Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, February 8, 2022

ورلڈ یونانی فاؤنڈیش کےزیراہتمام قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے مالی اشترک سے’علاج بالتدبیر: اہمیت و افادیت‘‘کے موضوع پر علی گڑھ میں خصوصی سمینارکا انعقاد۔

 
علی گڑھ.. اتر پردیش / صدائے وقت /8 فروری 2022 /ڈاکٹر نازش اعظمی 
==================================
عالم انسانیت جب سے وجود میں آئ ہے، تب سے ہی
 علاج و معالجہ کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ جدید طریقہ علاج کے ماہرین اور سائنسدانوں نے یہ اعتراف کیا ہے کہ طب یونانی عربوں اور دیگر مسلم بادشاہوں کے ساتھ  آئی ۔اور اس کا سفر وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں پہنچ کر جدید ایلوپیتھی طریقہ علاج اپنے ہاتھ کھڑے کر لیتا ہے۔ جب کہ انہیں سائنسدانوں کا ایک گروہ اس کی نفی کرتا ہے اور یونانی طب کو سرے سے علاج ہی نہیں مانتا۔جدید طریقۂ علاج ایلوپیتھی کے بہت سے پیروکار اور بہت سے مغربی ممالک یونانی طب کو قبول نہیں کرتے اور انسانی صحت کے لیے یونانی طریقہ علاج کے سخت مخالف ہیں۔اس کے برعکس  یونانی طب سے منسلک افراد کا سوال ہے کہ ایلوپیتھ سے قبل آخر کون سا طریقۂ علاج رائج تھا۔اگر ہم جدید طریقہ علاج اور قدیم طریقۂ علاج کا موازنہ کریں تو ہم پاتے ہیں کہ آج ہماری بیماری کا فیصلہ مشین اور رپورٹس کرتی ہیں۔ لیکن ایک زمانہ تھا جب ہم اپنی تکلیف کا خود فیصلہ کرتے تھے اور حکیم سے رجوع کرنے کے بعد بیماری کے کوائف کی بنیاد پر دوا لیتے تھے۔ ان خیالات کا اظہار گزشتہ روزعلی گڑھ میڈیکل کالج اور اے سی این ہاسپیٹل میں ورلڈ یونانی فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، حکومت ہندکے مالی تعاون  سے منعقدہ سمینار کے دوران طب یونانی کی مستند اور عبقری خصوصیات کے حامل ڈاکٹروں اور حکمانے کیا۔یہ تاریخی سمینار پانچ سیشن پر محیط تھا ۔  پہلے سیشن میں پروفیسر ایف ایس شیرانی نے وزارت آیوش اور NABHکے ضابطے کے مطابق یونانی پریکٹس کواپ گریڈکرکے اس کی افادیت کو عوام کے درمیان اس قدیم ترین اور قدرتی طریقہ علاج کو متعارف کرانے پر زور دیا۔ تاکہ عوام کے ذہن میں طب یونا نی سمیت دیگر دیسی طریقہ کے متعلق جو غلط فہمیاں ہیں ا سے دور کیا جا ئے۔
المیہ یہ ہے کہ جب سے ہم نے نیا طریقہ علاج اپنایا ہے ہمارا نظریہ بدل گیا ہے۔ اب ہمارا مقصد چند رپورٹ کو صحیح کرنا ہو گیا ہے۔اسے غفلت کہا جائے یا سہل پسندی کہ ہمارے بیشتر اطبا طب یونانی کی تعلیم حاصل کر لینے کے بعد اسی طریقہ علاج سے رخ موڑتے ہوئے باضابطہ طور پر ایلوپیتھک کی دوائیں لے کر بیٹھ جاتے ہیں اور یہ تصور کرنے لگتے ہیں وہ اپنے مریضوں کو جو ایلوپیتھک دوائیں دے رہے ہیں وہی مؤثر اور بہتر ہیں۔ حالاں کہ 
 اگر ہم پرانے انداز میں تکلیف پر توجہ دے کر کوائف کی بنیاد پر اسے دور کرنے کی کوشش کریں تو موت کے علاوہ ہر مرض کا علاج ہے والی بات کو حاصل کر سکتے ہیں۔پہلے سیشن کی صدارت پروفیسر شگفتہ علیم ،پروفیسرتبسم لطافت ،ڈاکٹر شارق علی خان اور ڈاکٹراجمل اخلاق نے مشترکہ طور پر کی ۔اس یک روزہ  سمینارکے دوسرے سیشن میں  پروفیسر محمد اکرم نے اپنا تحقیاتی مقالہ پیش کیا۔ان کے مقالے کا موضوع کووڈ جیسی وبا کو زیر نظر ر کھتے ہوئے علاج بالتدبیر تھا ، جسے سمینار میں شامل اطبا اور اسکالرس نے کافی سراہا، جبکہ پروفیسر شاکر جمیل،ڈاکٹر فاروق احمد ڈار، ڈاکٹر سلمان خالداور ڈاکٹر تنویر عالم نے مشترکہ طور پر اس سیشن کی صدارت کی۔ سمینار  کے تیسرے سیشن کا موضوع تھا’’ آیوش ہیلتھ کیئر کی ہدایات کے تحت علاج با لتدبیر تھا۔ سیشن کے خصوصی مقرر ڈاکٹر  یونس آئی منشی تھے اور پروفیسر آسیہ سلطان ، پروفیسر ضمیر احمد،ڈاکٹر محمد خالد اور ڈاکٹر  مہتاب عالم نے مشتر طور پر صدارت کی۔سمینار کے چوتھے سیشن کا موضوع  حجامہ کی اہمیت و فادیت تھا اور اس سیشن کے خصوصی مقرر ڈاکٹر محمد شاہد ملک تھے۔اس سیشن کی صدارت مشترکہ طور پر پروفیسر ایم انور، ڈاکٹر  محمدانس  اور معروف طبیب حکیم نازش احتشام اعظمی نے کی۔جب کہ پانچویں اور اختتامی سیشن کا موضوع وبائی دور حکیم اجمل خان ؒ کی تدبیر اور طریقہ علاج“Hakeem Ajmal Khan and Management of Epidemics– Experience Based Concept” ۔اس سیشن کے خصوصی مقررڈاکٹرمصباح الدین اظہر تھے۔جبکہ پروفیسر محمد ادریس، ڈاکٹرمحمد محسن، ڈاکٹر مبشرخان اورڈاکٹر منیر عظمت نے مشترکہ صدارت کے فرائض انجام دیے۔ جب کہ انتظامی اور بطور کنوینر محسن دہلوی ،ڈاکٹر محمد خالد، حکیم نازش احتشام اعظمی  اور ڈاکٹراجمل اخلاق نےکامیابی کے ساتھ سمینار کو حسنِ انجام تک پہنچایا۔اس موقع پر طب یونانی سے دلچسپی رکھنے والے حضرات اور طلبا و طالبات نے شرکت کی۔ موضوع کے اعتبار سے سمینار بہت کامیاب رہا۔