Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, July 4, 2021

گاؤں کی باتیں.. .. . باغ .میں دھب دھب کی آوازسنائی دے رہی ہے


از / حمزہ فضل اصلاحی/صدائے وقت. 
==============================
 ان دنوں گاؤں میں آم ہی آم ہیں ۔دسہر ی تقریباً ختم ہوچکا ہے ۔ لنگڑا ، چونسا  اور سفیدہ وغیرہ کے ساتھ ساتھ دیسی آموں کانمبر آگیا ہے۔گاؤں کے اطراف کے بازاروں میں آم ہی آم نظرآرہاہے۔ گاؤں میں کسی بھی باغ  کے قریب سے گزریئے ، دھب دھب کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ یہ آواز آم ٹپکنے کی ہوتی ہے۔ کچے آم بھی زمین پر گرتے ہیں لیکن اِس آواز اور اُس آواز میں فرق ہے۔ماہر آواز سن کر ہی بتا دیتے ہیں کہ کچا آم ہے یا پکا ۔ کچا آم گرنے پر باغ کا مالک پریشان ہوجاتا ہے لیکن پکا آم ٹپکنے پر اس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہتا ہے ،ظاہر ہے کہ محنت کا پھل ملنے پر ہر کوئی خوش ہوتا ہے ۔ برسات کے بعد پہلی بار پکا آم ٹپکنے کا الگ ہی قصہ ہے ۔ اسے پوروانچل میں’ ڈھائی‘ کہاجاتا ہے ۔کچھ لوگ اسے’ ڈھائل‘ بھی کہتے ہیں ۔ پہلی بارش کے بعد ہی سب باغ کی رکھوالی کرنے والے سے یہی پوچھتے ہیں :’’ ارے ڈھائی وائی ملے لاگی ہے ؟‘‘( ڈھائی وائی ملنے لگی ہے؟) بارش شروع ہونے کے بعدباربار یہ سوال پوچھا جاتا ہے ، نتیجتاً باغ میں دن رات رہنے والے اس پیڑ سے اس پیڑ جاتے ہیں ، ہر شاخ کا جائزہ لیتے ہیں،ڈھائی تلاش کرنے لگتے ہیں ۔ باربار نظر اٹھا کر دیکھتے ہیں ، کوئی آم دھوپ سے بھی پیلا ہوجاتاہےتو اسے ہاتھ سے چھوکر دیکھتے  ہیں ۔ زیادہ اوپر رہتا ہے تو اس کے ٹپکنے کا انتظار کرتے ہیں اورایک نہ ایک دن ان کا یہ تجسس ختم ہوجاتا ہے،کسی نہ کسی حصے سے دھب کی آواز آہی جاتی ہے۔شروع شروع میں یہ آواز  چوبیس گھنٹے میں  چھوٹے بڑے باغ کے حساب سے دس سےبیس مرتبہ سنائی دیتی ہے۔ پھر ایک وقت ایسا آتا ہے کہ منٹ منٹ پر دھب دھب  سنائی دیتا ہے اور پھر جب باغبان کو وقت ملتا ہے ، وہ آم جمع کرتا ہے ، باغ کے کسی حصے میں اس کا ڈھیر لگا تا ہے اور جلد ہی اس کے خریدار بھی آجاتےہیں۔ 
    باغ کی پہلی ڈھائی کھانے والاخود کو خوش قسمت سمجھتا ہے۔وہ سب سے یہ بھی بتاتاہے کہ پہلی ڈھائی کیسے تھی ؟ پھیکی تھی یامیٹھی ؟ وہ اس لمحے کو یاد رکھتا ہے اور موقع ملنے پر اس کاذکر بھی کرتا ہے۔  زمین پر گر نے سے پہلے ہی ڈال کے پکے ہوئے آموں کی خوشبو پھیل جاتی ہے۔ اس کے ذائقہ کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔پوروانچل میں کچا آم توڑکر پکانے کے عمل کوپال ڈالنا کہا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ’ڈال کے آم ‘اور ’پال کے آم‘ کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ڈال کا پکا آم رسیلا ، خوشبودار اور اتنا لذیذ ہوتا ہے کہ اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ہے۔ 
 بڑےباغ میں آم ٹپکنے پر اس کا رکھوالا ہی آم اٹھاتاہے ، دوسروں کو اس کی اجازت نہیں ہوتی ہے لیکن جو درخت باغ سے باہر ہوتے ہیں، اس کے نیچے سے کوئی بھی ٹپکاہوا آم اٹھا سکتا ہے ۔ دس بارہ سال پہلے تک نوجوان اور بچے آم کے درخت کے آس پاس بیٹھے رہتے تھے ، اسی کے نیچے اپنے مویشی چراتے تھے، اُن کے کان کھڑے رہتے تھے ، جیسے ہی آم ٹپکنے کی آواز سنائی دیتی تھی ، سب دوڑ نے لگتے تھے ۔جسے آ م ملتا تھا ، وہ پھولے نہیں سماتاتھا اورجسے نہیں ملتا تھا ، وہ مایوس ہوجاتا تھا مگر ناامید نہیں ہوتاتھا ، انتظار کرتا تھا۔ بچے شرارت بھی کرتے تھے ، یوں ہی پتھر اچھال دیتے تھے ، اس کے گرنے کی آواز سن کر بچے دوڑنے لگتے تھے ، اس پر پیچھے کھڑے بچے لوٹ پوٹ ہوجاتے تھے ۔پھر دوڑ لگانے والے بچوں کی نظریں جھک جاتی تھیں ۔
  پرانے لوگ بتاتے ہیں کہ ان کے دور میں دیسی آم زیادہ تھے، قلمی کم تھے۔قلمی آموں میں صرف لنگڑ اتھا۔ باقی سرخ آم تھا ، بیجو آم تھا اور اسی طرح کے بہت سے آم تھے، دسہری ، چونسا بعد میں آیا ، اس کے بعد ممبیابھی آیا اور اب بہت سے آم آگئے ہیں ۔ اُس زمانے میں آم خوب کھا یا جاتا تھا ، چا ر پانچ آم کھانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتاتھا ۔ بڑی سی بالٹی میں آم بھگویا جاتا تھا ، کچھ ہی دیرمیں بالٹی خالی ہوجاتی تھی اور وہاں گٹھلی کا ڈھیر لگ جاتا تھا ۔ جس کے پاس با غ ہوتاتھا ، وہ آم کھاتاہی تھا جس کےپاس نہیں تھا تو وہ بھی جی بھر کے آم کھاتا تھا ۔ آم بیچنے والے بیل گاڑی سےآتے تھے ۔چند روپےمیں ۱۰۰؍ آم مل جاتے تھے ۔ اس زمانے میں آم سیکڑہ کے حساب ہی سے فروخت ہوتا تھا۔جس کے پاس پیسہ نہیں ہوتا تھا ، وہ غلہ سے آم خریدتاتھا۔
                       حمزہ فضل اصلاحی۔

 بتاتے ہیں کہ اس زمانےمیں آم کے موسم میں ضیافت بھی آم ہی سے ہوتی تھی۔ مہمان سے اجازت نہیں لی جاتی تھی ۔ چائے پانی کے بجائے آم بالٹی میں بھگو کر اُن کے سامنے رکھ دیا جاتا تھا ۔ اس کے بعد چوس چوس کر آم کھانے کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا۔ میزبان بھی ان کاساتھ دیتے تھے۔ باغ والے محلے پڑوس والوں کوبھی آم کی پارٹی دیتے تھے ۔ ہر دن کسی نہ کسی کومدعو کرتے تھے۔ان کے دروازے پر دن کے اکثر حصے میں آم چوسنے والے نظر آتے تھے ۔ بتاتے ہیں کہ دیسی آم کھانے سے پیٹ بھی خراب نہیں ہوتا تھا ، ہاں نیند بہت آتی تھی۔ اب بھی دیسی آم ہیں لیکن عام طور سے پکنے سےپہلے ہی انہیں توڑ لیا جاتا ہے ، ان کااچار بنا یا جاتا ہے۔ آج بھی گاؤں میں کچھ درخت ایسے ہیں جو پکنے تک پیڑ ہی پر رہتے ہیں ، توڑے ہی نہیں جاتے ہیں ، جولائی کے پہلے ہفتے میں ان درختوں پر  پیلےپیلے آم نظر آتے ہیں ، ایسا لگتاہے کہ بلب جل رہے ہیں۔ یہ وقفے وقفے سےٹپکتے ہیں اور ایک دن پیڑ خالی ہوجاتا ہے۔