Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, June 19, 2021

میاں بیوی آپس میں کیسے رہیں۔ قسط نمبر….(١). ‏

از/ محمد علی جوہر سوپولوی/ صدائے وقت 
=============================
عام طور پر میاں بیوی کا تعلق دو اجنبی خاندانوں سے ہوتا ہے، مگر نکاح کے بعد دونوں ایک دوسرے کے اس طرح رفیق بن جاتے ہیں کہ موت سے پہلے جدائیگی کا تصور نہیں رہتا، رافقات اور تعلقات تو دنیا میں بہت پائے جاتے ہیں….
مگر ازدواجی زندگی کی رفاقت او رمحبت بے مثال ہوتی ہے، میاں بیوی میں سے ہر فرد ایک دوسرے کے لئے اپنی جان نچھاور کردیتا ہے۔ خوشی اور غم ، راحت اور مشقت یعنی زندگی کے ہر موڑ پر دونوں شریک رہتے ہیں ، …..
یہ ایک خاص نوعیت کا تعلق ہے ، جس سے عظیم منافع اور مصالح وابستہ ہوتے ہیں اس لئے اسلام نے شوہر اور بیوی کے درمیان پائی جانے والی رفاقت کو بڑی اہمیت دی ہے ، دونوں کے لئے الگ الگ اصول او رہدایات جاری کی گئی ہیں کہ جب تک دونوں اپنے فرائض خوش دلی سے پوار کرتے رہیں گے ازدواجی زندگی خوش گوار گزرے گی اور کبھی آپس میں رنج کا ماحول پیدا نہیں ہوگا….
اس سے تو تقریباً سب کا اتفاق ہے کہ شادی اور نکاح کی جہاں ایک غرض پاکیزہ زندگی کا حصول ہے وہیں اس کا اہم مقصد زندگی کو خوشگوار اور پر لطف بنانا ہے، زندگی کی بعض مسرتیں اور راحتیں ایسی ہیں جو ازدواجی بندھن سے جڑے بغیر حاصل نہیں ہوتیں،…..
اس لئے تنہائی کے عذاب سے بچتے ہوئے ایک بہتر اور با مقصد زندگی کے لئے میاں بیوی عقد کرتے ہیں، جس سے مسرت وشادمانی کا ماحول قائم ہوتا ہے اور پرلطف فضا کی تعمیر ہوتی ہے ، یہ خوشی اس وقت باقی رہتی ہے جب کہ دونوں اس کی فکر کریں، آپس میں پیار ومحبت کی بقاء کے لئے دونوں کی کوشش ہونی چاہئے، دونوں ایک دوسرے کے حقوق اور جذبات کا احترام کریں ، صرف شوہر یا صرف بیوی کے چاہنے سے زندگی پر لطف نہیں ہوتی جب تک باہمی کوشش او رجدوجہد نہ کی جائے ،شوہر کا کام ہے کہ گھر سے باہر کے تمام امور بحسن وخوبی انجام دے ، بہتر معاشی تلاش کرے او راپنی محنت سے بیوی اور بچوں کو راحت اور آرام پہنچانے کی فکر کرے، بیوی میں اگر کوئی عیب ہو تو اسے نظر انداز کردے، کسی بات پر غصہ آئے تو معاف کردینا چاہئے، اپنی بیوی کو خرابی یا کسی عیب کا دوسروں کے سامنے ہر گز اظہار نہیں کرناچاہئے اور یہ جاننا چاہئے کہ دنیا میں کوئی بھی انسان بے عیب نہیں ہے، ہر ایک میں کچھ اچھے اوصاف بھی ہوتے ہیں او رکچھ برے بھی، اسی طرح بیوی کے رشتہ داروں کیساتھ حسن سلوک کا معاملہ کرنا چاہئے، اس لئے کہ جس طرح مردوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے رشتہ داروں کے ساتھ ان کی بیوی اچھا معاملہ کرے اسی طرح عورتوں کیلئے بھی ان کے رشتہ دار قابل احترام ہیں، بیوی کے ماں باپ، بھائی بہن اور دیگر رشتہ دارو ں کے ساتھ بہتر بات چیت، اچھے اخلاق اور حسن سلوک کرنے سے بیوی کو خوشی ہوگی، شوہر کے تئیں اس کے دل میں محبت پیدا ہوگی اور تعلقات مستحکم ہوں گے…….
بیوی کو بھی چاہئے کہ شوہر کی اطاعت وفرمانبرداری کرے، اس کی دولت، مال وجائداد اور ساری ملکیت کی حفاظت کرے، اسے سوچنا چاہئے کہ شوہر کس طرح مال ودولت جمع کرنے میں اپنا پسینہ بہار رہا ہے، یہ ساری محنت تو بیوی بچوں کو آرام پہنچانے کے لئے ہی کررہا ہے، اگر بیوی نے مال کی حفاظت نہیں کی تو گھر میں کبھی برکت نہیں ہوگی اور نہ ہی آرام میسر ہوگا،…..
امور خانہ داری سے متعلق تمام امور کا ذمہ دار عورتوں کو بنایا گیا ہے، بچوں کی ابتدائی اخلاقی تربیت بھی ان ہی کے ذمہ میں ہے، بیوی کا کردار اور انداز اس طرح ہو کہ شوہر دیکھ کر خوش ہوجائے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ پوچھا گیا کہ کون سی بیوی بہتر ہے؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : شوہر جب اس کو دیکھے تو وہ اسے خوش کردے، جب وہ اسے حکم دے تو اس کی اطاعت کرے، اس کے مال اور اپنی عصمت کے معاملے میں وہ ایسا رویہ اختیار نہ کرے، جو شوہر کو ناگوار ہو۔ (نسائی ، کتاب النکاح)