Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, February 25, 2022

*قحط الرجال اور ہماری بے بسی،*



 *بقلم/ پروفیسر عبدالحليم* / صدائے وقت 
==================================
دنیاں جہان میں وجود پانے اور جنم لینے والا ہر بچہ عمر کے تمام مراحل سے گزرتے ہوئے اپنی طبعی عمر کو پہنچ کر اپنے مقدر کا آخری لقمہ اور آخری سانس مکمل کر مالک حقیقی سے جا ملتا ہے،
 *ہر بچہ پیدائش سے لیکر موت تک کے طویل سفر کی ابتداء گھریلو پرورش سے لیکر حصولِ تعلیم کی عمر تک پہنچ کر موروثی عقیدہ و مذہبی روایات پر قائم دائم رہتے ہوئے اعلیٰ تعلیم و تربیت حاصل کر ، ٹریننگ یافتہ ہو کر روزگار و مشاغل سے وابستگی کے لیے میدان عمل میں قدم رکھتا ہے،*
کُلّ مَؤلودٍ یُولَدُ علی الفطرۃ الأخ حدیث، 
 *تمام مراحل میں سب سے اہم مرحلہ ابتدائی تعلیم و تربیت، کردار سازی،سیرت نگاری،فیوچر پلان،رہنمائی کا ہوا کرتا ہے، ابتدائی لائحہ عمل میں کوتاہی و تساہلی ہی دراصل قحط الرجال اور بے بسی کی ذمہ دار ہوا کرتی ہے،* 
ادوار و زمانوں کے اختلاف سے ہر میدان میں بیشمار ریسرچ، تحقیقات، ایجادات، تبدیلیاں ہوتی رہیں تا ہنوز سلسلہ جاری ہے،
چنانچہ ہندوستان میں مروجہ طریقہ تعلیم میں بھی غیر معمولی طور پر تغیرات و تبدیلیاں واقع ہوئیں، عصری طریقہ تعلیم کے خود مختار بورڈز اور ادارے سی بی ایس سی، آئی سی ایس سی کے ماہرین نے تو یہاں تک نصاب تعلیم میں تبدیلیاں کردیں کہ ہم لوگوں کے زمانے اور بچپن میں دسویں بارہویں بلکہ یوں کہا جائے کہ جو پروفیشنل و ٹیکنیکل کورسز کے ابتدائی تعارفی نصاب میں پڑھایا جاتا تھا آج وہ تعارفی عنوانات پانچویں چھٹے کلاس کے نصابِ تعلیم میں داخل کر برسوں سے پڑھائے جا رہے ہیں،
 *قارئین* : تعلیمی سلسلہ میں دو قسم کی تبدیلیاں ہوا کرتی ہیں، 
 *نصاب تعلیم کی تبدیلی،* 
 *طریقہ تعلیم کی تبدیلی* 
 عصری تعلیم سے قطع نظر دینی علوم کے حصول میں کافی غور و فکر و تجزیہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچنا آسان ہو جاتا ہے کہ علوم دینیہ  کے نصاب میں تبدیلی کی گنجائش ہونی چاہیے کہ نہیں غور طلب مسئلہ ہے، البتہ ترمیم و ترتیب کی ضرورت بقدرِ گنجائش وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، 
اگر اس پر بھی علماء وقت کا اتفاق رائے ممکن نہ ہو سکے تو کم از کم طریقہ تعلیم اور نہج میں تبدیلی ضرور کرنی چاہیے، 
 *قارئین:* مشاہداتی دنیاں میں سبھی کو حقائق کی بنیاد پر آزادانہ و منصفانہ تجزیہ ضرور کرنا چاہیے، 
 دنیاوی علوم و فنون لسانیات، میڈیکل، انجینئرنگ، سائنس، ریسرچ و تحقیق غرضیکہ کسی بھی فیلڈ میں کبھی بھی کسی کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا گیا کہ فلاں کے دنیاں سے چلے جانے کے بعد اب انکی جگہ ان جیسا ماہر فن کب کہاں کیسے ملے گا،ان کا خلاء کیسے پورا ہوگا،
جبکہ اسلامی اسکالرز اور علماء دین کے انتقال کے بعد تعزیتی پیغامات اور خطابات میں بارہا تسلسل کے ساتھ یہ کہتے اور بولتے ہوئے ضرور سنا گیا کہ اب قحط الرجال کا زمانہ ہے ان جیسا کوئی نہیں ملے گا،انکی جگہ قیامت تک کوئی پُر نہیں کرسکتا وغیرہ وغیرہ، 
 *قارئین:* نعوذبااللہ گویا یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ساری قحط الرجالی، انحطاط،پستی، ٹیلینٹ و دماغ کی کمی، حوصلے و ہمت کی کمزوری ایک طبقہ خاص اور جماعت میں اپنا بسیرا اور گھر کر چکی ہے، 
کہیں ایسا تو نہیں کہ لاشعوری طور پر ایک خاص حلقہ میں یہ تسلیم کر لیا گیا ہے کہ پَستی،کمزوری، تعلیمی  گراوٹ ہمارا مقدر بن چکی ہے، 
 *رہتی دنیاں تک سرداری و حکمرانی، تبلیغ و تشہیر کرنے والی اسلامی حمیت کی حامل داعی قوم کے اندر مہمل، غیر معیاری، عیر شرعی باتیں کہاں سے کیوں کر گھر کر گئیں،* 
کہیں ایسا تو نہیں کہ کوششوں کی کمی، وقت پر اقدامات نہ کرنے، مستقبل  پلان نہ بنانے، ذمہ داریوں کو ٹھیک سے انجام نہ دینے کی وجہ سے غلطیوں و کوتاہیوں کے باعث امیدوں کے برعکس نتائج ملنے کی وجہ سے اپنی بے بسی کو قحط الرجال کا نام دیے دیا گیا،
شخصیت و توہم پرستی، مزاجی تنگی، عدم حوصلہ و ہمت افزائی، تنگ خیالی، تنگ نظری اور اسلامی تعلیمات کی اَندیکھی کی وجہ سے ایک خاص طبقہ نے نوجوانوں و نونہالوں کو نیابت و قیادت فراہم نہ کرنے کو عدم اہلیت و قحط الرجال کا نام دے دیا،
اس قحط الرجال کا وجود اور ظہور صرف ایک خاص طبقہ ہی میں کیوں، 
 *معیار اور کوالٹی کی کسوٹی معمار پر منحصر ہوا کرتی ہے،لھذاٰ اصلاحی اقدامات بہر صورت معمار اور قائد کے پیش نظر ہونی چاہیے تبھی معیاری کوالٹی کنٹرول دستیابی و فراہمی اور برآمدگی ممکن ہے* 
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد گرامی خیرالقرون قرنی کا مفہوم کہیں ایک خاص جماعت نے زمانہ رسالت کی دوری سے تعلیم ، سیاست، قیادت کے فقدان کو تو نہیں سمجھ لیا،
وقت رہتے محاسبہ کر خامیوں کا ازالہ ہی دراصل مؤمن کی دھروہڑ اور اصل وراثت ہے،

والسلام
 *مورخہ 25 فروری بروز جمعہ 2022*