Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, July 26, 2021

گاؤں کی باتیں ہری ہری گھاس والے کھیت کھلیان میں سناٹا. ‏. ‏. ‏. ‏


                    از/ حمزہ فضل اصلاحی. 
                           صدائے وقت       
==============================
 عید الاضحی کا تیسرا دن ہے، شام ہوگئی ہے، سورج لا ل ہوچکا ہے، بس کچھ ہی دیر کا مہمان ہے، ڈوبنے کے قریب ہے۔ گاؤں کےہری ہری گھاس والے میدان اور کھیت کھلیان خالی ہوگئے ہیں۔ چاروں طرف سناٹا ہے ، کہیں کوئی نظر نہیں آرہا ہے۔ ابھی دودن پہلے تک یہاں چہل پہل تھی،انسانوں اور جانوروں  کا آنا جانا تھا۔اُن کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔ دن بھر جانوروں کے جھنڈ گھاس چرتے تھے۔ ان کی دیکھ بھال کرنےو الے بھی لاٹھی ڈنڈے کے ساتھ وہاں رہتے تھے ، اپنے جانوروں کو کسی بوئے ہوئے کھیت میں جانے سےروکتے تھے۔ اُن کے پیچھے دوڑتے بھاگتے تھے۔جانوروں کاجھنڈ دیکھ کر راہ گیر بھی رکتے تھے ، ان کا جائزہ لیتے تھے ، اوپر سے نیچے تک دیکھتے تھے، پھر قیمت پوچھتے تھے ۔ اس کے بعد’ مہنگا ہے‘ یا ’سستا ہے‘ کہہ کر آگے بڑھ جاتے تھے۔ جس جانور کو لوگ لوگ باربار دیکھتے تھے ، اس کا مالک خوش ہوجاتا تھا لیکن کچھ لوگ فکرمند ہوجاتےتھے ۔ وہ کہتے تھے :’’لوگ بار بار دیکھ رہےہیں ،ماشاء اللہ بھی نہیں کہہ رہے ہیں ، پکا نظر لگ جائے گی ۔‘‘ اب ا ن چرا گاہوں کو آباد کرنے کیلئے ایک سال انتظا ر کرنا ہو گا ۔ پرانے لوگ بتاتے ہیں کہ ان کے زمانے میںعام طور پرگھر کے پالے ہوئے جانور وں کی قربانی ہوتی تھی ، اس لئے سال بھر یہ چرا گاہیں آباد رہتی تھیں ۔ ایک جانور کی قربانی ہوجاتی تھی، دوسر اباقی رہتا تھا ۔ جانوروں  کے باڑے میں بالکل سناٹا نہیں ہوتا تھا ، اپنے ساتھی کے بچھڑنے پر و ہ جانور چلا تاتھا ۔ بول بو ل کر اس کی کمی کا احساس دلا تا تھا۔جس جانور کی قربانی ہوجاتی تھی، اس کا مالک بھی منہ لٹکائے رہتاتھا ۔
ایک اور منظر دیکھئے،عیدالاضحیٰ کا تیسرادن ہے،صبح کا وقت ہے،گاؤں میں کہیں بھی جانوروں کی قربانی نہیں ہورہی ہے، کسی کے احاطےیا دروازے پر چھوٹے یا بڑے جانور نہیں ہیں۔سورج نکلنے سےدوپہر تک اکادکاقربانی ہی ہوئی ۔زیادہ نہیں یہی کوئی چارسال پہلےتک عید الاضحی کے تیسرے دن کی صبح اچھے خاصے جانوروں کی قربانی ہوتی تھی۔ تینوں دن ملاکر  اتنے جانور ہوتے تھے کہ کاٹنے والوں کو فرصت نہیں ملتی تھی ۔ وہ دن رات ایک کرکے قربانی کرتے تھے ، شام ہوتے ہوتے تھک کر چور ہوجاتے تھے ۔ فون نہیں تھا ، صبح ہوتے ہی اُن کے دروازے پر بلانے والوں کی بھیڑ لگ جاتی تھی ۔ سب یہی کہتے:’’ پہلے میرے ہاں چلو ، پہلے میرے ہاں چلو، پہلے میرا بنا دو ...۔‘‘ وہ جہاں جاتے تھے جانور ذبح ہونے کےبعدٹکڑے الگ الگ کرکے کسی دوسرے کے ہاں چلے جاتے تھے ، بوٹی گھر والے مارتے تھے ۔  اس دوران ان کے سر پر کوئی نہ کوئی سوار رہتا تھا۔ وہ اسےکام ختم ہونے سے پہلے اپنے ہاں لے جانے کی ضد کرتا تھا۔ اس طرح کاٹنے والوں کو ایک پل کیلئے بھی فرصت نہیں ملتی تھی ، پورے دن کھانا تک نہیں کھاتے تھے،وہ جس کے ہاں جاتے تھے ، سویاں یا گلاب جامن کھا کر پانی پی لیتے تھے ، کہیں چائے بھی مل جاتی تھی ۔ وہ صبح چھری لے کر نکلتے تھے ، اندھیرا ہونے کے بعد ہی گھر لوٹتے تھے۔ اس طرح  انہیں سورج ڈھلنے کے بعدہی دانہ نصیب ہوتا تھا ۔
جس گھر میں قربانی ہوتی تھی ، اس گھر کا ہرفرد کچھ نہ کچھ کرتا تھا ۔ سب کی ذمہ داریاں طے تھیں ۔ عید گاہ سے آنے کے فورا ً بعد سب سےپہلے کپڑا تبدیل کیاجاتاتھا ۔ گھر کے نوجوان اور لڑکے بوٹی بناتے تھے۔بڑے بوڑھے سب کا حصہ لگاتے تھے ۔ چھوٹے بچے گھر گھر گوشت پہنچاتے تھے ۔ گوشت گھر پہنچتے ہی عورتیں اسے لے کر بیٹھ جاتی تھیں۔ گھر کا کام کاج کرنے کےبعد دن بھرگوشت صاف کرتی تھیں ۔ ہینڈ پمپ سےپانی چلاکر اسے دھلتی تھیں۔ مٹی کے چولہےپر پایا جھلساتی تھیں، اسی چولہے پر گوشت ابالتی تھیں۔ اپنی من پسند سائزکی بوٹیاں بناتی تھیں، قیمہ بناتی تھیں ،گوشت کو پکانے کےقابل بناتی تھیں ۔ جب فریج نہیں تھا ، دھوپ میں گوشت سکھایا جاتا تھا، یہ گوشت محفوظ کرنے کا روایتی طریقہ تھا، یہ کام بھی گھر کی عورتیں کرتی تھیں ۔ اسی طرح گوشت کوایک ہفتے سے ڈیڑھ ہفتے تک محفوظ رکھنے کیلئے روزانہ اسے صبح شام ابالا جاتا تھا۔ گھر میں بڑے بڑے پتیلے رکھے ہوتے تھے۔  بلی سے بچانے کیلئے ان پر اینٹ یا کوئی وزنی چیز رکھ دی جاتی تھی ۔ کچھ گوشت پتیلے کے ساتھ ’سکہر‘ (چھینکا) پربھی رکھے جاتےتھے۔  اس زمانے میں گاؤں میں کم ہی لوگ اپنے ہاتھوں سے جانور ذبح کرتے تھے ، آ ج بھی یہ رجحان بہت زیادہ تبدیل نہیں ہوا ہے۔کوئی عالم دین اور حافظ قرآن وغیرہ ہی جانو ر ذبح کر تا ہے۔ پہلے جانور ذبح کرنے  والےعید الاضحی کےتینوں دن دم نہیں لے پاتے تھے، چین سے بیٹھ نہیں پاتے تھے ۔ ایک جگہ سے ہاتھ دھوکر لوٹتے تھے ، راستے ہی میں سے کوئی دوسر ا انہیں پکڑ لے جاتا تھا۔ لوگ انہیں سونے نہیں دیتے تھے ، صبح صبح جگادیتے تھے ۔ اکثر اُن کے کپڑے پر خون کے دھبے ہوتے تھے ۔ جب قربانی کے زیادہ جانور ہوتےتھے تب نئےکاٹنے والوں(نوآموز) کوبھی پورا موقع ملتاتھا ، ان کی اچھی خاصی آمدنی ہوجاتی تھی۔یہ پرانے کاٹنے والوں کا بوجھ ہلکا کردیتے تھے ۔  اب یہ الگ بات ہے کہ ان کی بوٹی جیسی تیسی ہوتی تھی۔ دوسال سے کورونا کے دور میں قربانی ہورہی ہے ،اسی لئے نئے کاٹنے والوں کام نہیں ملتا ہے  ۔اب پرانے کاٹنے والے بھی پہلے ہی دن سب کچھ نمٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ دوسرے دن قربانی کے خواہشمند افراد سے کہتے ہیں :’’ آج ہی کروالو...کام ختم ہوجائے گا .. ورنہ ایک ہی جانور کیلئے کل پھر ہاتھ لگا نا ہوگا۔ ‘‘ان میں سے اکثر سرگرمیاں شہر کی قربانی کا بھی حصہ ہیں۔