچنے اور غور کرنے پر مجبور کیا ہے۔ بڑے لطیف انداز سے اسلامی شعائر کی پابندی کا ذوق اور حوصلہ بیدار کیا ہے۔ ساتھ ہی قدرت کے ان مناظر کی بڑے حسین اور بھولے بھالے انداز سے عکاسی کی ہے جو بچوں کے لیے خاصے متاثر کن ہیں اور انھیں اکثر محو کرلیا کرتے ہیں۔‘‘
(ماہنامہ زندگی، رامپور، مئی جون 1958ء ص:135)

زاہد صاحب کی شاعری میں کیا ادبی و فنی خصوصیات پائی جاتی ہیں؟ ان کی نظمیں بچوں کی نفسیات سے کس قدر ہم آہنگ ہیں؟ اور انھیں کیوں کر صحیح معنوں میں ’’بچوں کا معیاری اور مثالی ادب‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے؟ ان سوالات کے جوابات فراہم کرنا، ان دعووں کو مدلّل کرنا اور ان نظموں کو ادب کی کسوٹی پر پرکھنا ادباء اور ناقدین کا کام ہے۔ میں تو صرف یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ زاہد صاحب کی نظموں سے غیر شعوری طور پر بچوں کی اسلامی تربیت ہوتی ہے، وہ اسلامی اقدار و شعائر سے مانوس ہوتے ہیں، ان میں اچھی باتوں اور نیک کاموں سے رغبت اور بری باتوں اور برے کاموں سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور ان کی اٹھان اس طور پر ہوتی ہے کہ وہ بڑے ہوکر اچھے، سچے اور نیک مسلمان بن سکیں۔
اس مضمون کی ابتدا میں زاہد صاحب کی نظم ’’ننھا نمازی‘‘ کے چند بند پیش کیے گئے ہیں۔ اس نظم سے ایک ننھے بچے کے لطیف جذبات کی عکاسی ہوتی ہے۔ شدید ٹھنڈک کے باوجود وہ نمازِ فجر کے لیے اپنے ابو کے ساتھ مسجد جانا چاہتا ہے۔ نماز کا شوق اسے صبح سویرے اپنی ماں سے پہلے بیدار کردیتا ہے۔ وہ ماں کو اٹھاتا ہے۔ اس سے پہننے کے لیے گرم کپڑے، سوئٹر، موزے اور وضو کے لیے گرم پانی مانگتا ہے۔ یہ بتاتا ہے کہ اسے نماز پڑھنے کاطریقہ معلوم ہے اور اس میں پڑھی جانے والی سورتیں یاد ہیں۔
ایک نظم ’’چوری‘‘ کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔ اس میں کس طرح چھوٹے چھوٹے مصرعوں اور ہلکے پھلکے انداز میں چوری کی برائی واضح کی گئی ہے:
لڈّو چرا کے لائے

تم آج گھر سے، توبہ
دل میں تمہارے کچھ بھی

خوفِ خدا نہیں کیا
امی سے مانگ لیتے

چوری میں کیا مزا تھا

ایک نظم کا عنوان ہے ’’تتلیاں‘‘ اس کی ابتدا میں تتلیوں کی رنگت، شوخی اور حسن وغیرہ کا تذکرہ ہے۔ یہ بتایا گیا ہے کہ وہ گلستاں کی رونق اور پھولوں کی بیٹیاں ہیں۔ وہ پھولوں کا چکر لگاتی، ان کارس چوستی اور خوشیاں مناتی ہیں۔ اس نظم کا خاتمہ ان اشعار پر ہوتا ہے:
تعریف اس خدا کی جس نے انھیں بنایا
ان کے پروں کو جس نے ہر رنگ سے سجایا
یہ تتلیاں خدا کی رنگین نشانیاں ہیں
کیا خوب تتلیاں ہیں، کیا خوب تتلیاں ہیں
اسی طرح ’’پھول‘‘ کے عنوان سے ایک نظم ہے۔ اس کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں پھولوں کی مختلف قسمیں اور ان کی رنگت وغیرہ کا بیان ہے۔ دوسرا حصہ ملاحظہ کریں:

گھر پہ مجاہد احمد جب
دیکھ کے امی بول اٹھیں
پھلواری کے مالک سے
سن کے مجاہد بول اٹھے
پھلواری کے مالک سے
ناخوش ہوجاتا اللہ

جیب میں بھر کر لائے پھول
’’اے ہے اتنے سارے پھول
پوچھ کے بھی ہو لائے پھول‘‘
’’کیوں لاتا چوری کے پھول
پوچھ کے میں نے توڑے پھول
لاتا جو چوری کے پھول‘‘
امی نے خوش ہوکے کہا
’’ہنستا رہ اے میرے پھول‘‘

نظم ’’جگنو‘‘ پوری کی پوری پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے مصرعے، خوبصورت تشبیہات اور آخر میں اللہ کا شکر ادا کرنے کی ترغیب۔ دیکھئے کتنی پیاری نظم ہے:

جگنو ہے نام میرا
جگنو ہے نام میرا
راتوں کو ہوں دمکتا

اڑ اڑ کے ہوں چمکتا
ننھی سی بیٹری ہوں

منی سی پھلجڑی ہوں
اڑتا ہوا ستارہ

چھوٹا سا ماہ پارہ
بجلی کا قمقمہ ہوں

میں نور کا دیا ہوں
ہے شکر اس خدا کا

جس نے مجھے بنایا
جس نے یہ زندگی دی

ٹھنڈی سی روشنی دی
جگنو ہے نام میرا
جگنو ہے نام میرا

زاہد صاحب نے بچوں کو جو دعا سکھائی ہے وہ بھی بڑی پیاری ہے۔ اس کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

ہے تو ہی معبود ہمارا
ہے ہم کو تیرا ہی سہارا
تیرا دیا ہر ایک کھاتا ہے
تو آقا ہے تو داتا ہے
ہے یہ دعا ہم پڑھ لکھ جائیں
علم وہنر کی دولت پائیں
نیک بنیں نیکی پھیلائیں
عزت پائیں راحت پائیں
باتوں میں سچائی بھردے
کاموں میں اچھائی بھردے

زاہد صاحب کس طرح ننھے منے بچوں کو برے کاموں اور گندی عادتوں سے روکتے ہیں، اس بند میں ملاحظہ کریں:

گُدگدی کرکے تم نے ہنسایا بیچ نماز عصر مجھے
ایسی شرارت؟ توبہ توبہ! ابو کو گھر آنے دو
ہم کیوں فلمی گانے گائیں؟ ہم تو اچھے بچے ہیں
ایرے غیرے نتھّو خیرے گاتے ہیں تو گانے دو

زاہد صاحب کی کئی نظمیں ’’ماں‘‘ پر ہیں جو بڑی مؤثر ہیں۔ ان میں ماں کی عظمت، ادب و احترام اور احسانات کا بڑے خوبصورت انداز میں تذکرہ کیا گیا ہے۔ اندازہ کیجیے کہ جو بچے ان نظموں کو پڑھیں گے، انھیں یاد کریں گے اور انھیں اپنے ذہنوں میں نقش کرلیں گے، کیا ان کا اثر ان کے اخلاق و کردار پر نہ پڑے گا؟ ایسی تین نظموں کا ایک ایک بند ملاحظہ کریں:

ہر برائی بھلائی بتائی مجھے
دین کی راہ سیدھی دکھائی مجھے
نیکیوں پر ابھارا مجھے رات دن
بات اچھی ہمیشہ سنائی مجھے
دل میں اللہ کا خوف پیدا کیا
اپنی ماں کا کروں کس طرح حق ادا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بڑا ہے ان کا رتبہ اور اونچا ہے مقام ان کا
ہمیشہ دل سے کرتا ہوں ادب اور احترام ان کا
نہ میں ان سے جھگڑتا ہوں نہ میں لیتا ہوں نام ان کا
خوشی کے ساتھ کردیتا ہوں میں ہر ایک کام ان کا
جبھی تو مجھ کو کہتی ہیں ’’مرا نورِ نظر‘‘ امی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کرتے ہیں میری پرورش

احسان ہے ماں باپ کا
ہیں مجھ پر کتنے مہرباں

دونوں سے راضی ہو خدا
دونوں کو سکھ پہنچاؤں گا
جب میں بڑا ہوجاؤں گا

جیسا کے اوپر ذکر کیا گیا، کھلتی کلیاں کے علاوہ بچوں کے لیے زاہد صاحب کی نظموں کے دو اور مجموعے’’مہکتی کلیاں‘‘ اور ’’مسکراتی کلیاں‘‘
2000 میں دلی میں ابو المجاہد زاہد صاحب کا جشن منایا گیا. اس موقع پر ایک سمینار اور مشاعرہ کیا گیا. سمینار میں سید حامد، ڈاکٹر خلیق انجم، فضل الرحمن فریدی، پروفیسر ضیاء الحسن ندوی،مولانا کوثر یزدانی ندوی، مولانا سید جلال الدین عمری، پروفیسر اختر الواسع ،پروفیسر سراج اجملی ،پروفیسر احمد محفوظ ،ڈاکٹر عمیر منظر وغیرہ شریک تھے. 
جشن کا اہتمام ادارہ ادبیات عالیہ کے تحت ہوا تھا جس کی سرپرستی پرواز رحمانی، ڈاکٹر تابش مہدی ،جناب حسنین سائر، وغیرہ نے کی تھی. 
سمینار کے مقالوں کا مجموعہ ڈاکٹر تابش مہدی نے ابو المجاہد زاہد فکر وفن کے عنوان سے مرتب کرکے شائع کیا تھا. 

(2009ء میں ابو المجاہد زاہد کا انتقال ہو گیا تھا تاریخ وفات کا علم نہیں کسی صاحب علم کو کو پتا ہو تو بتائیۓ گا)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منتخب کلام:

ہر اہتمام ہے دو دن کی زندگی کے لیے
سکون قلب نہیں پھر بھی آدمی کے لیے

تمام عمر خوشی کی تلاش میں گزری
تمام عمر ترستے رہے خوشی کے لیے

نہ کھا فریب وفا کا یہ بے وفا دنیا
کبھی کسی کے لیے ہے کبھی کسی کے لیے
یہ دور شمس و قمر یہ فروغ علم و ہنر
زمین پھر بھی ترستی ہے روشنی کے لیے

کبھی اٹھے جو خورشید زندگی بن کر
ترس رہے ہیں وہ تاروں کی روشنی کے لیے

ستم طرازی دور خرد خدا کی پناہ
کہ آدمی ہی مصیبت ہے آدمی کے لیے

رہ حیات کی تاریکیوں میں اے زاہدؔ
چراغ دل ہے مرے پاس روشنی کے لیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نئی صبح چاہتے ہیں نئی شام چاہتے ہیں
جو یہ روز و شب بدل دے وہ نظام چاہتے ہیں

وہی شاہ چاہتے ہیں جو غلام چاہتے ہیں
کوئی چاہتا ہی کب ہے جو عوام چاہتے ہیں

اسی بات پر ہیں برہم یہ ستم گران عالم
کہ جو چھن گیا ہے ہم سے وہ مقام چاہتے ہیں

کسے حرف حق سناؤں کہ یہاں تو اس کو سننا
نہ خواص چاہتے ہیں نہ عوام چاہتے ہیں

یہ نہیں کہ تو نے بھیجا ہی نہیں پیام کوئی
مگر اک وہی نہ آیا جو پیام چاہتے ہیں

تری راہ دیکھتی ہیں مری تشنہ کام آنکھیں
ترے جلوے میرے گھر کے در و بام چاہتے ہیں

وہ کتاب زندگی ہی نہ ہوئی مرتب اب تک
کہ ہم انتساب جس کا ترے نام چاہتے ہیں

نہ مراد ہو گی پوری کبھی ان شکاریوں کی
مجھے دیکھنا جو زاہدؔ تہ دام چاہتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بشکریہ عدیل الرحمان