Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, June 27, 2021

گاؤں کی باتیں ۔۔۔۔ جامن کی موٹی شاخ بھی ’شاخ نازک‘ ہوتی ہے


از/ حمزہ فضل اصلاحی/صداؠے وقت۔
+++++++++++++++++++++++++++++++++++
گاؤں میں نیم کے درخت کے نیچے منڈئی ہے، اس میں نوجوان چار پائی پر بیٹھے ہیں ۔ بر سات سے بچانے کیلئے منڈئی کو پیلی ترپال سے ڈھک دیا گیا ہے ۔ منڈئی چاروں طرف سے کھلی ہوئی ہے ، آسمان صاف نظر آرہا ہے، بادلوں کی فوج آجارہی ہے ، رہ رہ کے کالی گھٹا چھاجاتی ہے۔وقفے وقفے سے بارش ہوتی ہے ، پھررک جاتی ہے ۔ اس طرح بہت دیر سے بارش کا آنا جانا لگا ہے ۔بارش تھمتے ہی ایک نوجوان کہتا ہے :’’چلا جامن کھا ئے۔‘‘( چلو جامن کھانے) سب نے تائید کی ۔ بیک وقت کئی آوازیں آتی ہیں: ’’ہاں چلا...ہاں چلا...۔‘‘( کیوں نہیں چلو چلو )۔ کچھ دیر کے بعد نوجوانوں کایہ گروپ پلاسٹک کی تھیلیاں،لگی(بانس کا ڈنڈا)اور ترپال لے کر نکلتا ہے۔
 نوجوان جامن کے درخت نیچے پہنچتےہیں ۔ وہاں ایک نوجوان لگی کی مدد سے جامن کی ڈال ہلا تا ہے۔ نیچے چار نوجوان ترپال کا چاروں کونہ پکڑے کھڑےہوئے ہیں، اس پر جامن کے خوشے ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہےہیں، ان میں زیادہ تر پکی جامن ہیں ۔ کچھ ہی دیر میں پلاسٹک کی تھیلیاں بھر جاتی ہیں۔ اس کے بعدترپال سمیٹی جاتی ہے ۔ کسی نے ترپال سنبھال لی ہے ، کسی کے ہاتھ میں ڈنڈے  ہیں، کسی نے جامن اٹھالی ہے ۔ یہ سب لے کر نوجوان دوبارہ منڈئی میں پہنچتے ہیں۔  اکثر نوجوان چارپائی پر بیٹھ جاتے ہیں۔ ایک نوجوان اپنے گھر جاتا ہے ، وہاں سےایک بر تن ، نمک اور تھوڑا شکر لے کر آتا ہے ۔ اب ایک ایک تھیلی سے نکال کر جامن برتن میں رکھی جاتی ہیں، انہیں سرکاری ہینڈ پمپ کے نیچے رکھ کر دھلا جاتاہے۔ پھران پر نمک اور شکر کا چھڑکاؤہوتا ہے ۔ برتن  اوپر نیچے کرکے ملایا جاتا ہے ۔ جامن کا برتن ایک چارپائی پر رکھا جاتا ہے ، برتن رکھنے سےپہلے چارپائی پر ایک بوری بھی بچھائی جاتی ہے ، تاکہ اس میں جامن کا داغ نہ لگے۔اتنی محنت کےبعد نوجوانوں کا گرو پ جامن کھا نا شروع کر تا ہے ، اس میں تبصرے ہوتےہیں ، میٹھی ہے ، کوئی کہتا ہے کہ کچی ہے ، تھوڑا اور پک جاتی تو اور مزہ آتا .
  بر سات میں اسی طرح اچانک بیٹھے بیٹھے جامن کھانے کاخیال آجاتا ہے اور پھر سب نکل پڑتے ہیں ، درخت کے نیچے ہی جا کر رکتےہیں۔ پہلے ایسا باربارہوتا تھا، اب کبھی کبھار ہوتا ہے۔ تب اور اب میں فرق یہ ہے کہ پہلے گاؤں میں بہت ساری جامن ضائع ہوجاتی تھیں ، انہیں کوئی پوچھتانہیں تھا ،اب میٹھی کھٹی ہر طرح کی جامن کھانےوالے ہیں۔ شوگر کے مریضوں نے کھٹی جامن کی بھی  اہمیت بڑھادی ہے۔ وہ اس موسم میں پابندی سے جامن کھاتے ہیں۔پرانے لوگ بتاتے ہیں کہ ا ن کے زمانے میں جامن کے پیٹر زیادہ تھے بلکہ ہر جگہ تھے۔ اس وقت مٹھوا( میٹھی) جامن ہی کھائی جاتی تھی۔ کٹھوا ( کھٹی ) جامن کو کوئی ہاتھ تک نہیں لگاتا تھا ۔ پیڑ سے گرتی تھیں ، زمین پر پڑی پڑی بیکار ہوجاتی تھیں ۔ آخر میں جب مٹھواختم ہوجاتی تھی تو کچھ لوگ کٹھوا جامن بھی چکھ لیتے تھے۔ 
 گاؤں میں آم اور امرود کی طرح جامن کا پودا لگانےکا اہتمام نہیں کیا جاتا ہے ۔ اس کا  پودا عام طور سے خود سے اگتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے تناور درخت بن جاتا ہے ۔ پھلنےپھولنے لگتا ہے اور طویل عرصے تک لوگ اس کا پھل کھاتے ہیں۔ اس کا باغ بھی نہیں لگایا جاتا ہے۔ ہر بڑے باغ میں اس کے کچھ ہی پیڑ ہوتےہیں۔ 
  پرانے زمانے  سے جامن اور جامن کے درخت سے متعلق کچھ ہدایتیں ہیں۔ آج بھی ان پر عمل نہ کرنے والا نقصا ن اٹھاتا ہے۔ مثلا ًجامن کھانے والوں کو اپنا کپڑا بچانا پڑتا ہے ۔ خاص طور سے یہ پھل کھانے سے پہلے سفید لباس نہ پہننے کی سخت تاکید کی جاتی ہے، کیونکہ اس کا داغ چھوٹتا ہی نہیں ، بتاتے ہیں کہ کپڑا پھٹ جاتا  ہے مگر جامن کا داغ جاتا ہی نہیں ہے ۔ اب بہت سے   کیمکل آگئے ہیں جن کی مدد سے جامن کاداغ دھلنے کی کوشش کی جاتی ہےمگر کامیابی ملتی ہی نہیں ۔ اسی طرح  جامن کھانے کے بعد پانی پینے سے روکا جاتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جامن کھاکر پانی پینے سے پیٹ میں ناقابل بر داشت درد ہوسکتا ہے۔ 
   اسی طرح پرا نے لوگ جامن کے پیڑ پر چڑھنے سے منع کرتےہیں ، کیونکہ اس کی موٹی سی موٹی شاخ بھی ’شاخ نازک‘  ہوتی ہے۔ اس کا بھروسہ نہیں ہوتا ہے، کب ٹوٹ جائے؟ کچھ کہا نہیں جاسکتا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ اگر جامن پر چڑھو تو ایک ڈال پر کھڑے رہو ، دو ڈال ہاتھ سے پکڑے رہو ، ورنہ کسی بھی وقت پیڑ سے گرنے کا اندیشہ رہتا ہے ۔اس کے باوجود ہر سال نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد جامن کے پیڑ پر چڑھتی ہے جن میں سے کچھ کو ہاتھ تو کچھ کو پیر گنوا نا پڑتا ہے جبکہ کچھ کی جان بھی چلی جاتی ہے، کچھ بے ہوش ہوجاتےہیں ، کچھ بہت بری طرح خوفزدہ ہوجاتےہیں۔ 
                       حمزہ فضل اصلاحی۔
 کورونا کا پہلاسال تھا ، آم کے درخت پھلوں سے لدے ہوئے تھے لیکن کسی پیڑ پر جامن نہیں تھی ، اُس سال جامن کی کمی شدت سے محسو س کی گئی ہے ۔ لوگ یہ بھی کہنے لگے تھے کہ کورونا نے جامن کا پھل چھین لیا ہے ، لگتا ہےکہ اب اس کی پیداوار نہیں ہوگی ۔ بڑے بوڑھے بتاتے ہیں کہ ان کی زند گی میں کوئی سال نہیں آیا ، جب بر سات میں جامن نہیں ہوئی ہو ، کم زیادہ ہر سال گاؤں والوں کو جامن کھانے کو مل جاتی تھی ، صرف کورونا کے پہلے سال جامن کا ایک دانہ بھی نصیب نہیں ہواتھا ۔ اِس سال جامن کے درخت پھر لد گئے ہیں ۔ بچے ، جوان اور بوڑھے سب جامن تلاش کررہےہیں،پتھر مار کر جامن توڑ رہے ہیں، لگی سے بھی ہلا رہے ہیں۔