Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, April 6, 2022

*مدارس و عصری درسگاہوں کے نظام تعلیم اور بنیادی فرق*



 *بقلم:پروفیسر ڈاکٹر عبدالحليم قاسمی،* 
                        صدائے وقت 
=================================
اکثر و بیشتر مدارس اسلامیہ کے پروردہ و پیوستہ حضرات یونیورسٹیز، کالج، اسکولز کے نظام تعلیم کو لیکر اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ جو لوگ مدارس کے داخلی نظام و نصاب تعلیم میں دیگر علوم غیر ضروریہ کے داخل کرنے کی سفارشات کرتے وہ اپنی عصری درسگاہوں میں مذہبی اور دینی مضامین داخل نصاب کیوں نہیں کرتے، ساتھ ہی اس بات کا موازنہ و مقابلہ کر اپنے اور اپنے ذریعہ کئے جانے والے مذہبی و رفاہی کاموں کو مقبول و مبرور اور کافی و شافی کہ کر اس بات کا اعلانیہ بھی کرتے ہیں کہ تم نے قوم کو کیا دیا ہم نے تو امت مسلمہ کو یہ دیا یہ دیا وغیرہ، سارے مذہبی و رفاہی کاموں کے کریڈٹس اور عنداللہ ماجور ہونے کا دعویٰ کیا کرتے ہیں،
میرے خیال میں حسن کارکردگی، حصولیابی،کامیابی و کامرانی، درسگاہوں کی عظمت، اہمیت و پلیسمنٹ کے لیے مقابلہ آرائی کرنا کسی طرح مناسب اور موزوں نہیں،
قوم و ملت کے خالص شرعی سرمایہ کاری سے انجام دئیے جانے والے خلوص نیت سے متصف و معمور کاموں کو دنیاوی اداروں و یونیورسٹز ، کالج، اسکولز کا سہارا لیتے ہوئے استدلال کر اپنی بات کو تقویت دینا قرین قیاس اور درج ذیل وجوہات کی بنا پر مناسب نہیں،
( *1* )دینی درسگاہیں تقریباً 90 فیصد خالص قوم و ملت سے وصول یافتہ عطیات و صدقات واجبہ کی مرہون منت خالص امت مسلمہ کی دینی ضروریات کو پورا کرنے لیے بغیر کسی ملکی مداخلت خالص اپنے خود مختار انتظام اور خود ساختہ نصاب تعلیم کے تحت چلتے ہیں،
( *2* ) جبکہ یونیورسٹیاں ،کالجز، اسکولز یا تو خالص مرکزی و صوبائی حکومتی نظام یا خود کفیل سرمایہ کاری کی بنیاد پر چلتے ہیں،
( *3* ) مدارس اسلامیہ کی سرمایہ کاری عمومی رفاہی و صدقات واجبہ کے تعاون کے ساتھ ساتھ سارا نظام و نصابِ تعلیم کسی ملکی قانون کی منظوری کے بغیر خالص ارباب مدارس پر منحصر ہوا کرتا ہے،
( *4* ) یونیورسٹی،کالج ،اسکول سرکاری و غیر سرکاری سبھی عصری درسگاہیں بہر صورت مجموعی طور پر اپنے نظام و نصاب تعلیم میں ملکی قانون کے تابع اور تمام عہدوں پر تقرری وغیرہ اقلیتی کردار یافتہ اداروں کو چھوڑ کر سبھی اداروں میں ملکی قانون کی اطاعت لازمی ہوا کرتی ہے،
( *5* )ملک میں قائم مذہبی ادارے تمام تر ملکی قانون قید و بند سے آزاد زیادہ تر خود مختار اور موروثی نسل در نسل منتقل ہوا کرتے ہیں،
( *6* ) لھذاٰ ذاتی و خود مختار مذہبی نظام تعلیم اور ملکی جدید عصری نظام تعلیم کو باہم ایک دوسرے پر قیاس کرنا غیر مناسب اور قیاس مع الفارق ہے، 
اس مختصر تمہید کے بعد اگر عصری درسگاہوں کے منتظمین اپنے درسگاہوں میں جاری کورسز میں اپنے ذاتی اختیارات سے غیر متعلقہ مضامین کا اضافہ کرنا بھی چاہیں ایسا نہیں کر سکتے،
جبکہ دوسری طرف ارباب مدارس جن  علوم و فنون کو بحیثیت علوم عالیہ و آلیہ اپنی مرضی و صوابدید سے جب چاہیں داخل نصاب کرنے پر مکمل قدرت رکھتے ہیں،
 *ملکی اقلیتی عصری درسگاہیں* 
ملک ہندوستان میں مرکزی و صوبائی منظور شدہ اقلیتی عصری تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں اپنی ہمہ گیر علمی جامعیت کے تحت کسی نہ کسی شکل و مرحلہ میں مبادیات دین کی شناخت اور شعبہ اسلامیات کے الگ سے قیام پر کاربند ہیں،لیکن ان شعبہ اسلامک اسٹڈیز کی نوعیت مذہبی درسگاہوں سے تقریباً مختلف ہوا کرتی ہے،
 *مختلف علوم اور مقاصد*
بحیثیت مجموعی ارباب حل و عقد کو اس بات پر وقت رہتے غور فکر کر لائحہ عمل طے کرنا ہوگا کہ دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق تعلیم، رابطہ ہنر مندی،جواز کے حد تک تادیبی و ٹریننگ پروگرام، باشعور عوام میں بیداری لانے کے لیے سائنٹفک اورنٹیشن کا انعقاد وقت کی ضرورت ہے کہ نہیں،
اگر ذمہ دار ارباب کو ایسا گمان گزرے کہ اس طرح کے مضامین مذہبی درسگاہوں کے لیے خطرہ کا نشان اور دراندازی پر مبنی ہیں تو ٹھیک ہے،
بصورت دیگر امت مسلمہ اور نوجوانان امت کو موجودہ تقاضوں کے مطابق اپڈیٹ کرنے کے لیے بغیر کسی موازنہ و مقابلہ آرائی کے اختیار کرنا چاہیے،
 *بد ظنی، حقائق، مشاہدات*
ہندوستان میں مشہور مرکزی و صوبائی یونیورسٹیاں اور انکے داخلی نظام مشاہدات سے تعلق رکھتے ہیں،
گزشتہ دو دہائیوں میں بالعموم عصری تعلیم کے باوجود دین فہمی اور مذہبی تشخص و حساسیت، اقتداء اور اسلامی تعلیمات کی بجا آوری میں جو اضافہ ہوا ہے وہ کافی تو نہیں البتہ اطمنان بخش ضرور ہے،
ایسے خالص ملکی سرمایہ کاری اور نظام کے تحت چلنے والے عصری اداروں میں مختلف مذاہب اور قوم کے ماننے والے طلباء و طالبات زیر تعلیم ہوا کرتے ہیں، 
لھذاٰ بعینہ مذہبی اداروں کے مانند ان عصری درسگاہوں سے توقعات وابستہ کرنا ممکن نہیں،
 *مؤدبانہ گزارش* 
ایسے سبھی حضرات جو کسی نہ کسی حد تک عصری درسگاہوں کی تعلیم، ماحول، تربیت سے بدگمان ہیں ان سے میری گزارش ہے کہ ہندوستان میں قائم وہ عصری اقلیتی ادارے جہاں کسی حد تک مسلم طلباء و اساتذہ کی اکثریت اور ماحول غالب ہے وہاں کا دورہ کر سروے کرنے اور طلباء سے بات کرنے بعد کوئی حتمی نظریہ قائم کریں، 
 *حقیقت حال* 
سچائی یہ ہے کہ ہندوستان میں جب بھی کوئی مسئلہ حکومتی سطح پر مسلمانان ہند کے متعلق پیش آتا ہے تو انھیں عصری درسگاہوں کے طلباء جنتر منتر پر احتجاج کرتے نظر آتے دیکھنے کو ملتے ہیں،
آج بھی انھیں درسگاہوں کے پروردہ سیکڑوں طلباء و طالبات جیلوں کے سلاخوں کے پیچھے بند ہیں، 
 *انصاف پسند نظریہ* 
ملک میں مروجہ سبھی تعلیمی اداروں سے بغیر کسی مقابلہ و موازنہ آرائی کے جہاں جتنا موقع ملے تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کرنا چاہیے، 
کسی تعلیم کسی درسگاہ میں باہمی موازنہ تعلیمی برتری و ابتری اہل علم کا شیوہ نہیں،
 *خدمات دین*
خدمت دین کی توفیق میسر ہونے پر اظہار تشکر کے سوا مقابلہ و موازنہ آرائی برتری تَعَلّی و غرور بلا شرط و توجیہ درس نبوی کے خلاف ہے، 
سارا دار و مدار مشیت الہی پر منحصر ہے، 
شکریہ
 *مورخہ 6 اپریل بروز بدھ 2022*