Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, June 2, 2021

اشتہاری ویکسین سے دم توڑتی معیشت کا علاج. ‏. ‏. ‏


ازقلم:ڈاکٹر سلیم خان/صدائے وقت 
———---------------------------------------------
یہ حسن اتفاق ہے کہ جب مودی حکومت اپنی ساتویں سالگرہ کا کیک کاٹ رہی ہے،مالی سال 21-2020 میں جی ڈی پی کے اندر 7.3 فیصد کی گراوٹ درج کی گئی ہے۔ کورونا کی وباء نے فی الحال انسانی صحت کے ساتھ قومی معیشت کو بھی مفلوج کررکھا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق جو پچھلے چالیس سالوں میں سب زیادہ ہے۔ اس سے قبل 1979-80 میں گروتھ ریٹ نفی 5.2 فیصد درج کی گئی تھی۔ اس کی ایک وجہ تو قحط سالی تھی نیز کچے تیل کے دام بھی دوگنا ہوگئے تھے۔ فی الحال کچے تیل کا دام بہت کم ہے اس کے باوجود اپنے ملک میں پٹرول 100 روپیہ سے زیادہ فی لیٹر بک رہا ہے اور سرکار نوٹ چھاپ رہی ہے۔ اس وقت جنتا پارٹی کی سرکار 33 ماہ بعد گر گئی تھی یہ حکومت بھی اپنے 3سال پورے کرسکے گی یا نہیں کوئی نہیں جانتا؟ایک اچھی خبر یہ ہے کہ سال کی چوتھی سہ ماہی (جنوری-مارچ) میں شرح نمو میں 1.6 فصدا کی ترقی درج کی گئی۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کیونکہ سرکاری ادارہ این ایس او کوجی ڈی پی میں 7.7 فیصدکے گراوٹ کی توقع تھی ۔ گزشتہ سال جی ڈی پی کی شرح نمو 4 فیصد تھی۔
گجرات کے لوگ چونکہ تجارت میں تیز ہوتے ہیں اس لیےوزیر اعظم نریندر مودی سے لوگوں نے بڑی توقعات و ابستہ تھیں لیکن وقت کے ساتھ اس پر اوس پڑ گئی۔ 2014سے لے 2019 تک کوئی وباء نہیں تھی اس کے باوجود معیشت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی۔ 2014میں جب مودی جی نے اقتدار سنبھالا تھا جی ڈی پی 7.41 فیصد تھی اور اس میں 1.02فیصد کی بڑھوتری نوٹ کی گئی تھی۔ 2015میں یہ شرح نمو بڑھ کر 8 فیصد پر تو پہنچی لیکن اضافہ کی شرح نصف سے کم یعنی0.26 فیصد ہوگئی ۔ اس کے بعد مودی جی نے نوٹ بندی کی حماقت کی تو 2016 میں جی ڈی پی 8.26پر آگئی یعنی اضافہ کی شرح پھر سے گھٹ 0.26 فیصد پر آگئی۔ 2017میں مودی جی نے اور بڑی حماقت کرکےجی ایس ٹی لاگو کردی ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شرح نمو بڑھنے کے بجائے گھٹ گئی ۔ کل شرح نمو 7.04تھی مگر 1.21فیصد کی گراوٹ نوٹ کی گئی۔ 2018 میں انتخاب سامنے تھے اس لیے مودی جی محتاط ہوگئے اس کے باوجود شرح نمو6.12 پر آگئی یعنی 0.92 کی گراوٹ جاری رہی ۔

مودی جی نے دوبارہ انتخاب جیت کر بڑی ٹھاٹ سے 5ٹریلین اکونومی کا اعلان تو کیا مگر جی ڈی پی صرف 4.18تھی یعنی مزید 1.94 فیصد کی گراوٹ دیکھنے کو ملی تھی ۔ اس سے پتہ چلتا ہے وزیر اعظم کس طرح شیخ چلی کے خواب دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔ یہ اعدادو شمار اس بات کا ثبوت ہیں معیشت پہلے ہی پھسل رہی تھی لیکن اب اس کو کورونا کا بہانہ مل گیا ہے ۔ کورونا وبا کی پہلی لہر میں اپریل سے جون کے دوران جی ڈی پی میں منفی ترقی درج دیکھی گئی بلکہ جون کی سہ ماہی میں تو جی ڈی پی تقریباً23.9فیصد کی تاریخی گراوٹ تک پہنچ گئی۔یکم ستمبر 2020 کو قومی شماریاتی دفتر (این ایس او) کی طرف سے جاری اعدادو شمار کے مطابق اپریل تا جون کے بیچ زبردست گراوٹ کا سبب تالہ بندی تھا۔ اس دوران تعمیرات، مینوفیکچرنگ اور تجارت، ہوٹل اور ٹرانسپورٹ سیکٹر سب سے زیادہ متاثر ہوئے تھے ۔ ان میں بالترتیب منفی 50.3 فیصد، 39.3 فیصد اور 40.7 فیصد کی ریکارڈ گراوٹ دیکھنے میں آئی تھی ۔

اس وقت ماہر اقتصادیات انشومن تیواری نے کہا تھا کہ ‘حکومت ابھی تک ایک من گھڑت اور امید افزا ماحول کی تصویر پیش کررہی تھی لیکن معیشت کی حقیقی تصویر اب سامنے آگئی ہے اور حکومت کی طرف سے کھڑی کی گئی نقلی عمارت ٹوٹ رہی ہے۔” اس کو وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے انشومن تیواری نے ملک میں انتہائی شدید اقتصادی کساد بازاری کی پیشنگوئی کی تھی جو وقت کے ساتھ سچ ثابت ہوئی مگر موجودہ حکومت ان ماہرین کی جانب توجہ دینے کی قائل نہیں ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے نازک وقت میں بھی موجودہ سرکار نے ملک کی معیشت سنبھالنے کے لیے منموہن سنگھ یا پی چدمبرم جیسے کسی ماہر اقتصادیات کی خدمت حاصل نہیں کی۔ اس وقت پی چدمبرم نے مودی حکومت پر الزام لگایا تھا کہ وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کے علاوہ ہر کسی کو معیشت کے بحران کی سنگینی کا علم تھا ۔ سرکاری خود فریبی کی قیمت ملک کے عوام چکا رہے ہیں ۔ غریب لوگ مایوسی کا شکار ہورہے تھے مگربے فکر مودی سرکارجھوٹی کہانیاں پھیلا کر عوام کو گمراہ کرتی رہی ۔ بی جے پی رکن پارلیمان اور ماہر معاشیات ڈاکٹر سبرامنیم سوامی کا ابھی حال میں دعویٰ کیا ہے کہ قومی معیشت کو سدھارا جاسکتا ہے لیکن اس حکومت کو یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ یہ کام کیسے کیا جائے