Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, July 4, 2021

یہ امت مرچکی ہے، اس کو دفنا دو*

۔
از:اسماعیل کرخی
                +918108731437
                       صداؠے وقت۔
+++++++++++++++++++++++++++++++++++
کسی بھی قوم کی حیات کا ثبوت اسکے معاشرہ سے ملتا ہے، جو قوم زندہ ہوتی ہے اس قوم کا معاشرہ مہذب اور تعلیم یافتہ نظر آتا ہے، ان کے یہاں منظم ادارے ہوتے ہیں جو اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود کی خاطر کام کرتے ہیں، لیکن اس وقت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ امت مسلمہ کم از کم ہندوستان میں مردہ ہوچکی ہے،۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ آپ کے معاشرہ میں ایک بھی تعلیمی ادارہ ایسا نہیں جو آپ کی قوم کی شناخت کی بقاء کے ساتھ اسے ترقی دینے کا ضامن ہو، آپ اپنے مذہبی لیڈروں کو کھرب ہا کھرب چندے دیتے ہیں لیکن افسوس کہ وہ آپ کے لئے چند جلسہ جلوس کے علاوہ کچھ نہیں کر پاتے، جب آپ کی بیوی بہن حاملہ ہوتی ہے تو آپ در بدر پھرتے ہیں کہ کوئی ایسا ہسپتال ملے جہاں کم داموں میں نارمل ڈیلیوری خواتین کی زیر نگرانی ہوسکے، لیکن آپ ایسے ہسپتال تلاش کرنے میں ناکام رہتے ہیں، عام شہروں کے چھوٹے ہسپتالوں میں بھی کم از کم 10 ہزار روپیہ نارمل ڈیلیوری کے مانگے جاتے ہیں، جبکہ یہ رقم 25 سے 30 ہزار تک بھی عام ہے، اور اگر آپریشن کی نوبت آ جاے تو 50 ہزار روپئے تو نہایت مختصر قیمت تصور کی جاتی ہے، ہر طرف لوٹ مار ہے لیکن آپ کے دیئے گئے چندے یا کسی ایسے مدرسے کی عمارت میں صرف ہوتے ہیں جہاں کے استاذہ کی تنخواہیں ایک حمال کی مزدوری جتنی بھی نہیں یا پھر کسی جلسہ جلوس کی ایڈورٹائزنگ یا زینت پر بہا دیئے جاتے ہیں؟ ہندوستان میں بعض مذہبی ادارے 100 200 کروڑ کے بجٹ اس لئے جمع کرنے میں لگے ہیں کہ کوئی بہت بڑی مسجد تعمیر کی جاے یا کسی مدرسے کی کوئی اونچی عمارت بنائی جاے، ان امور میں خرچ کرنا یقیناً برا نہیں ہے لیکن ترجیحات کو اہمیت دینا زندہ اقوام کا شیوہ ہے۔
آپ جب اپنی پردہ نشین خواتین کے لئے ایسے ہسپتال تلاش کرتے ہیں جہاں کم خرچ میں انکے علاج ہوسکیں تو آپ کو سرکاری ہسپتال ہی نظر آتے ہیں جہاں عورتیں مجبور ہوتی ہیں کہ وہ بے حجاب ہوں بلکہ انہیں اپنے وہ اعضا بھی مرد ڈاکٹروں کو دکھانے پڑتے ہیں جو صرف خاوند دیکھ سکتا ہے، کیا مسلم قوم ایسے ہسپتال ہر شہر میں نہیں بنا سکتی جہاں عورتوں کی پرائیویسی کا لحاظ رکھتے ہوے کم خرچ میں علاج کیا جاسکے؟
ظاہر ہے یہ اس وقت ممکن ہے جب ہماری قوم کے لوگ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ بھی ہوں، لیکن افسوسناک صورتحال ہے کہ ہمارے پاس نہ ایسے اسکول ہیں نہ ایسے کالج جہاں کم خرچ میں بہتر تعلیم دی جاے، ہمارے علماء مسلم عوام کو لعن طعن کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو مشنری اسکولوں کے حوالے کردیتے ہیں، تو ظاہر سی بات ہے کہ مشنری اسکولوں کی اکثریت بے حد کم فیس میں تعلیم دیتی ہے، کچھ مشہور ادارے ہیں جن کی فیس بہت زیادہ ہے لیکن اس میں وہی لوگ داخلہ لیتے ہیں جو امیر ہوں، وگرنہ غریبوں کے لئے مشنری اسکولوں کی بھر مار ہے، صرف ممبئی میں سینکڑوں ایسے اسکول اور کالج ہیں جو سالانہ 2 سے 3 ہزار میں بہترین تعلیم دیتے ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ کلچر لادینیت والا ہی ہے۔ اب دوسری طرف جب ہم مدرسوں کو دیکھتے ہیں کہ تو وہاں مفت کھانا اور اقامہ دینے کے سوا کچھ نہیں دیا جاتا، آپ کہیں گے کہ انہیں دین کی تعلیم دی جاتی ہے، لیکن سچ تو یہ ہے کہ آپ کو بیوقوف بنایا جاتا ہے، وہاں دین کی چند بنیادی تعلیم دی جاتی ہے، اگر دین کی تعلیم دی جاتی تو آج صورتحال بالکل مختلف ہوتی، ہاں وہاں غریب بچے اپنا 10 سال مفت میں نکال لیتے ہیں لیکن جب وہ باہر نکلتے ہیں تو انہیں مسجد کی امامت کے سوا کچھ نہیں ملتا، اور اب تو وہ بھی نہیں ملتیں، کیونکہ ہر سال تقریباً 10 سے 12 ہزار طلبہ مجموعی طور پر فارغ ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ 10 ہزار مساجد ہر سال تعمیر نہیں ہوتیں، اب یا تو وہ خود کوئی نام نہاد ادارہ کھول لیتے ہیں، یا کوئی چندہ وغیرہ سے مدرسہ قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کچھ تو تجارت میں لگ جاتے ہیں جبکہ کچھ جھاڑ پھونک کا چورن بیچتے ہیں، اکثریت کشمکش کا شکار رہتی ہے کہ انہیں کرنا کیا ہے؟
ان مسائلہ کا ایک ہی حل ہے کہ ہر علاقے کے سمجھدار علما متحد ہوں، اور امیروں کو متحد کریں اور انہیں ایک مقصد دیں، ہر علاقے میں ایسے خیراتی اسکول ہوں جو کم فیس لیکر بہترین تعلیم فراہم کریں، ایسے ہسپتال ہوں جہاں کم از کم عورتوں اور بچوں کا مفت علاج کرایا جاسکے، ان کی فنڈنگ کی ذمہ داری پوری قوم کی ہو، اگر با اثر علماء یہ کام کریں کہ سارے مسلمانوں کو متحد کریں اور اس بات کا وعدہ لیں کہ ہر مسلمان روازنہ کم از کم دو روپیہ صدقہ دیگا، ایک روپیہ اسکول کے لئے اور ایک روپیہ ہسپتال کے لئے، مزید جو صاحب استطاعت ہیں وہ بھر پور سپورٹ کریں اور ایسی NGO's قائم کریں جو خود کفیل ہو تو اس سے ہمارے یہاں بیروزگاری میں بھی کمی آے گی اور چند سالوں میں بہتر نتائج سامنے آ سکیں گے۔

***