Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, December 29, 2021

کہیں ہم دوسروں کو یہی سب کچھ تو نہیں دے رہے ہیں؟


کامران غنی صبا /صدائے وقت. 
==================================
یہ بالکل فطری اصول ہے کہ ہم دوسروں کو وہی چیز دیتے ہیں جو ہماری فطرت سے ہم آہنگ ہو. چنانچہ جس کی طبیعت میں فیاضی ہوگی آپ دیکھیں گے کہ وہ غربت میں بھی فیاض ہوگا اور جس کی طبیعت میں بخالت ہوگی وہ دولت مند ہو کر بھی اپنی مٹھی کھولنے کو آمادہ نہیں ہوگا. جس کی طبیعت میں محبت ہوگی وہ نفرت تقسیم نہیں کر سکتا اور جس کی طبیعت میں نفرت ہو اس سے محبت کی توقع فضول ہے. پھر یہ بھی خوب اچھی طرح یاد رکھیے کہ فطرت کے اس اصول میں بھی عمل اور ردعمل ہے. یعنی ہم جو دوسروں کو دیتے ہیں وہی حاصل بھی کرتے ہیں. یعنی محبت تقسیم کرنے والوں کو محبت ملتی ہے، آسانیاں تقسیم کرنے والوں کو آسانیاں. نفرت کرنے والوں کو نفرت اور عداوت کرنے والوں کو بدلے میں عداوت ہی ملتی ہے. جو لوگ ہر وقت دوسروں کا گلہ شکوہ کرتے ہیں، کئی جگہ ان کے بھی گلے شکوے ہو رہے ہوتے ہیں. اسی طرح منفی تنقید کرنے والوں کی بھی تنقید ہی ہوتی ہے.
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہمارا ہر عمل ردعمل کا بیج ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس بیج کو خلوص کی مٹی میں بویا جائے. بعض دفعہ ہمارا عمل مصنوعی بھی ہوتا ہے. ہم دوسروں کی تعریف اس لیے کرتے ہیں کہ ہماری بھی تعریف کی جائے، ہم انہیں لوگوں کے کام آتے جن سے ہمیں توقع ہو کہ وہ بھی ہمارے کام آئیں گے. ہم دوسروں سے معاملات اس کی حیثیت کے مطابق کرتے ہیں. یاد رکھیے ہم خود کو تو فریب میں مبتلا کر سکتے ہیں، فطرت کو نہیں. مصنوعی عمل آخر کار وہی نتیجہ دیتا ہے جس نتیجے سے بچنے کے لیے ہم تصنع کا سہارا لیتے ہیں.
بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگ اپنی تعریف سننے کے لیے کچھ اچھے کام کرتے ہیں لیکن انہیں اپنی توقعات کے مطابق تعریف نہیں مل پاتی. آخر کار وہ اپنی پیٹھ خود ہی تھپتھپانے پر مجبور ہوتے ہیں. موقع بے موقع اپنی کارکردگیوں کو خود ہی بیان کرتے ہیں. اس طرح شخصیت بری طرح مجروح ہوتی ہے. اصل تعریف تو یہ ہے کہ لوگ ہمارے غائبانے میں ہمیں اچھے نام سے یاد کرنے پر مجبور ہوں. ایک استاد کی اصل تعریف یہ ہے کہ اس کے طلبہ سکوت نیم شب میں اس کے لیے دعا مانگنے پر مجبور ہوں.
قصہ مختصر یہ کہ ہم اپنے اعمال کے اخروی نتائج پر یقین رکھیں یا نہ رکھیں. دنیا میں بھی ہمیں وہی کچھ ملتا ہے جو ہم دوسروں کو دیتے ہیں. اس اصول کی روشنی میں ہم اپنا محاسبہ کر سکتے ہیں کہ ہمیں دوسروں سے کیا مل رہا ہے. اگر ہمیں دوسروں سے صرف شکایتیں، مایوسیاں اور محرومیاں مل رہی ہیں تو ہمیں غور کرنا چاہیے کہ کہیں ہم بھی دوسروں کو یہی سب کچھ تو نہیں دے رہے ہیں.......؟